وعن انس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «سيد إدامكم الملح» . رواه ابن ماجه وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَيِّدُ إِدَامِكُمُ الْمِلْحُ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے سالن کا سردار نمک ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (3315) ٭ فيه عيسي الحناط: متروک و السند ضعفه البوصيري.»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا وضع الطعام فاخلعوا نعالكم فإنه اروح لاقدامكم» وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَ الطَّعَامُ فَاخْلَعُوا نِعَالَكُمْ فإِنَّه أرْوَحُ لأقدامكم»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھانا لگا دیا جائے تو اپنے جوتے اتار دیا کرو، کیونکہ یہ تمہارے پاؤں کے لیے زیادہ آرام دہ ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا موضوع، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا موضوع، رواه الدارمي (108/2 ح 2086، نسخة محققة: 2125) ٭ فيه موسي بن محمد بن إبراهيم: متروک، و السند منقطع و قال الذھبي في تلخيص المستدرک (119/4): ’’أحسبه موضوعًا و إسناده مظلم‘‘.»
وعن اسماء بنت ابي بكر: انها كانت إذا اتيت بثريد امرت به فغطي حتى تذهب فورة دخانه وتقول: اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «هو اعظم للبركة» . رواهما الدارمي وَعَن أسماءَ بنتِ أبي بكرٍ: أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا أَتَيْتُ بِثَرِيدٍ أَمَرَتْ بِهِ فَغُطِّيَ حَتَّى تَذْهَبَ فَوْرَةُ دُخَانِهِ وَتَقُولُ: أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «هُوَ أعظم للبركة» . رَوَاهُمَا الدَّارمِيّ
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس ثرید لایا جاتا تو آپ کے کہنے پر اسے ڈھانک دیا جاتا حتی کہ اس کا جوش حرارت ختم ہو جاتا۔ اور وہ فرماتی تھیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایسا کرنا زیادہ باعث برکت ہے۔ “ دونوں روایتیں امام دارمی نے نقل کیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (100/2 ح 2053، نسخة محققة: 2091) [وأبو نعيم في حلية الأولياء (177/8) و ابن حبان (الإحسان: 5184 / 5207) والحاکم (118/4)] ٭ فيه الزھري: مدلس و عنعن.»
وعن نبيشة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اكل في قصعة ثم لحسها تقول له القصعة: اعتقك الله من النار كما اعتقتني من الشيطان. رواه رزين وَعَن نُبَيْشَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَكَلَ فِي قَصْعَةٍ ثُمَّ لَحِسَهَا تَقُولُ لَهُ الْقَصْعَةُ: أَعْتَقَكَ اللَّهُ مِنَ النَّارِ كَمَا أعتقتَني منَ الشيطانِ. رَوَاهُ رزين
نبیشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی برتن میں کھا کر اسے اچھی طرح صاف کرتا ہے تو وہ برتن اس کے متعلق کہتا ہے: اللہ تمہیں جہنم سے آزادی عطا فرمائے جس طرح تم نے مجھے شیطان سے آزادی دی۔ “ لم اجدہ، رواہ رزین۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «لم أجده، رواه رزين (لم أجده) وانظر ح 4218»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليصمت» . وفي رواية: بدل «الجار» ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليصل رحمه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ» . وَفِي رِوَايَةٍ: بَدَلَ «الْجَارِ» وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رحِمَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ خیر و بھلائی کی بات کرے ورنہ خاموش رہے ایک دوسری روایت میں: پڑوسی کے بجائے یہ الفاظ ہیں: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6018، و الرواية الثانية: 6138) و مسلم (47/75)»
وعن ابي شريح الكعبي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوم وليلة والضيافة ثلاثة ايام فما بعد ذلك فهو صدقة ولا يحل له ان يثوي عنده حتى يحرجه» وَعَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فَمَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحَرِّجَهُ»
ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور وہ ایک دن ایک رات ہے، اور ضیافت تین دن کے لیے ہے، اس کے بعد صدقہ ہے۔ اور مہمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں اس قدر قیام کرے کہ وہ اسے تنگی میں مبتلا کر دے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6019) و مسلم (48/14)»
وعن عقبة بن عامر قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: إنك تبعثنا فتنزل بقوم لا يقروننا فما ترى؟ فقال لنا: «إن نزلتم بقوم فامروا لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا فان لم يفعلوا فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم» وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّك تبعثنا فتنزل بِقَوْمٍ لَا يُقْرُونَنَا فَمَا تَرَى؟ فَقَالَ لَنَا: «إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا فَانْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حق الضَّيْف الَّذِي يَنْبَغِي لَهُم»
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، آپ ہمیں بھیجتے ہیں، اور ہم کسی قوم کے ہاں پڑاؤ ڈالتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے اس بارے میں جناب کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم کسی قوم کے ہاں پڑاؤ ڈالو اور وہ مہمان نوازی کے مطابق تمہاری مہمان نوازی کریں تو اسے قبول کرو اور اگر وہ مہمان نوازی نہ کریں تو پھر مہمان نوازی کا جو حق ہے وہ ان سے وصول کر سکتے ہو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2461) و مسلم (1727/17)»
وعن ابي هريرة قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وليل ة فإذا هو بابي بكر وعمر فقال: «ما اخرجكما من بيوتكما هذه الساعة؟» قالا: الجوع قال: «وانا والذي نفسي بيده لاخرجني الذي اخرجكما قوموا» فقاموا معه فاتى رجلا من الانصار فإذا هو ليس في بيته فلما راته المراة قالت: مرحبا واهلا فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اين فلان؟» قالت: ذهب يستعذب لنا من الماء إذ جاء الانصاري فنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحبيه ثم قال: الحمد لله ما احد اليوم اكرم اضيافا مني قال: فانطلق فجاءهم بعذق فيه بسر وتمر ورطب فقال: كلوا من هذه واخذ المدية فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إياك والحلوب» فذبح لهم فاكلوا من الشاة ومن ذلك العذق وشربوا فلما ان شبعوا ورووا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي بكر وعمر: «والذي نفسي بيده لتسالن عن هذا النعيم يوم القيامة اخرجكم من بيوتكم الجوع ثم لم ترجعوا حتى اصابكم هذا النعيم» . رواه مسلم. وذكر حديث ابي مسعود: كان رجل من الانصار في «باب الوليمة» وَعَن أبي هريرةَ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْم وَلَيْل ة فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ: «مَا أَخْرَجَكُمَا مِنْ بُيُوتِكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ؟» قَالَا: الْجُوعُ قَالَ: «وَأَنَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا قُومُوا» فَقَامُوا مَعَهُ فَأَتَى رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ فَلَمَّا رَأَتْهُ المرأةُ قَالَت: مرْحَبًا وَأهلا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيْنَ فُلَانٌ؟» قَالَتْ: ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنَ الْمَاءِ إِذْ جَاءَ الْأَنْصَارِيُّ فَنَظَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أكرمَ أضيافاً مني قَالَ: فانطَلَق فَجَاءَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ فَقَالَ: كُلُوا مِنْ هَذِهِ وَأَخَذَ الْمُدْيَةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِيَّاكَ وَالْحَلُوبَ» فَذَبَحَ لَهُمْ فَأَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ وَمِنْ ذَلِكَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمُ الْجُوعُ ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّى أَصَابَكُمْ هَذَا النعيمُ» . رَوَاهُ مُسلم. وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي مَسْعُودٍ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَار فِي «بَاب الْوَلِيمَة»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کسی روز یا کسی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تمہیں کس چیز نے تمہارے گھروں سے نکالا؟