وعنه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يكتحل قبل ان ينام بالإثمد ثلاثا في كل عين قال: وقال: «إن خير ما تداويتم به اللدود والسعوط والحجامة والمشي وخير ما اكتحلتم به الإثمد فإنه يجلو البصر وينبت الشعر وإن خير ما تحتجمون فيه يوم سبع عشرة ويوم تسع عشرة ويوم إحدى وعشرين» وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث عرج به ما مر على ملا من الملائكة إلا قالوا: عليك بالحجامة. رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْتَحِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ بِالْإِثْمِدِ ثَلَاثًا فِي كُلِّ عَيْنٍ قَالَ: وَقَالَ: «إِنَّ خَيْرَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ اللَّدُودُ وَالسَّعُوطُ وَالْحِجَامَةُ وَالْمَشِيُّ وَخَيْرَ مَا اكْتَحَلْتُمْ بِهِ الْإِثْمِدُ فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعْرَ وَإِنَّ خَيْرَ مَا تَحْتَجِمُونَ فِيهِ يَوْمُ سَبْعَ عَشْرَةَ وَيَوْمُ تِسْعَ عَشْرَةَ وَيَوْمُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ» وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ عُرِجَ بِهِ مَا مَرَّ عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا: عَلَيْكَ بِالْحِجَامَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر رات سونے سے پہلے ہر آنکھ میں تین مرتبہ اصفہانی سرمہ لگایا کرتے تھے، راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دوائی جس کے ذریعے تم علاج کرتے ہو وہ دوائی ہے، جو منہ کے اندر ایک جانب میں ڈالی جائے، اور وہ دوائی جو ناک کے ذریعے ٹپکائی جائے اور پچھنے لگوانا اور جلاب لینا ہے اور بہترین سرمہ اصفہانی ہے کیونکہ وہ بصارت کو جلا بخشتا ہے اور (پلکوں کے) بال اگاتا ہے، اور سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو پچھنے لگوانا سب سے بہتر ہے۔ “ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کے سفر میں جس بھی جماعت ملائکہ کے پاس سے گزرتے تو انہوں نے یہی کہا: آپ پچھنے لگوانے کا التزام کریں۔ ترمذی، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2048) ٭ فيه عباد بن منصور: ضعيف، ضعفه الجمھور من جھة حفظه و لبعض حديثه شواھد عند البخاري (5712) وغيره.»
وعن عائشة: ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى الرجال والنساء عن دخول الحمامات ثم رخص للرجال ان يدخلوا بالميازر. رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ عَنْ دُخُولِ الْحَمَّامَاتِ ثُمَّ رَخَّصَ لِلرِّجَالِ أَنْ يَدْخُلُوا بِالْمَيَازِرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو حماموں میں داخل ہونے سے منع فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کو تہبند پہن کر جانے کی اجازت فرمائی۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2802 وقال: إسناده ليس بذاک القائم‘‘) و أبو داود (4009) ٭ و أبو عذرة: حسن الحديث، و السند قائم و الحمد للّٰه.»
