عن عوف بن مالك: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اتاه الفيء قسمه في يومه فاعطى الآهل حظين واعطى الاعزب حظا فدعيت فاعطاني حظين وكان لي اهل ثم دعي بعدي عمار بن ياسر فاعطي حظا واحدا. رواه ابو داود عَن عوفِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَتَاهُ الْفَيْءُ قَسَمَهُ فِي يَوْمِهِ فَأَعْطَى الْآهِلَ حَظَّيْنِ وَأَعْطَى الْأَعْزَبَ حَظًّا فَدُعِيتُ فَأَعْطَانِي حَظَّيْنِ وَكَانَ لِي أَهْلٌ ثُمَّ دُعِيَ بَعْدِي عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَأُعْطِيَ حَظًّا وَاحِدًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مالِ فے آتا تو آپ اسے اسی روز تقسیم فرما دیتے، آپ شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، مجھے بلایا گیا اور آپ نے مجھے دو حصے دیے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، پھر میرے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا تو انہیں ایک حصہ دیا گیا۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2953)»
وعن ابن عمر قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم اول ما جاءه شيء بدا بالمحررين. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ مَا جَاءَهُ شيءٌ بدَأَ بالمحرَّرينَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کے پاس مالِ فے میں سے کوئی چیز آتی تو آپ سب سے پہلے انہیں عطا فرماتے جو (غلامی سے) آزاد کیے گئے ہوتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2951)»
وعن عائشة: ان النبي صلى الله عليه وسلم اتى بطبية فيها خرز فقسمها للحرة والامة قالت عائشة: كان ابي يقسم للحر والعبد. رواه ابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بطبية فِيهَا خَرَزٌ فَقَسَمَهَا لِلْحُرَّةِ وَالْأَمَةِ قَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ أَبِي يَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں نگینوں کی ایک تھیلی پیش کی گئی تو آپ نے اسے آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے مابین تقسیم فرما دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) آزاد اور غلام ہر دو میں تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2952)»
وعن مالك بن اوس بن الحدثان قال: ذكر عمر بن الخطاب يوما الفيء فقال: ما انا احق بهذا الفيء منكم وما احد منا باحق به من احد إلا انا على منازلنا من كتاب الله عز وجل وقسم رسوله صلى الله عليه وسلم فالرجل وقدمه والرجل وبلاؤه والرجل وعياله والرجل وحاجته. رواه ابو داود وَعَن مالكِ بن أوسِ بن الحدَثانِ قَالَ: ذكر عمر بن الْخطاب يَوْمًا الْفَيْءَ فَقَالَ: مَا أَنَا أَحَقُّ بِهَذَا الْفَيْءِ مِنْكُمْ وَمَا أَحَدٌ مِنَّا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا أَنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَسْمِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالرَّجُلُ وَقِدَمُهُ وَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُهُ وَالرَّجُلُ وَعِيَالُهُ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک روز مالِ فے کا ذکر کیا تو فرمایا: میں اس مال فے کا تم سے زیادہ حق دار ہوں اور نہ ہم میں سے کوئی اور اس کا زیادہ حق دار ہے، ہم اللہ عزوجل کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم کے مطابق اپنے مراتب پر ہیں، کوئی آدمی اپنے قبولِ اسلام میں سبقت رکھنے والا ہے، کوئی اپنی شجاعت والا ہے، کوئی آدمی عیال دار ہے اور کوئی آدمی ضرورت مند ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2950) ٭ فيه محمد بن إسحاق مدلس و عنعن.»
وعنه قال: قرا عمر بن الخطاب رضي الله عنه: (إنما الصدقات للفقراء والمساكين) حتى بلغ (عليم حكيم) فقال: هذه لهؤلاء. ثم قرا (واعلموا ان ما غنمتم من شيء فإن لله خمسه وللرسول) حتى بلغ (وابن السبيل) ثم قال: هذه لهؤلاء. ثم قرا (ما افاء الله على رسوله من اهل القرى) حتى بلغ (للفقراء) ثم قرا (والذين جاؤوا من بعدهم) ثم قال: هذه استوعبت المسلمين عامة فلئن عشت فلياتين الراعي وهو بسرو حمير نصيبه منها لم يعرق فيها جبينه. رواه في شرح السنة وَعَنْهُ قَالَ: قَرَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ: (إِنَّما الصَّدَقاتُ للفقراءِ والمساكينِ) حَتَّى بَلَغَ (عَلِيمٌ حَكِيمٌ) فَقَالَ: هَذِهِ لِهَؤُلَاءِ. ثُمَّ قَرَأَ (وَاعْلَمُوا أَنَّ مَا غَنِمْتُمْ مِنْ شيءٍ فإنَّ للَّهِ خُمُسَه وللرَّسولِ) حَتَّى بلغَ (وابنِ السَّبِيلِ) ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ لِهَؤُلَاءِ. ثُمَّ قَرَأَ (مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقرى) حَتَّى بلغَ (للفقراءِ) ثمَّ قرأَ (والذينَ جاؤوا منْ بعدِهِم) ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ اسْتَوْعَبَتِ الْمُسْلِمِينَ عَامَّةً فَلَئِنْ عِشْتُ فَلَيَأْتِيَنَّ الرَّاعِيَ وَهُوَ بِسَرْوِ حِمْيَرَ نَصِيبُهُ مِنْهَا لَمْ يَعْرَقْ فِيهَا جَبِينُهُ. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ آیت ”صدقات (زکوۃ) تو فقراء اور مساکین کے لیے ہیں ..... علیم حکیم۔ “ تک تلاوت فرمائی۔ فرمایا یہ (آیت) ان کے لیے ہے، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جان لو جو تم نے مالِ غنیمت حاصل کیا اس میں سے خمس اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ ..... مسافر“ تک تلاوت فرمائی، پھر فرمایا: یہ ان کے لیے ہے، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ”اللہ نے بستی والوں سے اپنے رسول کو جو دیا ..... حتی کہ وہ فقراء کے لیے“ تک پہنچے، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ”وہ لوگ جو ان کے بعد آئے۔ “ پھر فرمایا: یہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے، اگر میں زندہ رہا تو سروحمیر (یمن کے شہر) کے چرواہے کو مشقت اٹھائے بغیر اس سے اس کا حصہ پہنچ جائے گا۔ اسنادہ صحیح، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه البغوي في شرح السنة (11/ 138 ح 2740) [و عبد الرزاق في المصنف (20040)]»
وعنه قال: كان فيما احتج فيه عمر ان قال: كانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث صفايا بنو النضير وخيبر وفدك فاما بنو النضير فكانت حبسا لنوائبه واما فدك فكانت حبسا لابناء السبيل واما خيبر فجزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة اجزاء: جزاين بين المسلمين وجزء نفقة لاهله فما فضل عن نفقة اهله جعله بين فقراء المهاجرين. رواه ابو داود وَعنهُ قَالَ: كانَ فِيمَا احتجَّ فيهِ عُمَرُ أَنْ قَالَ: كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ صَفَايَا بَنُو النَّضِيرِ وخيبرُ وفَدَكُ فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ فَكَانَتْ حَبْسًا لِنَوَائِبِهِ وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ حَبْسًا لِأَبْنَاءِ السَّبِيلِ وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ أَجزَاء: جزأين بينَ المسلمينَ وجزءً نَفَقَةً لِأَهْلِهِ فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال یہ تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تین مقامات کا مال مخصوص تھا، بنو نضیر، خیبر اور فدک کا۔ بنو نضیر کی زمین وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضروریات کے لیے مختص تھی، فدک مسافروں کے لیے مختص اور خیبر کی زمین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، دو حصے مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے نفقہ کے لیے مقرر فرمایا۔ آپ کے اہل خانہ کے نفقہ سے جو بچ جاتا وہ آپ فقراء مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2967) ٭ الزھري صرح بالسماع في أصل الحديث و لکنه عنعن في ھذا اللفظ وھو مدلس مشھور.»
عن المغيرة قال: إن عمر بن عبد العزيز جمع بني مروان حين استخلف فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت له فدك فكان ينفق منها ويعود منها على صغير بني هاشم ويزوج منها ايمهم وإن فاطمة سالته ان يجعلها لها فابى فكانت كذلك في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم في حياته حتى مضى لسبيله فلما ولي ابو بكر علم فيها بما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم في حياته حتى مضى لسبيله فلما ان ولي عمر بن الخطاب عمل فيها بمثل ما عملا حتى مضى لسبيله ثم اقتطعها مروان ثم صارت لعمر بن عبد العزيز فرايت امرا منعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة ليس لي بحق وإني اشهدكم اني رددتها على ما كانت. يعني على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر. رواه ابو داود عَن المغيرةِ قَالَ: إِنَّ عمَرَ بنَ عبد العزيزِ جَمَعَ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لسبيلِه فَلَمَّا وُلّيَ أَبُو بكرٍ علم فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ثُمَّ اقْتَطَعَهَا مَرْوَانُ ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وعمَرَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
مغیرہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز ؒ جب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے بنو مروان کو جمع کیا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے فدک مخصوص تھا، آپ اس میں سے (اپنے اہل خانہ پر) خرچ کرتے، بنو ہاشم کے چھوٹوں پر خرچ کرتے اور اسی میں سے ان کے غیر شادی شدہ افراد کی شادی کیا کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ فدک آپ انہیں عطا فرما دیں، آپ نے انکار فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں معاملہ اسی طرح رہا، آپ کے بعد جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کیا تھا، حتی کہ وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے، جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے ان دونوں حضرات نے کیا تھا، حتی کہ وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے، پھر مروان نے اسے جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبد العزیز کے لیے ہو گئی، میں نے دیکھا کہ یہ وہ مال ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہ کو نہیں دیا، لہذا اسے لینے کا مجھے بھی کوئی حق نہیں، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے اسی جگہ لوٹا دیا ہے جہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2972) ٭ فيه مغيرة بن مقسم مدلس و عنعن و السند منقطع.»