وعن عبد الله بن عمرو انه قال: يا رسول الله اخبرني عن الجهاد فقال: «يا عبد الله بن عمرو إن قاتلت صابرا محتسبا بعثك الله صابرا محتسبا وإن قاتلت مرائيا مكاثرا بعثك الله مرائيا مكاثرا يا عبد الله بن عمرو على اي حال قاتلت او قتلت بعثك الله على تلك الحال» . رواه ابو داود وَعَن عبد الله بن عَمْرو أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنِ الْجِهَادِ فَقَالَ: «يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو إِنْ قَاتَلْتَ صَابِرًا مُحْتَسِبًا بَعَثَكَ اللَّهُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا وَإِنْ قَاتَلْتَ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا بَعَثَكَ اللَّهُ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو عَلَى أَيِّ حَالٍ قَاتَلْتَ أَوْ قُتِلْتَ بَعَثَكَ اللَّهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض ��یا: اللہ کے رسول! مجھے جہاد کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ بن عمرو! اگر تم نے ثابت قدمی اور ثواب کی امید رکھنے والے کی نیت سے جہاد کیا تو اللہ تمہیں اسی نیت کے مطابق صابر و محتسب کے طور پر اٹھائے گا، اور اگر تم نے دکھلانے کے لیے اور تکاثر و تفاخر کے طور پر جہاد کیا تو اللہ تمہیں ریا کار اور فخر کرنے والا بنا کر اٹھائے گا، عبداللہ بن عمرو! تم نے جس بھی حالت پر قتال کیا یا تو قتل کر دیا گیا تو اللہ تمہیں اسی حالت پر اٹھائے گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2519) [و صححه الحاکم (85/2. 86) ووافقه الذهبي]»
وعن عقبة بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اعجزتم إذا بعثت رجلا فم يمض لامري ان تجعلوا مكانه من يمضي لامري؟» . رواه ابو داود وذكر حديث فضالة: «والمجاهد من جاهد نفسه» . في «كتاب الإيمان» وَعَن عقبَة بن مَالك عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أعجزتم إِذا بعثت رجلا فَم يَمْضِ لِأَمْرِي أَنْ تَجْعَلُوا مَكَانَهُ مَنْ يَمْضِي لِأَمْرِي؟» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَذَكَرَ حَدِيثَ فَضَالَةَ: «وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ» . فِي «كِتَابِ الْإِيمَانِ»
عقبہ بن مالک رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس کی قدرت نہیں رکھتے کہ جب میں کسی آدمی کو (امیر بنا کر) بھیجوں اور وہ میرے حکم کی مخالفت کرے تو تم اس کی جگہ کسی ایسے آدمی کو (امیر) بنا لو جو میرے حکم کی تعمیل کرے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2537) ٭ حديث فضالة: والمجاھد من جاھد بنفسه (تقدم: 34)»
عن ابي امامة قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فمر رجل بغار فيه شيء من ماء وبقل فحدث نفسه بان يقيم فيه ويتخلى من الدنيا فاستاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني لم ابعث باليهودية ولا بالنصرانية ولكني بعثت بالحنيفية السمحة والذي نفس محمد بيده لغدوة او روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها ولمقام احدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة» . رواه احمد عَن أبي أُمامةَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ وَبَقْلٍ فَحَدَّثَ نَفْسَهُ بِأَنْ يُقِيمَ فِيهِ وَيَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا فَاسْتَأْذَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ بِالْيَهُودِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ وَلَكَنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَغَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَلَمَقَامُ أَحَدِكُمْ فِي الصَّفِّ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِهِ سِتِّينَ سَنَةً» . رَوَاهُ أَحْمد
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں روانہ ہوئے تو ایک آدمی ایک غار کے پاس سے گزرا جس میں تھوڑا سا پانی اور سبزہ تھا، اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر اسی جگہ قیام پذیر ہو جائے، اس نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہودیت کے لیے مبعوث نہیں کیا گیا ہے اور نہ نصرانیت کے لیے بھیجا گیا ہے بلکہ مجھے تو دین توحید جو کہ آسان دین ہے دیکر بھیجا گیا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! اللہ کی راہ میں صبح یا شام لگانا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہے اور تم میں سے کسی کا (جہاد کی) صف میں قیام اس کی ساٹھ سال کی نماز سے بہتر ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه أحمد (366/5 ح 22647) ٭ فيه معان بن رفاعة (ضعيف) عن علي بن يزيد (ضعيف جدًا) عن القاسم عن أبي أمامة به إلخ.»
وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من غزا في سبيل الله ولم ينو إلا عقالا فله ما نوى» . رواه النسائي وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَمْ يَنْوِ إِلَّا عِقَالًا فَلَهُ مَا نَوَى» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے (اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی) رسی حاصل کرنے کی نیت سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو اسے اپنی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه النسائي (24/6 ح 3140) [و صححه ابن حبان (1605) والحاکم (109/2) ووافقه الذهبي]»
وعن ابي سعيد رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من رضي بالله ربا والإسلام دينا وبمحمد رسولا وجبت له الجنة» . فعجب لها ابو سعيد فقال: اعدها علي يا رسول الله فاعادها عليه ثم قال: «واخرى يرفع الله بها العبد مائة درجة في الجنة ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض» . قال: وما هي يا رسول الله؟ قال: «الجهاد في سبيل الجهاد في سبيل الله الجهاد في سبيل الله» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: «من رَضِي بِاللَّه رَبًّا وَالْإِسْلَام دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ» . فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ فَقَالَ: أَعِدْهَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «وَأُخْرَى يَرْفَعُ اللَّهُ بِهَا الْعَبْدَ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» . قَالَ: وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ الله؟ قَالَ: «الْجِهَاد فِي سَبِيل الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ الله» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ “ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے ان کلمات پر تعجب کرتے ہوئے عرض کیا، اللہ کے رسول! یہ کلمات مجھے دوبارہ سنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات انہیں دوبارہ سنائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک اور چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ بندے کو جنت میں سو درجے بلند فرما دیتا ہے ہر دو درجوں کے درمیان اس قدر فاصلہ ہے جیسے زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ رواہ مسلم ((۱۱۶ / ۱۸۸۴)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (116/ 1884)»
وعن ابي موسى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن ابواب الجنة تحت ظلال السيوف» فقام رجل رث الهيئة فقال: يا ابا موسى انت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول هذا؟ قال: نعم فرجع إلى اصحابه فقال: اقرا عليكم السلام ثم كسر جفن سيفه فالقاه ثم مشى بسيفه إلى العدو فضرب به حتى قتل. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ» فَقَامَ رَجُلٌ رَثُّ الْهَيْئَةِ فَقَالَ: يَا أَبَا مُوسَى أَنْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلَامَ ثُمَّ كَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَأَلْقَاهُ ثُمَّ مَشَى بِسَيْفِهِ إِلَى الْعَدُوِّ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ. رَوَاهُ مُسلم
ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔ “(یہ سن کر) ایک فقیر الحال شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: ابوموسیٰ! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ شخص اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹا اور کہا: میرا تمہیں سلام پہنچے، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اور اپنی تلوار لے کر دشمن کی طرف بڑھا، اور وہ اس کے ساتھ قتال کرتے کرتے شہید ہو گیا۔ رواہ مسلم (۱۴۶ / ۱۹۰۲)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (146/ 1902)»
وعن ابن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لاصحابه: إنه لما اصيب إخوانكم يوم احد جعل الله ارواحهم في جوف طير خضر ترد انهار الجنة تاكل من ثمارها وتاوي إلى قناديل من ذهب معلقة في ظل العرش فلما وجدوا طيب ماكلهم ومشربهم ومقيلهم قالوا: من يبلغ إخواننا عنا اننا احياء في الجنة لئلا يزهدوا في الجنة ولا ينكلوا عند الحرب فقال الله تعالى: انا ابلغكم عنكم فانزل الله تعالى: (ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء) إلى اخر الآيات) رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ لِأَصْحَابِهِ: إِنَّهُ لَمَّا أُصِيبَ إِخْوَانُكُمْ يَوْمَ أُحُدٍ جَعَلَ اللَّهُ أَرْوَاحَهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْهَارَ الْجَنَّةِ تَأْكُلُ مِنْ ثِمَارِهَا وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مِنْ ذَهَبٍ مُعَلَّقَةٍ فِي ظلِّ العرْشِ فلمَّا وجَدوا طِيبَ مأكَلِهِم ومشرَبِهمْ ومَقِيلهِم قَالُوا: مَنْ يُبلِّغُ إِخْوانَنا عنَا أَنَّنا أَحْيَاءٌ فِي الْجَنَّةِ لِئَلَّا يَزْهَدُوا فِي الْجَنَّةِ وَلَا يَنكُلوا عندَ الحربِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَنا أبلغكم عَنْكُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ) إِلَى أخر الْآيَات) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”جب غزوہ احد میں تمہارے بھائی شہید کر دیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں داخل کر دیں، وہ جنت کی نہروں پر آتے ہیں، جنت کے میوے کھاتے ہیں اور عرش کے سائے میں معلق سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتے ہیں، چنانچہ جب وہ بہترین کھانا پینا اور آرام گاہ پاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں، ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کو کون بتائے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ بھی جنت کی رغبت رکھیں اور لڑائی (جہاد) کے وقت سستی نہ کریں، اللہ تعالیٰ نے کہا: میں تمہاری بات ان تک پہنچاؤں گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اللہ کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ مت گمان کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں۔ “ آخر آیت تک۔ حسن، رواہ ابوداؤد (۲۵۲۰) و صحیحہ الحاکم (۲ / ۵۸۸، ۲۹۷)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (2520) [وصححه الحاکم علي شرط مسلم (588/2، 297) ووافقه الذهبي] ٭ ابن إسحاق صرح بالسماع وللحديث شواھد.»
