مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الجهاد
--. اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب
حدیث نمبر: 3857
Save to word اعراب
وعن علي وابي الدرداء وابي هريرة وابي امامة وعبد الله بن عمر وعبد الله بن عمرو وجابر بن عبد الله وعمران بن حصين رضي الله عنهم اجمعين كلهم يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: «من ارسل نفقة في سبيل الله واقام في بيته فله بكل درهم سبعمائة درهم ومن غزا بنفسه في سبيل الله وانفق في وجهه ذلك فله بكل درهم سبعمائة الف درهم» . ثم تلا هذه الآية: (والله يضاعف لمن يشاء) رواه ابن ماجه وَعَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ كُلُّهُمْ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ أَرْسَلَ نَفَقَةً فِي سبيلِ الله وأقامَ فِي بيتِه فلَه بكلِّ دِرْهَمٍ سَبْعُمِائَةِ دِرْهَمٍ وَمَنْ غَزَا بِنَفْسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنْفَقَ فِي وَجْهِهِ ذَلِكَ فَلَهُ بِكُلِّ دِرْهَمٍ سَبْعُمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ» . ثُمَّ تَلَا هذهِ الآيةَ: (واللَّهُ يُضاعفُ لمنْ يشاءُ) رَوَاهُ ابنُ مَاجَه
علی، ابودرداء، ابوہریرہ، ابوامامہ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو، جابر بن عبداللہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کی راہ میں خرچہ بھیجا اور وہ خود اپنے گھر میں رہا تو اس کے لیے ہر درہم کے بدلے میں سات سو درہم کا اجر ہے، اور جس نے بذات خود جہاد میں شرکت کی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کیا تو اس کے لیے ہر درہم کے بدلے میں سات لاکھ درہم کا اجر ہے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (2761)
٭ قال البوصيري: ’’ھذا إسناد ضعيف، الخليل بن عبد الله: لا يعرف‘‘ و فيه علة أخري.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. چار قسم کے شہید
حدیث نمبر: 3858
Save to word اعراب
وعن فضالة بن عبيد قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: الشهداء اربعة: رجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو فصدق الله حتى قتل فذلك الذي يرفع الناس إليه اعينهم يوم القيامة هكذا ورفع راسه حتى سقطت قلنسوته فما ادري اقلنسوة عمر اراد ام قلنسوة النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: «ورجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو كانما ضرب جلده بشوك طلح من الجبن اتاه سهم غرب فقتله فهو في الدرجة الثانية ورجل مؤمن خلط عملا صالحا وآخر سيئا لقي العدو فصدق الله حتى قتل فذلك في الدرجة الثالثة ورجل مؤمن اسرف على نفسه لقي العدو فصدق الله حتى قتل فذاك في الدرجة الرابعة» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَن فَضالةَ بنِ عُبيد قَالَ: سمِعْتُ عمَرَ بن الْخطاب يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَعْيُنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَكَذَا وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى سَقَطَتْ قَلَنْسُوَتُهُ فَمَا أَدْرِي أَقَلَنْسُوَةَ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ كَأَنَّمَا ضَرَبَ جِلْدَهُ بِشَوْكٍ طَلْحٍ مِنَ الْجُبْنِ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ فَهُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: شہداء کی چار قسمیں ہیں: ایک وہ مومن جو کامل ایمان والا جس نے دشمن سے ملاقات کی تو اس نے اللہ کو (اپنا عمل) سچ کر دکھایا حتی کہ وہ شہید کر دیا گیا، چنانچہ یہی وہ شخص ہے جس کی طرف لوگ روزِ قیامت اس طرح اپنی آنکھیں اٹھا کر دیکھیں گے۔ اور انہوں نے اپنا سر اٹھایا حتی کہ ان کی ٹوپی گر پڑی، راوی بیان کرتے ہیں، مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی ٹوپی مراد لی یا نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ٹوپی، فرمایا: (دوسرا) مومن آدمی کامل ایمان والا وہ ہے، جو دشمن سے ملاقات کرتا ہے لیکن بزدلی کی وجہ سے اس کی جلد میں طلح (کانٹے دار بڑا درخت جس کے پھول خوشبو دار ہوتے ہیں) کے کانٹے چھبوئے جا رہے ہیں، پھر ایک نامعلوم تیر آتا ہے تو وہ اسے قتل کر دیتا ہے، یہ شخص دوسرے درجے کا ہے۔ (تیسرا) وہ مومن آدمی جس کی نیکیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی، وہ جب دشمن سے ملاقات کرتا ہے تو اللہ کو (اپنا عمل) سچ کر دکھاتا ہے، حتی کہ وہ شہید ہو جاتا ہے، یہ تیسرے درجے میں ہے، اور (چوتھا) وہ مومن آدمی جس نے (گناہ کر کے) اپنے نفس پر زیادتی کی، وہ دشمن سے ملتا ہے تو اللہ کو (اپنا عمل) سچ کر دکھاتا ہے حتی کہ وہ قتل کر دیا جاتا ہے، یہ شخص چوتھے درجے میں ہے۔ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1644)
