وعنه قال: اهدى رجل لرسول الله صلى الله عليه وسلم غلاما يقال له: مدعم فبينما مدعم يحط رحلا لرسول الله صلى الله عليه وسلم إذ اصابه سهم عاثر فقتله فقال الناس: هنيئا له الجنة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كلا والذي نفسي بيده إن الثملة التي اخذها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا» . فلما سمع ذلك الناس جاء رجل بشرك او شراكين إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «شراك من نار او شراكان من نار» وَعَنْهُ قَالَ: أَهْدَى رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا يُقَالُ لَهُ: مِدْعَمٌ فَبَيْنَمَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذْ أَصَابَهُ سهم عاثر فَقَتَلَهُ فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَهُ الْجَنَّةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا وَالَّذِي نَفسِي بِيَدِهِ إِن الثملة الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا» . فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِك النَّاس جَاءَ رجل بشرك أَوْ شِرَاكَيْنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «شِرَاكٌ مِنْ نَارٍ أَوْ شِرَاكَانِ من نارٍ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدعم نامی ایک غلام بطور ہدیہ پیش کیا، مدعم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ اسے ایک نامعلوم جانب سے ایک تیر آ لگا جس سے وہ قتل ہو گیا، لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے غزوہ خیبر کے مالِ غنیمت میں سے، اس کی تقسیم سے پہلے، جو چادر چوری کی تھی وہ اس پر آگ بھڑکا رہی ہے۔ “ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے آیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تسمہ یا دو تسمے آگ (میں جانے کے سبب) سے ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6707) و مسلم (115/183)»
وعن عبد الله بن عمرو قال: كان على ثقل النبي صلى الله عليه وسلم رجل يقال له كركرة فمات فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هو في النار» فذهبوا ينظرون فوجدوا عباءة قد غلها. رواه البخاري وَعَن عبدِ الله بنِ عَمْروٍ قَالَ: كَانَ عَلَى ثَقَلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ كَرْكَرَةُ فَمَاتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ فِي النَّارِ» فَذَهَبُوا يَنْظُرُونَ فَوَجَدُوا عَبَاءَةً قد غلها. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کرکرہ نامی شخص، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامان پر مامور تھا، وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جہنمی ہے۔ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کا سامان دیکھنے لگے تو انہوں نے ایک چادر پائی جو اُس نے چوری کی تھی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3074)»
وعن ابن عمر قال: كنا نصيب في مغازينا العسل والعنب فناكله ولا نرفعه رواه البخاري وَعَن ابْن عمر قَالَ: كُنَّا نُصِيبُ فِي مَغَازِينَا الْعَسَلَ وَالْعِنَبَ فنأكله وَلَا نرفعُه رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوات میں ہمیں شہد اور انگور ملتے تو ہم انہیں کھا لیتے تھے، اور انہیں اوپر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہیں پہنچاتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3154)»
وعن عبد الله بن مغفل قال: اصبت جرابا من شحم يوم خيبر فالتزمته فقلت: لا اعطي اليوم احدا من هذا شيئا فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يبتسم إلي. متفق عليه. وذكر الحديث ابي هريرة «ما اعطيكم» في باب «رزق الولاة» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: أَصَبْتُ جِرَابًا مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ فَالْتَزَمْتُهُ فَقُلْتُ: لَا أُعْطِي الْيَوْمَ أَحَدًا مِنْ هَذَا شَيْئًا فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يبتسم إِلَيّ. مُتَّفق عَلَيْهِ. وَذكر الحَدِيث أَبِي هُرَيْرَةَ «مَا أُعْطِيكُمْ» فِي بَابِ «رِزْقِ الْوُلَاة»
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوۂ خیبر میں مجھے چربی کی ایک تھیلی ملی تو میں نے اسے اٹھا لیا، اور کہا: میں آج اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا، میں نے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف (دیکھ کر) مسکرا رہے تھے۔ متفق علیہ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ”میں جو تمہیں عطا کروں۔ “ باب رزق الولاۃ میں ذکر کی گئی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3153) و مسلم (72/ 1772) حديث أبي ھريرة تقدم (3745)»