وعن ابي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المؤمنون في الدنيا على ثلاثة اجزاء: الذين آمنوا بالله ورسوله ثم لم يرتابوا وجاهدوا باموالهم وانفسهم في سبيل الله والذي يامنه الناس على الناس على اموالهم وانفسهم ثم الذي إذا اشرف على طمع تركه لله عز وجل. رواه احمد وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمُؤْمِنُونَ فِي الدُّنْيَا عَلَى ثَلَاثَةِ أَجْزَاءٍ: الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِي يأمنه النَّاس على النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ الَّذِي إِذَا أَشْرَفَ عَلَى طَمَعٍ تَرَكَهُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. رَوَاهُ أَحْمد
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا میں مومنوں کی تین اصناف ہیں: وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انہوں نے شک نہ کیا اور انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، (دوسرا) وہ شخص جس سے لوگوں کا جان و مال محفوظ ہو۔ تیسرا وہ شخص جب اسے طمع کا خیال آتا ہے تو وہ اسے اللہ عزوجل کی خاطر ترک کر دیتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد (۳ / ۸ ح۱۱۰۶۵)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (8/3 ح 11065) ٭ فيه رشدين بن سعد المصري ضعيف.»
وعن عبد الرحمن بن ابي عميرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما من نفس مسلمة يقبضها ربها تحب ان ترجع إليكم وان لها الدنيا وما فيها غير الشهيد» قال ابن عميرة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لان اقتل في سبيل الله احب إلي من ان يكون لي اهل الوبر والمدر» . رواه النسائي وَعَن عبدِ الرَّحمنِ بن أبي عَميرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ نَفْسٍ مُسْلِمَةٍ يَقْبِضُهَا رَبُّهَا تُحِبُّ أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْكُمْ وَأَنَّ لَهَا الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا غير الشَّهِيد» قَالَ ابْن عَمِيرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي أَهْلُ الْوَبَرِ وَالْمَدَرِ» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شہید کے سوا کوئی ایسا مسلمان نہیں جس کی روح اس کا رب قبض کر لے اور وہ تمہاری طرف لوٹنے کو پسند کرے اور چاہے کہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ اس کے لیے ہو۔ “ ابن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ کی راہ میں شہید ہو جانا دنیا و مافیہا کے مل جانے سے زیادہ محبوب ہے۔ “ صحیح، رواہ النسائی (۶ / ۳۳ ح ۳۱۵۵)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه النسائي (33/6 ح 3155)»
وعن حسناء بنت معاوية قالت: حدثنا عمي قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: من في الجنة؟ قال: «النبي في الجنة والشهيد في الجنة والمولود في الجنة والوئيد في الجنة» . رواه ابو داود وَعَنْ حَسْنَاءَ بِنْتِ مُعَاوِيَةَ قَالَتْ: حَدَّثَنَا عَمِّي قَالَ: قَلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ: «النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ وَالشَّهِيدُ فِي الْجَنَّةِ وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ وَالْوَئِيدُ فِي الْجنَّة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
حسناء بنت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میرے چچا نے ہمیں حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، جنتی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نبی جنتی ہے، شہید جنتی ہے، چھوٹے بچے جنتی ہیں، اور زندہ درگور کیے گئے جنتی ہیں۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد (۲۵۲۱)، سنن ابی دادؤد (۴۷۱۷)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2521) ٭ حسناء مجھولة الحال و للحديث شواھد ضعيفة و في الباب حديث يخالفه (انظر سنن أبي داود: 4717) کأن بعض المؤدات في الجنة و بعضھن في النار. و الله أعلم»