وعن ابي امامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ليس شيء احب إلى الله من قطرتين واثرين: قطرة دموع من خشية الله وقطرة دم يهراق في سبيل الله واما الاثران: فاثر في سبيل الله واثر في فريضة من فرائض الله تعالى. رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ قَطْرَتَيْنِ وَأَثَرَيْنِ: قَطْرَةِ دُمُوعٍ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَقَطْرَةِ دَمٍ يُهْرَاقُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَمَّا الْأَثَرَانِ: فَأَثَرٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَثَرٌ فِي فَرِيضَةٍ مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ تَعَالَى. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابوامامہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کو دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں، اللہ کے ڈر سے گرنے والا آنسو اور اللہ کی راہ میں بہایا جانے والا خون کا قطرہ، اور دو نشانوں سے مقصود ایک نشان وہ ہے جو اللہ کی راہ میں زخم یا چوٹ وغیرہ سے آئے اور دوسرا نشان اللہ کے کسی فریضہ کی ادائیگی کی صورت میں رونما ہونے والا ہے (مثلاً سجدہ وغیرہ کے نشان)۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1669)»
وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تركب البحر إلا حاجا او معتمرا او غازيا في سبيل الله فإن تحت البحر نارا وتحت النار بحرا» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَرْكَبِ الْبَحْرَ إِلَّا حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حج کرنے یا عمرہ کرنے یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے علاوہ سمندر کا سفر نہ کرو، کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2489) ٭ فيه بشير بن مسلم: مجھول و الحديث ضعفه البخاري وغيره.»
وعن ام حرام عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المائد في البحر الذي يصيبه القيء له اجر شهيد والغريق له اجر شهيدين» . رواه ابو داود وَعَن أم حرَام عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ الَّذِي يُصِيبُهُ الْقَيْءُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ وَالْغَرِيقُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ام حرام رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر (کے سفر) میں چکرانے والے شخص کو قے آ جائے تو اس کے لیے ایک شہید کا اجر ہے، اور جو شخص ڈوب جائے تو اس کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2493)»
وعن ابي مالك الاشعري قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من فصل في سبيل الله فمات او قتل او وقصه فرسه او بعيره او لدغته هامة او مات في فراشه باي حتف شاء الله فإنه شهيد وإن له الجنة» . رواه ابو داود وَعَن أبي مالكٍ الأشعريّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ فَصَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمَاتَ أَوْ قُتِلَ أَوْ وَقَصَهُ فَرَسُهُ أَوْ بَعِيرُهُ أَوْ لَدْغَتْهُ هَامَّةٌ أَو مَاتَ فِي فِرَاشِهِ بِأَيِّ حَتْفٍ شَاءَ اللَّهُ فَإِنَّهُ شَهِيدٌ وَإِن لَهُ الْجنَّة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں نکلے اور وہ فوت ہو جائے یا اسے قتل کر دیا جائے یا اس کا گھوڑا یا اس کا اونٹ اسے گرا دے یا کوئی زہریلی چیز اسے ڈس لے یا وہ اپنے بستر پر کسی قسم کی موت سے اللہ کی مشیت سے فوت ہو جائے تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2499) [و صححه الحاکم علي شرط مسلم (78/2. 79) فرده الذهبي] ٭ بقية صرح بالسماع وقال الذھبي: و عبد الرحمٰن بن غنم لم يدرکه مکحول فيما أظن. (تلخيص المستدرک 78/2. 79)»
وعن عبد الله بن عمرو ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «قفلة كغزوة» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَفْلَةٌ كغزوة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(جہاد سے) واپس آنا جہاد کی طرح ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2487)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «للغازي اجره وللجاعل اجره واجر الغازي» . رواه ابو داود وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِلْغَازِي أَجْرُهُ وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُهُ وَأَجْرُ الْغَازِي» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد کرنے والے کے لیے اس کا اجر ہے اور جہاد پر تیار کرنے والے کے لیے تیاری کا اجر بھی ہے اور جہاد کرنے کا اجر بھی ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2526)»
وعن ابي ايوب سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «ستفتح عليكم الامصار وستكون جنود مجندة يقطع عليكم فيها بعوث فيكره الرجل البعث فيتخلص من قومه ثم يتصفح القبائل يعرض نفسه عليهم من اكفيه بعث كذا الا وذلك الاجير إلى آخر قطرة من دمه» . رواه ابو داود وَعَن أبي أَيُّوب سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «سَتُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الْأَمْصَارُ وَسَتَكُونُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ يُقْطَعُ عَلَيْكُمْ فِيهَا بُعُوثٌ فَيَكْرَهُ الرَّجُلُ الْبَعْثَ فَيَتَخَلَّصُ مَنْ قَوْمِهِ ثُمَّ يَتَصَفَّحُ الْقَبَائِلَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَيْهِمْ مَنْ أَكْفِيهِ بَعْثَ كَذَا أَلَا وَذَلِكَ الْأَجِيرُ إِلَى آخِرِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم پر علاقے فتح کیے جائیں گے اور فوجیں مجتمع ہوں گی اس میں سے چند دستے تشکیل دیے جائیں گے، ایک شخص (بلا اجرت) جانا پسند نہیں کرے گا اور وہ اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا، پھر وہ ایسے قبائل کو تلاش کرے گا جن کے سامنے وہ اپنی خدمات پیش کرے گا اور کہے گا کہ کون ہے وہ شخص جس کی جگہ میں لشکر میں شرکت کروں، سن لو! ایسا شخص اپنے خون کے آخری قطرے تک اجیر ہے (وہ ثواب سے محروم رہے گا)۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2525) ٭ فيه أبو سورة ابن أخي أبي أيوب: ضعيف.»