٭ أبو يزيد الخولاني مجھول الحال: لم يوثقه غير الترمذي فيما أعلم و قال في التقريب: ’’مجھول‘‘.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. شہداء کی اقسام
حدیث نمبر: 3859
Save to word اعراب
وعن عتبة بن عبد السلمي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: القتلى ثلاثة: مؤمن جاهد نفسه وماله في سبيل الله فإذا لقي العدو قاتل حتى يقتل قال النبي صلى الله عليه وسلم فيه: «فذلك الشهيد الممتحن في خيمة الله تحت عرشه لا يفضله النبيون إلا بدرجة النبوة ومؤمن خلط عملا صالحا وآخر سيئا جاهد بنفسه وماله في سبيل الله إذا لقي العدو قاتل حتى يقتل» قال النبي صلى الله عليه وسلم فيه: «ممصمصة محت ذنوبه وخطاياه إن السيف محاء للخطايا وادخل من اي ابواب الجنة شاء ومنافق جاهد بنفسه وماله فإذا لقي العدو قاتل حتى يقتل فذاك في النار إن السيف لا يمحو النفاق» . رواه الدارمي وَعَن عُتبةَ بن عبدٍ السَّلَميِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: الْقَتْلَى ثَلَاثَة: مُؤمن جَاهد نَفسه وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ حَتَّى يُقْتَلَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ: «فَذَلِكَ الشَّهِيدُ الْمُمْتَحَنُ فِي خَيْمَةِ اللَّهِ تَحْتَ عَرْشِهِ لَا يَفْضُلُهُ النَّبِيُّونَ إِلَّا بِدَرَجَةِ النُّبُوَّةِ وَمُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ حَتَّى يُقْتَلَ» قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ: «مُمَصْمِصَةٌ مَحَتْ ذُنُوبَهُ وَخَطَايَاهُ إِنَّ السَّيْفَ مَحَّاءٌ لِلْخَطَايَا وَأُدْخِلَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ وَمُنَافِقٌ جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَإِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ حَتَّى يُقْتَلَ فَذَاكَ فِي النَّارِ إِنَّ السيفَ لَا يمحُو النِّفاقَ» . رَوَاهُ الدارميُّ
عتبہ بن عبدالسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہداء تین قسم کے ہیں: وہ مومن جس نے اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، جب وہ دشمن سے ملاقات کرتا ہے تو قتال کرتا ہے حتی کہ وہ شہید کر دیا جاتا ہے۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: یہ وہ شہید ہے جسے آزمایا گیا ہے، یہ اللہ کے عرش (کے سائے تلے) اللہ کے خیمے میں ہو گا اور انبیا ؑ کو اس پر فقط نبوت کے درجے کی وجہ سے فضیلت حاصل ہو گی، (دوسرا) وہ مومن جس کے نیک اعمال ہوں گے اور برائیاں بھی ہوں گی، اس نے اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، جب وہ دشمن سے ملاقات کرتا ہے تو قتال کرتا ہے حتی کہ وہ شہید کر دیا جاتا ہے۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: منصب شہادت نے اسے گناہوں سے پاک کر دیا، اس کے گناہوں اور اس کی خطاؤں کو ختم کر دیا، کیونکہ تلوار خطاؤں کو نبود کرنے والی ہے، اور اسے اس کی پسند کے باب جنت سے داخل کر دیا گیا، اور (تیسرا) منافق جس نے اپنے مال و جان سے جہاد کیا، یہ شخص آگ میں ہے، کیونکہ تلوار نفاق نہیں مٹاتی۔ حسن، رواہ الدارمی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه الدارمي (206/2. 207 ح 2416، نسخة محققة: 2455)
٭ معاوية بن يحيي الصدفي ضعيف و لکن رواه ابن حبان (الإحسان: 4644) و أحمد (185/4. 186) وغيرهما بسند حسن نحوه فالحديث حسن.»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
--. اللہ کے راستے میں ایک رات کی پہرہداری کا ثواب
حدیث نمبر: 3860
Save to word اعراب