وعن ابي المليح قال: قدم على عائشة نسوة من اهل حمص فقالت: من اين انتن؟ قلن: من الشام فلعلكن من الكورة التي تدخل نساؤها الحمامات؟ قلن: بلى قالت: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تخلع امراة ثيابها في غير بيت زوجها إلا هتكت الستر بينها وبين ربها» . وفي رواية: «في غير بيتها إلا هتكت سترها بينها وبين الله عز وجل» . رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ أَبِي الْمَلِيحِ قَالَ: قَدِمَ عَلَى عَائِشَةَ نِسْوَةٌ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ فَقَالَتْ: مَنْ أَيْنَ أنتنَّ؟ قلنَ: من الشَّامِ فَلَعَلَّكُنَّ مِنَ الْكُورَةِ الَّتِي تَدْخُلُ نِسَاؤُهَا الْحَمَّامَاتِ؟ قُلْنَ: بَلَى قَالَتْ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَخْلَعُ امْرَأَةٌ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا هَتَكَتِ السِّتْرَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ رَبِّهَا» . وَفِي رِوَايَةٍ: «فِي غيرِ بيتِها إِلا هتكت سترهَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد
ابو ملیح بیان کرتے ہیں، اہل حمص سے کچھ عورتیں عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم کہاں سے ہو؟ انہوں نے بتایا: ملکِ شام سے، عائشہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: شاید کہ تم کورہ سے ہو جہاں کی عورتیں حماموں میں جاتی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عورت اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کسی جگہ اپنے کپڑے اتارتی ہے تو اس نے اپنے اور رب کے درمیان حائل حجاب چاک کر دیا۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”اپنے گھر کے علاوہ، تو اس کے اور اللہ عزوجل کے مابین جو حجاب تھا وہ اس نے چاک کر دیا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2803 وقال: حسن) و أبو داود (4010) [و ابن ماجه (3750)]»
وعن عبد الله بن عمرو ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ستفتح لكم ارض العجم وستجدون فيها بيوتا يقال لها: الحمامات فلا يدخلنها الرجال إلا بالازر وامنعوها النساء إلا مريضة او نف اء. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَتُفْتَحُ لَكُمْ أَرْضُ الْعَجَمِ وَسَتَجِدُونَ فِيهَا بُيُوتًا يُقَالُ لَهَا: الْحَمَّامَاتُ فَلَا يَدْخُلَنَّهَا الرِّجَالُ إِلَّا بِالْأُزُرِ وَامْنَعُوهَا النِّسَاءَ إِلَّا مَرِيضَةً أَوْ نُفَ َاءَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے سرزمین عجم فتح ہو جائے گی اور تم وہاں کچھ گھر پاؤ گے جنہیں حمام کہا جائے گا، اس میں صرف مرد تہبند باندھ کر داخل ہوں اور خواتین کو ان میں جانے سے منع کرو مگر جو مریضہ ہو یا حالتِ نفاس میں ہو (اسے اجازت ہے)۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4011) [و ابن ماجه (3748)] ٭ فيه عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم الإفريقي وھو ضعيف مشھور.»
وعن جابر ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام بغير إزار ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل حليلته الحمام ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يجلس على مائدة تدار عليها الخمر» . رواه الترمذي والنسائي وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدخلِ الحمّامَ بِغَيْر إِزارٍ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يدْخل حَلِيلَتَهُ الْحَمَّامَ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَجْلِسُ عَلَى مَائِدَةٍ تُدَارُ عَلَيْهَا الْخمر» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ تہبند کے بغیر حمام میں نہ جائے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنی اہلیہ کو حمام میں جانے کی اجازت نہ دے اور جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دَور چلتا ہو۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2810 وقال: حسن غريب) و النسائي (198/1 ح 401 مختصرًا جدًا و حديثه حسن بالشاھد الحسن الذي رواه الترمذي في سننه: 2802) ٭ ليث بن أبي سليم ضعيف و حديث النسائي حسن.»
