وعن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنه قالت: قدمت علي امي وهي مشركة في عهد قريش فقلت: يا رسول الله إن امي قدمت علي وهي راغبة افاصلها؟ قال: «نعم صليها» . متفق عليه وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: «نعم صِليها» . مُتَّفق عَلَيْهِ
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میری والدہ میرے پاس تشریف لائیں جبکہ وہ مشرکہ تھی، یہ اس وقت کی بات ہے جب قریش سے (حدیبیہ کا) معاہدہ ہوا تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بے شک میری والدہ میرے پاس آئی ہیں جبکہ وہ بہتر سلوک کی متمنی ہے تو کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اس سے صلہ رحمی کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2620) و مسلم (1003/50)»