وعن ابن عائذ قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة رجل فلما وضع قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: لا تصل عليه يا رسول الله فإنه رجل فاجر فالتفت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الناس فقال: «هل رآه احد منكم على عمل الإسلام؟» فقال رجل: نعم يا رسول الله حرس ليلة في سبيل الله فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وحثا عليه التراب وقال: «اصحابك يظنون انك من اهل النار وانا اشهد انك من اهل الجنة» وقال: «يا عمر إنك لا تسال عن اعمال الناس ولكن تسال عن الفطرة» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَن ابْن عائذٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ فَلَمَّا وُضِعَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا تُصَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّهُ رَجُلٌ فَاجِرٌ فَالْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّاسِ فَقَالَ: «هَلْ رَآهُ أَحَدٌ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلِ الْإِسْلَامِ؟» فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَرَسَ لَيْلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَثَا عَلَيْهِ التُّرَابَ وَقَالَ: «أَصْحَابُكَ يَظُنُّونَ أَنَّكَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَأَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ» وَقَالَ: «يَا عُمَرُ إِنَّكَ لَا تُسْأَلُ عَنْ أَعْمَالِ النَّاسِ وَلَكِنْ تُسْأَلُ عَنِ الْفِطْرَةِ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
ابن عائذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی آدمی کے جنازے کے ساتھ تشریف لائے، جب اسے رکھا گیا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی نمازِ جنازہ مت پڑھائیں کیونکہ یہ فاجر شخص ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کی طرف توجہ فرما کر پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے اسے اسلام کا کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! اس نے ایک رات اللہ کی راہ میں پہرہ دیا تھا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس (کی قبر) پر مٹی ڈالی۔ اور فرمایا: تیرے ساتھیوں کا گمان ہے کہ تو جہنمی ہے، جبکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے۔ اور فرمایا: عمر! تجھ سے لوگوں کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا، لیکن تجھ سے عقیدہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (4297، نسخة محققة: 3988) و أحمد بن منيع (کما في المطالب العالية 54/3ح 911)
٭ فيه شعوذ بن عبد الرحمٰن: و ثقه ابن حبان وحده فيما أعلم و ابن عائذ عن عمر: مرسل، و للحديث شاھد ضعيف عند الطبراني، انظر مجمع الزوائد (288/5)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. قوت تیر اندازی میں
حدیث نمبر: 3861
Save to word اعراب
عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر يقول: (واعدوا له ما استطعتم من قوة) الا إن القوة الرمي الا إن القوة الرمي الا إن القوة الرمي) رواه مسلم عَن عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُول: (وَأَعدُّوا لَهُ مَا استطَعْتُمْ منْ قُوَّةٍ) أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ) رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: اور جہاں تک ممکن ہو (ان کے مقابلے کے لیے) قوت تیار رکھو۔ سن لو! بے شک قوت سے مقصود تیر اندازی ہے، خبردار! قوت سے مقصود تیر اندازی ہے، سن لو! قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1917/167)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. روم کی فتح کا بیان
حدیث نمبر: 3862
Save to word اعراب
وعنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ستفتح عليكم الروم ويكفيكم الله فلا يعجز احدكم ان يلهو باسهمه» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «سَتُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الرُّومُ وَيَكْفِيكُمُ اللَّهُ فَلَا يَعْجِزْ أَحَدُكُمْ أَنْ يَلْهُوَ بِأَسْهُمِهِ» . رَوَاهُ مُسلم