عن ثابت قال: سئل انس عن خضاب النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لو شئت ان اعد شمطات كن في راسه فعلت قال: ولم يختضب زاد في رواية: وقد اختضب ابو بكر بالحناء والكتم واختضب عمر بالحناء بحتا عَن ثابتٍ قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ خِضَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَوْ شِئْتَ أَنْ أَعُدَّ شَمَطَاتٍ كُنَّ فِي رَأْسِهِ فَعَلْتُ قَالَ: وَلَمْ يَخْتَضِبْ زَادَ فِي رِوَايَةٍ: وَقَدِ اخْتَضَبَ أَبُو بَكْرٍ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ وَاخْتَضَبَ عُمَرُ بِالْحِنَّاءِ بحتا
ثابت ؒ بیان کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خضاب کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اگر میں چاہتا کہ آپ کے سر کے سفید بال شمار کروں تو میں کر سکتا تھا، اور انہوں نے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خضاب نہیں لگایا۔ ایک دوسری روایت میں اضافہ نقل کیا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مہندی اور وسمہ کے ساتھ خضاب کیا جبکہ عمر رضی اللہ عنہ نے صرف مہندی سے خضاب کیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5895) و مسلم (103/ 2341)»
وعن ابن عمر انه كان يصفر لحيته بالصفرة حتى تمتلئ ثيابه من الصفرة فقيل له: لم تصبغ بالصفرة؟ قال: اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها ولم يكن شيء احب إليه منها وقد كان يصبغ ثيابه كلها حتى عمامته. رواه ابو داود والنسائي وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَصْفِّرُ لِحْيَتَهُ بِالصُّفْرَةِ حَتَّى تَمْتَلِئَ ثِيَابُهُ مِنَ الصُّفْرَةِ فَقِيلَ لَهُ: لِمَ تُصْبِغُ بِالصُّفْرَةِ؟ قَالَ: أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهَا وَقد كَانَ يصْبغ ثِيَابَهُ كُلَّهَا حَتَّى عِمَامَتَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنی داڑھی کو زرد رنگ دیا کرتے تھے حتی کہ زرد رنگ سے ان کے کپڑے بھر جاتے تھے، ان سے پوچھا گیا، آپ زرد رنگ کیوں لگاتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے ساتھ رنگتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ کو یہ رنگ سب سے زیادہ پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام کپڑے حتی کہ اپنا عمامہ بھی اسی کے ساتھ رنگا کرتے تھے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4064) و النسائي (140/8 ح 5088)»
وعن عثمان بن عبد الله بن موهب قال: دخلت على ام سلمة فاخرجت إلينا شعرا من شعر النبي صلى الله عليه وسلم مخضوبا. رواه البخاري وَعَن عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَأَخْرَجَتْ إِلَيْنَا شَعْرًا مِنْ شَعْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مخضوبا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عثمان بن عبداللہ بن موہب بیان کرتے ہیں، میں ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو انہوں نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنگین بال دکھائے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5897)»
وعن ابي هريرة قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بمخنث قد خضب يديه ورجليه بالحناء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما بال هذا؟» قالوا: يتشبه بالنساء فامر به فنفي إلى النقيع. فقيل: يا رسول الله الا تقتله؟ فقال: «إني نهيت عن قتل المصلين» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمُخَنَّثٍ قَدْ خَضَبَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ بِالْحِنَّاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَالُ هَذَا؟» قَالُوا: يَتَشَبَّهُ بِالنِّسَاءِ فَأَمَرَ بِهِ فَنُفِيَ إِلَى النَّقِيعِ. فَقيل: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَقْتُلُهُ؟ فَقَالَ: «إِنِّي نُهِيتُ عَنْ قَتْلِ الْمُصَلِّينَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک مخنث (ہجڑا) لایا گیا جس نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگا رکھی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا، وہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے، آپ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اسے نقیع کی طرف جلا وطن کر دیا گیا، آپ سے عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4928) ٭ قال الدارقطني: ’’أبو ھاشم و أبو يسار: مجھولان ولا يثبت الحديث‘‘ و قال الذھبي: ’’إسناد مظلم لمتن منکر.‘‘»
وعن الوليد بن عقبة قال: لما فتح رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة جعل اهل مكة ياتونه بصبيانهم فيدعو لهم بالبركة ويمسح رؤوسهم فجيء بي إليه وانا مخلق فلم يمسني من اجل الخلوق. رواه ابو داود وَعَن الوليدِ بن عقبةَ قَالَ: لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ جَعَلَ أَهْلُ مَكَّةَ يَأْتُونَهُ بصبيانهم فيدعو لَهُم بِالْبركَةِ وَيمْسَح رؤوسهم فَجِيءَ بِي إِلَيْهِ وَأَنَا مُخَلَّقٌ فَلَمْ يَمَسَّنِي من أجل الخَلوق. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا تو اہل مکہ اپنے بچے آپ کے پاس لانے لگے، آپ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، مجھے بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا جبکہ میں نے خلوق (زعفران کے ساتھ مخلوط خوشبو) لگائی ہوئی تھی، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلوق کی وجہ سے مجھے ہاتھ نہ لگایا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4181) ٭ عبد الله الھمداني: مجھول، و خبره منکر، قاله ابن عبد البر.»