وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «التلبينة مجمة لفؤاد المريض تذهب ببعض الحزن» وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «التَّلْبِينَةُ مُجِمَّةٌ لِفُؤَادِ الْمَرِيضِ تَذْهَبُ بِبَعْض الْحزن»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تلبینہ (جو کا دلیہ) دل کے مریض کے لیے راحت بخش اور غم کو ہلکا کرنے والا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5417) و مسلم (2216/90)»
وعن انس ان خياطا دعا النبي صلى الله عليه وسلم لطعام صنعه فذهبت مع النبي صلى الله عليه وسلم فقرب خبز شعير ومرقا فيه دباء وقديد فرايت النبي صلى الله عليه وسلم يتتبع الدباء من حوالي القصعة فلم ازل احب الدباء بعد يومئذ وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ خَيَّاطًا دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ فَذَهَبْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَّبَ خُبْزَ شَعِيرٍ وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءُ وَقَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ الْقَصْعَةِ فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدباءَ بعد يومِئذٍ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھانے پر مدعو کیا جو کہ اس نے (خصوصی طور پر) تیار کیا تھا، میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گیا، اس نے جو کی روٹی اور شوربا پیشِ خدمت کیا جس میں کدو اور خشک کیے ہوئے گوشت کے ٹکڑے تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پلیٹ کے کناروں میں کدو تلاش کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ میں اس روز سے کدو پسند کرتا ہوں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2092) و مسلم (2041/144)»
وعن عمرو بن امية انه راى النبي صلى الله عليه وسلم يحتزمن كتف الشاة في يده فدعي إلى الصلاة فالقاها والسكين التي يحتز بها ثم قام فصلى ولم يتوضا وَعَن عَمْرو بنِ أُميَّةَ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يحتزمن كتف الشَّاة فِي يَدِهِ فَدُعِيَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَلْقَاهَا وَالسِّكِّينَ الَّتِي يَحْتَزُّ بِهَا ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى وَلَمْ يتَوَضَّأ
عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ بکری کی دستی آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس سے کاٹ کر تناول فرما رہے ہیں۔ اتنے میں آپ کو نماز کے لیے آواز دی گئی تو آپ نے اس (دستی) کو اور اس چھری کو جس کے ساتھ آپ کاٹ رہے تھے رکھ دیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (نیا) وضو نہیں فرمایا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (208) و مسلم (355/93)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء والعسل. رواه البخاري وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاء وَالْعَسَل. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میٹھی چیزیں اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5431)»
وعن جابر ان النبي صلى الله عليه وسلم سال اهله الادم. فقالوا: ما عندنا إلا خل فدعا به فجعل ياكل به ويقول: «نعم الإدام الخل نعم الإدام الخل» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ أَهْلَهُ الْأُدْمَ. فَقَالُوا: مَا عِنْدَنَا إِلَّا خَلٌّ فَدَعَا بِهِ فَجَعَلَ يَأْكُلُ بِهِ وَيَقُولُ: «نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل خانہ سے سالن طلب فرمایا تو انہوں نے عرض کیا، ہمارے پاس تو صرف سرکہ ہے، آپ نے اسے منگایا اور اس کے ساتھ کھانا کھانے لگے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”سرکہ بہترین سالن ہے، سرکہ بہترین سالن ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2052/166)»
وعن سعيد بن زيد قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «الكماة من المن وماؤها شفاء للعين» . متفق عليه. وفي رواية لمسلم: «من المن الذي انزل الله تعالى على موسى عليه السلام» وَعَن سعيد بنِ زيدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: «مِنَ الْمَنِّ الَّذِي أنزلَ اللَّهُ تَعَالَى على مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام»
سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کھنبی مَن (بنی اسرائیل کے من و سلویٰ) کی نوع میں سے ہے، اور اس کا پانی آنکھ کے لیے باعثِ شفا ہے۔ “ بخاری، مسلم۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ”وہ (کھنبی) اس مَن میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ پر نازل فرمایا تھا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5708) و مسلم (2049/157، 160/ 2049)»
وعن عبد الله بن جعفر قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل الرطب بالقثاء وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الرُّطَبَ بِالْقِثَّاءِ
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ککڑی کے ساتھ کھجور تناول فرماتے ہوئے دیکھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5440) و مسلم (2043/147)»
وعن جابر قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمر الظهران نجني الكباث فقال: «عليكم بالاسود منه فإنه اطيب» فقيل: اكنت ترعى الغنم؟ قال: «نعم وهل من نبي إلا رعاها؟» وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ نَجْنِي الْكَبَاثَ فَقَالَ: «عَلَيْكُم بالأسْوَدِ مِنْهُ فإِنَّه أَطْيَبُ» فَقِيلَ: أَكُنْتَ تَرْعَى الْغَنَمَ؟ قَالَ: «نَعَمْ وهلْ منْ نبيٍّ إِلاَّ رعاها؟»
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم (مکہ کے قریب) مرالظہران کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم پیلو چن رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے سیاہ رنگ کی چنو کیونکہ وہ زیادہ اچھی ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا، کیا آپ بکریاں چرایا کرتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اور ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5443) و مسلم (2050/163)»
وعن انس قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم مقعيا ياكل تمرا وفي رواية: ياكل منه اكلا ذريعا. رواه مسلم وَعَن أنس قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْعِيًا يَأْكُلُ تَمْرًا وَفِي رِوَايَةٍ: يَأْكُلُ مِنْهُ أكلا ذريعا. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اکڑوں بیٹھے کھجوریں کھاتے ہوئے دیکھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے جلدی جلدی کھا رہے تھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (149، 2044/148)»
وعن ابن عمر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقرن الرجل بين التمرتين حتى يستاذن اصحابه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْرِنَ الرَّجُلُ بَيْنَ التَّمْرَتَيْنِ حَتَّى يستأذِنَ أَصْحَابه
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی اپنے ساتھی کی اجازت کے بغیر دو دو کھجوریں ایک ساتھ نہ اٹھائے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2489) و مسلم (2045/151)»