وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يكون المؤمن لعانا» . وفي رواية: «لاينبغي للمؤمن ان يكون لعانا» . رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لعانا» . وَفِي رِوَايَة: «لاينبغي لِلْمُؤمنِ أَن يكون لعانا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”مومن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ لعنت کرنے والا ہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2019)»
وعن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تلاعنوا بلعنة الله ولا بغضب الله ولا بجهنم» . وفي رواية «ولا بالنار» . رواه الترمذي وابو داود وَعَن سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَلَاعَنُوا بِلَعْنَةِ اللَّهِ وَلَا بِغَضَبِ اللَّهِ وَلَا بِجَهَنَّمَ» . وَفِي رِوَايَةٍ «وَلَا بِالنَّارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دوسرے کو ایسے نہ کہو: تم پر اللہ کی لعنت ہو، تم پر اللہ کا غضب ہو اور تم جہنم میں جاؤ۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”ایسے بھی نہ کہو: تم (جہنم کی) آگ میں جاؤ۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1976 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (4906) ٭ قتادة مدلس و عنعن و لحديثه شاھد مرسل عند البغوي في شرح السنة (3557) و مصنف عبد الرزاق (19531)»
وعن ابي الدرداء قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن العبد إذا لعن شيئا صعدت اللعنة إلى السماء فتغلق ابواب السماء دونها ثم تهبط إلى الارض فتغلق ابوابها دونها ثم تاخذ يمينا وشمالا فإذا لم تجد مساغا رجعت إلى الذي لعن فإن كانت لذلك اهلا وإلا رجعت إلى قائلها» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا لَعَنَ شَيْئًا صَعِدَتِ اللَّعْنَةُ إِلَى السَّمَاءِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ دُونَهَا ثُمَّ تَهْبِطُ إِلَى الْأَرْضِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُهَا دُونَهَا ثُمَّ تَأْخُذُ يَمِينًا وَشِمَالًا فَإِذَا لَمْ تَجِدْ مَسَاغًا رَجَعَتْ إِلَى الَّذِي لُعِنَ فَإِنْ كَانَت لِذَلِكَ أَهْلًا وَإِلَّا رَجَعَتْ إِلَى قَائِلِهَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب بندہ کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے، تو اس کے پہنچنے سے پہلے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے، اس کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ دائیں بائیں جاتی ہے، جب وہ کوئی راستہ نہیں پاتی تو وہ اس شخص کی طرف جاتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی، بشرطیکہ وہ اس کا مستحق ہو ورنہ وہ کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (4905) ٭ نمران بن عتبة الذماري مجھول.»
وعن ابن عباس ان رجلا نازعته الريح رداءه فلعنها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تلعنها فإنها مامورة وانه من لعن شيئا ليس له باهل رجعت اللعنة عليه» . رواه الترمذي وابو داود وَعَن ابنِ عبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا نَازَعَتْهُ الرِّيحُ رِدَاءَهُ فَلَعَنَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَلْعَنْهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ وَأَنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہوا نے ایک آدمی کی چادر اڑا دی تو اس نے اس پر لعنت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ وہ تو حکم کی پابند ہے، اور جو شخص کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے، جبکہ وہ اس کی مستحق نہیں ہوتی تو پھر وہ لعنت اسی شخص پر لوٹ آتی ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (1978 وقال: حسن غريب) و أبو داود (4908) ٭ قتادة مدلس و عنعن.»
وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يبلغني احد من اصحابي عن احد شيئا فإني احب ان اخرج إليكم وانا سليم الصدر» . رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُبَلِّغُنِي أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِي عَنْ أَحَدٍ شَيْئًا فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرا کوئی صحابی کسی دوسرے صحابی کے بارے میں مجھے کوئی (ناپسندیدہ) بات نہ پہنچائے، کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ جب میں تمہارے پاس آؤں تو میرا سینہ صاف ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4860) ٭ وليد بن أبي ھشام: مستور و شيخه زيد بن زايد: لم يوثقه غير ابن حبان.»
وعن عائشة قالت: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: حسبك صفية كذا وكذا-تعني قصيرة-فقال: «لقد قلت كلمة لو مزج بها البحر لمزجته» . رواه احمد والترمذي وابو داود وَعَن عَائِشَة قَالَتْ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَسبك صَفِيَّةَ كَذَا وَكَذَا-تَعْنِي قَصِيرَةً-فَقَالَ: «لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَ بِهَا الْبَحْرُ لَمَزَجَتْهُ» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: آپ کو صفیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بس یہ یہ کافی ہے یعنی ان کا قد چھوٹا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ایک ایسی بات کی ہے اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اس پر غالب آ جائے (یعنی اس کی کیفیت بدل ڈالے)۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (189/6 ح 26075) و الترمذي (2502) و أبو داود (4875)»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما كان الفحش في شيء إلا شانه وما كان الحياء في شيء إلا زانه» . رواه الترمذي وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شيءٍ إِلا زانَهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”فحش گوئی جس چیز میں ہو، وہ اسے معیوب بنا دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو وہ اسے مزین کر دیتا ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1974 وقال: حسن غريب)»
وعن خالد بن معدان عن معاذ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من عير اخاه بذنب لم يمت حتى يعمله» يعني من ذنب قد تاب منه-. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وليس إسناده بمتصل لان خالدا لم يدرك معاذ بن جبل وَعَن خالدِ بن معدانَ عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ عَيَّرَ أَخَاهُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يَعْمَلَهُ» يَعْنِي مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْهُ-. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ لِأَنَّ خَالِدًا لَمْ يُدْرِكْ معَاذ بن جبل
خالد بن معدان، معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو (اس کے سابقہ کسی) گناہ پر ملامت کرتا ہے تو یہ شخص مرنے سے پہلے اس (گناہ) کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ “ اس سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہو۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں کیونکہ خالد کی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2505) ٭ محمد بن الحسن الھمداني ضعيف و السند منقطع.»
وعن واثلة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تظهر الشماتة لاخيك في ويبتليك» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَن وَاثِلَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «لَا تظهر الشماتة لأخيك فِي وَيَبْتَلِيَكَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے (مسلمان) بھائی (کے مصیبت میں مبتلا ہونے) پر خوشی کا اظہار نہ کر، ممکن ہے اللہ اس پر رحم فرما دے اور تمہیں (اس مصیبت میں) مبتلا کر دے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2506) ٭ مکحول لم يسمعه من واثلة رضي الله عنه فالسند منقطع وقوله: ’’ندانم‘‘ سنده حسن.»
وعن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما احب اني حكيت احدا وان لي كذا وكذا» . رواه الترمذي وصححه وَعَن عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ أَحَدًا وَأَنَّ لي كَذَا وَكَذَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَصَححهُ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا خواہ مجھے اتنا اتنا مال دیا جائے۔ “ ترمذی نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (2503)»