وعن يعلى بن امية قال: اذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالغزو وان شيخ كبير ليس لي خادم فالتمست اجيرا يكفيني فوجدت رجلا سميت له ثلاثة دنانير فلما حضرت غنيمة اردت ان اجري له سهمه فجئت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت له فقال: «ما اجد له في غزوته هذه في الدنيا والآخرة إلا دنانيره التي تسمى» . رواه ابو داود وَعَن يَعْلى بن أُميَّةَ قَالَ: أَذِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالغزو وَأَن شَيْخٌ كَبِيرٌ لَيْسَ لِي خَادِمٌ فَالْتَمَسْتُ أَجِيرًا يَكْفِينِي فَوَجَدْتُ رَجُلًا سَمَّيْتُ لَهُ ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ فَلَمَّا حَضَرَتْ غَنِيمَةٌ أَرَدْتُ أَنْ أُجْرِيَ لَهُ سَهْمَهُ فَجِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ لَهُ فَقَالَ: «مَا أَجِدُ لَهُ فِي غَزْوَتِهِ هَذِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا دَنَانِيرَهُ الَّتِي تسمى» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
یعلی بن امیہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ کا اعلان فرمایا: تو میں اس وقت عمر رسیدہ شخص تھا، میرے پاس کوئی خادم بھی نہیں تھا، میں نے اپنی طرف سے کفایت کرنے کے لیے ایک اجیر تلاش کیا چنانچہ مجھے ایک آدمی مل گیا، میں نے اس کے لیے تین دینار طے کیے، جب مال غنیمت آیا تو میں نے اسے اس کا حصہ دینے کا ارادہ کیا، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے یہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس غزوہ میں اس کے لیے ان تین مقررہ دینار کے علاوہ دنیا و آخرت میں کچھ اور نہیں پاتا۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2527)»
وعن ابي هريرة ان رجلا قال: يا رسول الله رجل يريد الجهاد في سبيل الله وهو يبتغي عرضا من عرض الدنيا فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا اجر له» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رسولَ الله رجلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضاً من عرَضِ الدُّنْيَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا أجر لَهُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک آدمی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتا ہے جبکہ وہ دنیا کا مال و متاع چاہتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے کوئی اجر نہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2516)»
وعن معاذ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الغزو غزوان فاما من ابتغى وجه الله واطاع الإمام وانفق الكريمة وياسر الشريك واجتنب الفساد فإن نومه ونهبه اجر كله. واما من غزا فخرا ورياء وسمعة وعصى الإمام وافسد في الارض فإنه لم يرجع بالكفاف» . رواه مالك وابو داود والنسائي وَعَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ واجتنبَ الْفساد فَإِن نَومه ونهبه أَجْرٌ كُلُّهُ. وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ» . رَوَاهُ مَالِكٌ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ
معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد دو قسم کا ہے، رہا وہ شخص جس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا، امام و امیر کی اطاعت کی، انتہائی قیمتی مال خرچ کیا، اپنے ساتھی کو آسانی و سہولت فراہم کی اور فساد سے اجتناب کیا تو ایسے شخص کا سونا اور جاگنا سب باعث اجر ہے، دوسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا نیز شہرت کی خاطر جہاد کیا، امام و امیر کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پیدا کیا تو وہ ثواب کے ساتھ واپس نہیں آتا۔ “ صحیح، رواہ مالک و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه مالک (466/2 ح 1030 وھو موقوف / حسن) و أبو داود (2515 وسنده صحيح) و النسائي (49/6. 50 ح 3190. 4200)»