مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الأطعمة
--. سلام تین بار کہا جائے
حدیث نمبر: 4249
Save to word اعراب
وعن انس او غيره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استاذن على سعد بن عبادة فقال: «السلام عليكم ورحمة الله» فقال سعد: وعليكم السلام ورحمة الله ولم يسمع النبي صلى الله عليه وسلم حتى سلم ثلاثا ورد عليه سعد ثلاثا ولم يسمعه فرجع النبي صلى الله عليه وسلم فاتبعه سعد فقال: يا رسول الله بابي انت وامي ما سلمت تسليمة إلا هي باذني: ولقد رددت عليك ولم اسمعك احببت ان استكثر من سلامك ومن البركة ثم دخلوا البيت فقرب له زبيبا فاكل نبي الله صلى الله عليه وسلم فلما فرغ قال: «اكل طعامكم الابرار وصلت عليكم الملائكة وافطر عندكم الصائمون» . رواه في «شرح السنة» وَعَنْ أَنَسٍ أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذَنَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» فَقَالَ سَعْدٌ: وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَلَمْ يُسْمِعِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَلَّمَ ثَلَاثًا وَرَدَّ عَلَيْهِ سَعْدٌ ثَلَاثًا وَلَمْ يُسْمِعْهُ فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا سَلَّمْتَ تَسْلِيمَةً إِلَّا هِيَ بِأُذُنِي: وَلَقَدْ رَدَدْتُ عَلَيْكَ وَلَمْ أُسْمِعْكَ أَحْبَبْتُ أَنْ أَسْتَكْثِرَ مِنْ سَلَامِكَ وَمِنَ الْبَرَكَةِ ثُمَّ دَخَلُوا الْبَيْتَ فَقَرَّبَ لَهُ زَبِيبًا فَأَكَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: «أَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ وَأَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ» . رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ»
انس رضی اللہ عنہ یا ان کے علاوہ کسی صحابی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کی اور فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، لیکن انہوں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آواز نہ سنائی حتی کہ آپ نے تین مرتبہ سلام کیا اور سعد رضی اللہ عنہ نے بھی تین مرتبہ سلام کا جواب دیا لیکن آپ کو نہ سنایا، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لے گئے تو سعد رضی اللہ عنہ، آپ کے پیچھے گئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے والدین آپ پر قربان ہوں، آپ نے جتنی بار بھی سلام کیا میں نے اسے سنا اور آپ کو جواب عرض کیا لیکن میں نے آپ کو (اس لیے) نہیں سنایا کہ میں پسند کرتا تھا کہ آپ سے زیادہ سے زیادہ سلامتی اور برکت حاصل کر سکوں، پھر وہ گھر تشریف لائے تو انہوں نے آپ کی خدمت میں منقی پیش کیا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھایا، جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: نیکوکار تمہارا کھانا کھاتے رہیں، فرشتے تم پر رحمتیں بھیجیں اور روزہ دار تمہارے ہاں افطار کرتے رہیں۔ صحیح، رواہ فی شرح السنہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه البغوي في شرح السنة (282/12. 283 ح 3320) [و أحمد (138/3) والبيھقي (287/7) والطحاوي في مشکل الآثار (498/1، 499) و صححه العراقي و ابن الملقن وغيرھما]
٭ وله شاھد حسن لذاته عند الطحاوي في مشکل الآثار (242/4 ح 1577) و به صح الحديث.»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. مؤمن کی عجیب مثال
حدیث نمبر: 4250
Save to word اعراب
وعن ابي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مثل المؤمن ومثل الإيمان كمثل الفرس في آخيته يجول ثم يرجع إلى آخيته وإن المؤمن يسهو ثم يرجع إلى الإيمان فاطعموا طعامكم الاتقياء واولوا معروفكم المؤمنين» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وابو نعيم في «الحلية» وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْإِيمَانِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي آخِيَّتِهِ يَجُولُ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى آخِيَّتِهِ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْهُو ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْإِيمَانِ فَأَطْعِمُوا طَعَامَكُمُ الْأَتْقِيَاءَ وَأَوْلُوا مَعْرُوفَكُمُ الْمُؤْمِنِينَ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» وَأَبُو نُعَيْمٍ فِي «الْحِلْية»