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم عنقریب روم فتح کر لو گے، اور اللہ تمہارے لیے (ان کے شر کے مقابلے میں) کافی ہو گا، تم میں سے کوئی اپنے تیر کے ساتھ مشغول رہنے میں سستی نہ کرے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1918/168)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. تیراندازی کا بیان
حدیث نمبر: 3863
Save to word اعراب
وعنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من علم الرمي ثم تركه فليس منا او قد عصى» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يقولُ: «مَنْ علِمَ الرَّميَ ثمَّ تَرَكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا أَوْ قَدْ عَصَى» . رَوَاهُ مُسلم
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اسے ترک کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں یا (فرمایا) اس نے نافرمانی کی۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1919/169)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. تیراندازی اسمٰعیل علیہ السلام کی سنت ہے
حدیث نمبر: 3864
Save to word اعراب
وعن سلمة بن الاكوع قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على قوم من اسلم يتناضلون بالسوق فقال: «ارموا بني إسماعيل فإن اباكم كان راميا وانا مع بني فلان» لاحد الفريقين فامسكوا بايديهم فقال: «ما لكم؟» قالوا: وكيف نرمي وانت مع بني فلان؟ قال: «ارموا وانا معكم كلكم» . رواه البخاري وَعَن سلَمةَ بنِ الأكوَعِ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ مِنْ أَسْلَمَ يَتَنَاضَلُونَ بِالسُّوقِ فَقَالَ: «ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ» لِأَحَدِ الْفَرِيقَيْنِ فَأَمْسَكُوا بِأَيْدِيهِمْ فَقَالَ: «مَا لَكُمْ؟» قَالُوا: وَكَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَ بَنِي فُلَانٍ؟ قَالَ: «ارْمُوا وَأَنا مَعكُمْ كلكُمْ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسلم قبیلہ کے لوگوں کے پاس تشریف لائے، وہ بازار میں تیر اندازی کر رہے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو اسماعیل! تیر اندازی کرو، کیونکہ تمہارے باپ تیر انداز تھے، اور میں فلاں قبیلے کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے اپنے ہاتھ روک لیے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا، ہم کیسے تیر اندازی کریں جبکہ آپ فلاں قبیلے کے ساتھ ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیر اندازی کرو، اور میں آپ سب کے ساتھ ہوں۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (3507)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. نشانہ ہدف پر لگنے کا بیان
حدیث نمبر: 3865
Save to word اعراب
وعن انس قال: كان ابو طلحة يتترس مع النبي صلى الله عليه وسلم بترس واحد وكان ابو طلحة حسن الرمي فكان إذا رمى تشرف النبي صلى الله عليه وسلم فينظر إلى موضع نبله. رواه البخاري وَعَن أنسٍ قَالَ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ يَتَتَرَّسُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتُرْسٍ وَاحِدٍ وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ حَسَنَ الرَّمْيِ فَكَانَ إِذَا رَمَى تَشَرَّفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْظُرُ إِلَى مَوضِع نبله. رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک ہی ڈھال سے بچاؤ کر رہے تھے، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے، جب وہ تیر پھینکتے تھے تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے تیر پر) نظر رکھتے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے تیر گرنے کی جگہ دیکھتے تھے۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (2902)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. جہادی گھوڑوں کی فضیلت
حدیث نمبر: 3866
Save to word اعراب
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (البركة في نواصي الخيل) وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (الْبَرَكَةُ فِي نَوَاصِي الْخَيل)
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانیوں میں برکت ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2851) و مسلم (1874/100)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.