“ انہوں نے عرض کیا، بھوک نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے بھی اسی چیز نے نکالا جس نے تمہیں نکالا ہے، چلو!“ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل دیئے۔ آپ ایک انصاری صحابی کے پاس تشریف لائے لیکن وہ گھر پر نہیں تھے، جب اس کی اہلیہ نے آپ کو دیکھا تو کہا: خوش آمدید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”فلاں کہاں ہے؟“ اس نے عرض کیا: وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں، اتنے میں وہ انصاری بھی تشریف لے آئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو پکار اٹھے: الحمد للہ، مہمانی کے لحاظ سے آج کا دن میرے لیے بہت ہی باعث عزت ہے، راوی بیان کرتے ہیں، وہ شخص گیا اور کھجوروں کا خوشہ لایا جس میں کچی، پکی اور عمدہ ہر قسم کی کھجوریں تھیں، اس نے عرض کیا، آپ انہیں تناول فرمائیں، اور خود اس نے چھری پکڑ لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”دودھ دینے والی بکری سے احتیاط کرنا۔ “ اس نے ان کی خاطر بکری ذبح کی، انہوں نے اس بکری کا گوشت کھایا اور کھجوریں کھائیں اور پانی پیا۔ جب وہ سیر و سیراب ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روز قیامت تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، بھوک نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، پھر تم ان نعمتوں سے مستفید ہو کر واپس جاؤ گے۔ “ رواہ مسلم۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ”انصار میں سے ایک آدمی تھا ....۔ ”باب الولیمۃ“ میں ذکر کی گئی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2038/14) حديث أبي مسعود تقدم (3219)»
عن المقدام بن معدي كرب سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «ايما مسلم ضاف قوما فاصبح الضيف محروما كان حقا على كل مسلم نصره حتى ياخذ له بقراه من ماله وزرعه» . رواه الدارمي وابو داود وفي رواية: «وايما رجل ضاف قوما فلم يقروه كان له ان يعقبهم بمثل قراه» عَن المقدامِ بن معدي كرب سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَيُّمَا مُسْلِمٍ ضَافَ قَوْمًا فَأَصْبَحَ الضَّيْفُ مَحْرُومًا كَانَ حَقًّا عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ نَصْرُهُ حَتَّى يَأْخُذَ لَهُ بِقِرَاهُ مِنْ مَالِهِ وَزَرْعِهِ» . رَوَاهُ الدَّارمِيّ وَأَبُو دَاوُد وَفِي رِوَايَة: «وَأَيُّمَا رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا فَلَمْ يُقْرُوهُ كَانَ لَهُ أَن يعقبهم بِمثل قراه»
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی مسلمان کسی قوم کے ہاں مہمان ٹھہرے لیکن وہ حقِ ضیافت سے محروم رہے تو اس کی نصرت کرنا ہر مسلمان پر حق ہے حتی کہ وہ اس کے مال اور اس کی زراعت سے اس کا حقِ ضیافت لے لے۔ “ دارمی، ابوداؤد۔ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے: ”جو کسی قوم کے ہاں مہمان ٹھہرا لیکن انہوں نے اس کی ضیافت نہ کی تو وہ اپنے حقِ ضیافت کے برابر ان کے مال سے لے سکتا ہے۔ “ حسن، رواہ الدارمی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الدارمي (98/2 ح 2043) و أبو داود (3751 و الرواية الثانية:3804) و سندھا صحيح]»
وعن ابي الاحوص الجشمي عن ابيه قال: قلت: يا رسول الله ارايت إن مررت برجل فلم يقرني ولم يضفني ثم مر بي بعد ذلك ااقريه ام اجزيه؟ قال: «بل اقره» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ الْجُشَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ مَرَرْتُ بِرَجُلٍ فَلَمْ يُقِرْنِي وَلَمْ يُضِفْنِي ثُمَّ مَرَّ بِي بَعْدَ ذَلِكَ أَأَقْرِيهِ أَمْ أَجْزِيهِ؟ قَالَ: «بل اقره» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابواحوص جشمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ اگر میں کسی شخص کے پاس سے گزروں تو وہ میری ضیافت نہ کرے لیکن اس کے بعد وہ میرے پاس سے گزرے تو کیا میں اس کی ضیافت کروں یا اس کو بدلہ دوں (کہ ضیافت نہ کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ ضیافت کرو۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2006 وقال: حسن صحيح)»