ابوسعید رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کے مثل ہے جو اپنے کھونٹے کے ساتھ بندھا ہوا ہے دوڑتا پھرتا ہے لیکن اپنے کھونٹے کی طرف ہی لوٹ آتا ہے، اور مومن بھول جاتا ہے (غلطی کر بیٹھتا ہے) اور پھر ایمان کی طرف پلٹ آتا ہے، تم اپنا کھانا متقی لوگوں کو کھلاؤ اور مومنوں کے ساتھ بھلائی کرو۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10964، نسخة محققة: 10460. 10461) وأبو نعيم في حلية الأولياء (179/8) [و أحمد (38/3، 55)]
٭ فيه أبو سليمان الليثي: لم أجد من وثقه غير ابن حبان من المتقدمين وانظر مجمع الزوائد (201/10) و صحيح ابن حبان (الإحسان: 615)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. کھانے میں برکت
حدیث نمبر: 4251
Save to word اعراب
عن عبد الله بن بسر قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم قصعة يحملها اربعة رجال يقال لها: الغراء فلما اضحوا وسجدوا الضحى اتي بتلك القصعة وقد ثرد فيها فالتفوا عليها فلما كثروا جثا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال اعرابي: ما هذه الجلسة؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الله جعلني عبدا كريما ولم يجعلني جبارا عنيدا» ثم قال: «كلوا من جوانبها ودعوا ذروتها يبارك فيها» . رواه ابو داود عَن عبد الله بنِ بُسر قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةٌ يَحْمِلُهَا أَرْبَعَةُ رِجَالٍ يُقَالُ لَهَا: الْغَرَّاءُ فَلَمَّا أَضْحَوْا وَسَجَدُوا الضُّحَى أُتِيَ بِتِلْكَ الْقَصْعَةِ وَقَدْ ثُرِدَ فِيهَا فَالْتَفُّوا عَلَيْهَا فَلَمَّا كَثُرُوا جَثَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا هَذِهِ الْجِلْسَةُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ جَعَلَنِي عَبْدًا كَرِيمًا وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا عَنِيدًا» ثُمَّ قَالَ: «كُلُوا مِنْ جَوَانِبِهَا وَدَعُوا ذِرْوَتَهَا يُبَارَكْ فِيهَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک برتن تھا جسے چار آدمی اٹھاتے تھے، اسے غراء کہا جاتا تھا، جب وہ چاشت کا وقت ہونے پر نماز چاشت پڑھ لیتے تو وہ برتن لایا جاتا اور اس میں ثرید تیار کیا جاتا، پھر صحابہ کرام اس کے گرد جمع ہو جاتے، جب وہ زیادہ ہو جاتے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دو زانوں ہو کر بیٹھ جاتے، کسی اعرابی نے کہا: یہ کس طرح بیٹھنا ہے؟ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے متواضع سخی بنایا ہے اور مجھے متکبر سرکش نہیں بنایا۔ پھر فرمایا: اس (برتن) کے اطراف سے کھاؤ اور اس کے وسط کو چھوڑ دو اس میں برکت عطا کی جائے گی۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه أبو داود (3773)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. مل کر کھانے کی برکت
حدیث نمبر: 4252
Save to word اعراب
وعن وحشي بن حرب عن ابيه عن جده: إن اصحاب رسول الله صلى الله عل ه وسلم قالوا: يا رسول الله إنا ناكل ولا نشبع قال: «فلعلكم تفترقون؟» قالوا: نعم قال: «فاجتمعوا على طعامكم واذكروا اسم الله يبارك لكم فيه» . رواه الترمذي وَعَنْ وَحْشِيِّ بْنِ حَرْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ: إِنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَ ْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَأْكُلُ وَلَا نَشْبَعُ قَالَ: «فَلَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُونَ؟» قَالُوا: نَعَمْ قَالَ: «فَاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ يُباركْ لكم فِيهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
وحشی بن حرب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شاید کے تم الگ الگ کھاتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا کھانا اجتماعی شکل میں کھایا کرو، اللہ کا نام لیا کرو (اس طرح) اس میں تمہارے لیے برکت ڈال دی جائے گی۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه أبو داود (3764) [وابن ماجه (3286) و أحمد (501/3)]»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. اس قسم کی نعمتوں کا سوال ہو گا
حدیث نمبر: 4253
Save to word اعراب
عن ابي عسيب قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا فمر بي فدعاني فخرجت إليه ثم مر بابي بكر فدعاه فخرج إليه ثم مر بعمر فدعاه فخرج إليه فانطلق حتى دخل حائطا لبعض الانصار فقال لصاحب الحائط: «اطعمنا بسرا» فجاء بعذق فوضعه فاكل رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه ثم دعا بماء بارد فشرب فقال: «لتسالن عن هذا النعيم يوم القيامة» قال: فاخذ عمر العذق فضرب فيه الارض حتى تناثر البسر قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: يا رسول الله إنا لمسؤولون عن هذا يوم القيامة؟ قال: «نعم إلا من ثلاث خرقة لف بها الرجل عورته او كسرة سد بها جوعته او حجر يتدخل فيه من الحر والقر» . رواه احمد والبيهقي في «شعب الإيمان» . مرسلا عَنْ أَبِي عَسِيبٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا فَمَرَّ بِي فَدَعَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ ثُمَّ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ فَدَعَاهُ فَخَرَجَ إِلَيْهِ ثُمَّ مَرَّ بِعُمَرَ فَدَعَاهُ فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَانْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ حَائِطًا لِبَعْضِ الْأَنْصَارِ فَقَالَ لِصَاحِبِ الْحَائِطِ: «أَطْعِمْنَا بُسْرًا» فَجَاءَ بِعِذْقٍ فَوَضَعَهُ فَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ بَارِدٍ فَشَرِبَ فَقَالَ: «لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ القيامةِ» قَالَ: فَأخذ عمر العذق فَضرب فِيهِ الْأَرْضَ حَتَّى تَنَاثَرَ الْبُسْرُ قَبْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُول الله إِنَّا لمسؤولونَ عَنْ هَذَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «نَعَمْ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ خِرْقَةٍ لَفَّ بِهَا الرَّجُلُ عَوْرَتَهُ أَوْ كِسْرَةٍ سَدَّ بِهَا جَوْعَتَهُ أَوْ حُجْرٍ يتدخَّلُ فِيهِ مَنِ الْحَرِّ وَالْقُرِّ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شعب الْإِيمَان» . مُرْسلا
ابو عسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک رات رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے میرے پاس سے گزرے تو مجھے آواز دی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہیں بھی آواز دی، وہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر آپ، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہیں بھی آواز دی، وہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ چلتے گئے حتی کہ کسی انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے باغ کے مالک سے فرمایا: ہمیں پکی ہوئی کھجوریں کھلاؤ۔ وہ ایک خوشہ لائے جسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے کھایا، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ٹھنڈا پانی منگایا اور اسے نوش فرمایا، پھر فرمایا: روزِ قیامت تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے وہ خوشہ پکڑ کر زمین پر مارا حتی کہ وہ کھجوریں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بکھر گئیں، پھر عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا روزِ قیامت ہم سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، مگر تین چیزوں کے متعلق سوال نہیں ہو گا، وہ کپڑا جس سے آدمی اپنا ستر ڈھانپتا ہے، یا روٹی کا ٹکڑا جس سے وہ اپنی بھوک مٹاتا ہے، یا وہ کمرہ جس میں وہ گرمی، سردی میں رہائش رکھتا ہے۔ احمد، بیہقی نے شعب الایمان میں اسے مرسل روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه أحمد (81/5 ح 21049، نسخة محققة:20768) و البيھقي في شعب الإيمان (4601)
عَنْ أَبِي عَسِيبٍ»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. مل بیٹھ کر کھانے کے آداب
حدیث نمبر: 4254
Save to word اعراب
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا وضعت المائدة فلا يقوم رجل حتى ترفع المائدة ولا يرفع يده وإن شبع حتى يفرغ القوم وليعذر فإن ذلك يخجل جليسه فيقبض يده وعسى ان يكون له في الطعام حاجة» رواه ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَتِ الْمَائِدَةُ فَلَا يَقُومُ رَجُلٌ حَتَّى تُرْفَعَ الْمَائِدَةُ وَلَا يَرْفَعْ يَدَهُ وَإِنْ شَبِعَ حَتَّى يَفْرُغَ الْقَوْمُ وَلْيُعْذِرْ فَإِنَّ ذَلِكَ يُخْجِلُ جَلِيسَهُ فَيَقْبِضُ يَدَهُ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ لَهُ فِي الطَّعَامِ حَاجَةٌ» رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب دسترخوان لگا دیا جائے تو دسترخوان اٹھائے جانے تک کوئی شخص نہ اٹھے، اور جب تک کھانے میں شریک تمام افراد فارغ نہ ہو جائیں تب تک کوئی شخص کھانے سے اپنا ہاتھ نہ روکے خواہ وہ سیر ہو جائے اور اگر اسے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو عذر پیش کر دینا چاہیے، ورنہ اس طرح اس کے ساتھ والے کو شرمندگی ہو گی اور وہ کھانے کی ضرورت کے باوجود اپنا ہاتھ روک لے گا۔ ضعیف، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«ضعيف، رواه ابن ماجه (3273، 3295) و البيھقي في شعب الإيمان (5864)
٭ فيه عبد الأعلي بن أعين: ضعيف.»

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
--. لوگوں کے کھانے میں شرکت
حدیث نمبر: 4255
Save to word اعراب
وعن جعفر بن محمد عن ابيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اكل مع قوم كان آخرهم اكلا. رواه البيهقي في «شعب الإيمان» مرسلا وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ مَعَ قَوْمٍ كَانَ آخِرَهُمْ أَكْلًا. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان» مُرْسلا
جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے آخر پر کھانے سے فارغ ہوتے تھے۔ بیہقی نے شعب الایمان میں مرسل روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6037، نسخة محققة: 5636، 9187)
٭ فيه عبد الرحمٰن بياع الھروي البغدادي روي عنه ابن معين و لم أجد من وثقه والخبر مرسل.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. بھوک اور جھوت کو اکٹھا نہ کیا جائے
حدیث نمبر: 4256
Save to word اعراب
وعن اسماء بنت يزيد قالت: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بطعام فعرض علينا فقلنا: لا نشتهيه. قال: «لا تجتمعن جوعا وكذبا» . رواه ابن ماجه وَعَن أَسمَاء بنتِ يزِيد قَالَتْ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ فَعَرَضَ عَلَيْنَا فَقُلْنَا: لَا نَشْتَهِيهِ. قَالَ: «لَا تَجْتَمِعْنَ جُوعًا وَكَذِبًا» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے وہ ہمیں عنایت فرما دیا، ہم نے عرض کیا، ہمیں کھانے کی چاہت نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھوک اور جھوٹ جمع نہ کرو۔ اسنادہ حسن، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه ابن ماجه (3298)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. اجتماعیت میں برکت ہوتی ہے
حدیث نمبر: 4257
Save to word اعراب
وعن عمر بن الخطاب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كلوا جميعا ولا تفرقوا فإن البركة مع الجماعة» . رواه ابن ماجه وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُوا جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا فَإِنَّ الْبَرَكَةَ معَ الجماعةِ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اکٹھے کھایا کرو، الگ الگ مت کھاؤ، کیونکہ برکت جماعت کے ساتھ ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (3287)
٭ عمرو بن دينار قھرمان آل الزبير ضعيف و حديث ابن ماجه (3255) يغني عنه.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. مہمان کو دروازے تک چھوڑنا
حدیث نمبر: 4258
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من السنة ان يخرج الرجل مع ضيفه إلى باب الدار» . رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنَ السَّنَةِ أَنْ يَخْرُجَ الرَّجُلُ مَعَ ضَيْفِهِ إِلَى بَابِ الدَّارِ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی کا پنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جانا مسنون ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (3358)
٭ فيه علي بن عروة: متروک و له شاھد موضوع عند ابن عدي في الکامل (1173/3) فلا يستشھد به.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا

Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    14    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.