عن ابي امامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله فضلني على الانبياء او قال: فضل امتي على الامم واحل لنا الغنائم. رواه الترمذي عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَنِي عَلَى الْأَنْبِيَاءِ أَوْ قَالَ: فَضَّلَ أُمَّتِي عَلَى الْأُمَمِ وأحلَّ لنا الْغَنَائِم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوامامہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نے مجھے تمام انبیا ؑ پر فضیلت عطا کی ہے۔ “ یا فرمایا: ”میری امت کو تمام امتوں پر فضیلت عطا کی گئی ہے اور ہمارے لیے مالِ غنیمت حلال کیا گیا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1553 وقال: حسن صحيح)»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يومئذ يوم حنين: «من قتل كافرا فله سلبه» فقتل ابو طلحة يومئذ عشرين رجلا واخذ اسلابهم. رواه الدارمي وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم: يَوْمئِذٍ يَوْمَ حُنَيْنٍ: «مَنْ قَتَلَ كَافِرًا فَلَهُ سَلَبُهُ» فَقَتَلَ أَبُو طَلْحَةَ يَوْمَئِذٍ عِشْرِينَ رَجُلًا وَأَخَذَ أسلابهم. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: ”جس نے کسی کافر کو قتل کیا تو اس کا سازو سامان اسی کا ہے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس روز بیس آدمی قتل کیے اور انہوں نے ان کا سازو سامان لے لیا۔ اسنادہ صحیح، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الدارمي (229/2 ح 2487) [و أبو داود (2718) و مسلم (1809مطولاً)]»
وعن عوف بن مالك الاشجعي وخالد بن الوليد: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في السلب للقاتل. ولم يخمس السلب. رواه ابو داود وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي السَّلَبِ لِلْقَاتِلِ. وَلَمْ يُخَمِّسِ السَلَب. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عوف بن مالک اشجعی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ میں قتل ہو جانے والے شخص کے سازو سامان کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ وہ اس کے قاتل کا ہے، اور آپ نے مقتول کے سازو سامان سے خمس نہیں نکالا۔ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (2721)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: نفلني رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر سيف ابي جهل وكان قتله. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: نَفَّلَنِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ سَيْفَ أَبِي جَهْلٍ وَكَانَ قَتَلَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ بدر کے موقع پر ابوجہل کی تلوار مجھے اضافی طور پر عطا فرمائی اور انہوں (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) نے اسے قتل کیا تھا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2722) ٭ فيه أبو عبيدة: لم يسمع من أبيه، فالسند منقطع.»
وعن عمير مولى آبي اللحم قال: شهدت خيبر مع ساداتي فكلموا في رسول الله صلى الله عليه وسلم وكلموه اني مملوك فامرني فقلدت سيفا فإذا انا اجره فامر لي بشيء من خرثي المتاع وعرضت عليه رقية كنت ارقي بها المجانين فامرني بطرح بعضها وحبس بعضها. رواه الترمذي وابو داود إلا ان روايته انتهت عند قوله: المتاع وَعَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ قَالَ: شَهِدْتُ خَيْبَر مَعَ ساداتي فَكَلَّمُوا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمُوهُ أَنِّي مَمْلُوكٌ فَأَمَرَنِي فَقُلِّدْتُ سَيْفًا فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ فَأَمَرَ لِي بِشَيْءٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ وَعَرَضْتُ عَلَيْهِ رُقْيَةً كَنْتُ أَرْقِي بِهَا الْمَجَانِينَ فَأَمَرَنِي بِطَرْحِ بَعْضِهَا وَحَبْسِ بَعْضِهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ إِلَّا أَنَّ رِوَايَتَهُ انتهتْ عِنْد قَوْله: الْمَتَاع
ابولحم کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اپنے مالکوں کے ساتھ غزوۂ ��یبر میں شریک تھا، انہوں نے میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کی اور انہوں نے آپ کو بتایا کہ میں ایک غلام ہوں، آپ نے میرے متعلق حکم فرمایا تو مجھے تلوار حمائل کی گئی، اور میں اسے گھسیٹ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھریلو سامان میں سے مجھے کچھ دینے کا حکم فرمایا۔ میں نے آپ کو ایک دم سنایا جو کہ میں دیوانوں پر کیا کرتا تھا، آپ نے اس میں سے کچھ الفاظ ترک کر دینے اور کچھ رکھ لینے کا حکم دیا۔ ترمذی، ابوداؤد، البتہ ابوداؤد کی روایت لفظ متاع پر ختم ہو جاتی ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1557 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (2730)»
وعن محمع بن جارية قال: قسمت خيبر على اهل الحديبية فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانية عشر سهما وكان الجيش الفا وخمسمائة فيهم ثلاثمائة فارس فاعطي الفارس سهمين والراجل سهما رواه ابو داود وقال: حديث ابن عمر اصح فالعمل عليه واتى الوهم في حديث مجمع انه قال: انه قال: ثلاثمائة فارس وإنما كانوا مائتي فارس وَعَن محمع بن جاريةَ قَالَ: قُسِمَتْ خَيْبَرُ عَلَى أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ فَقَسَمَهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا وَكَانَ الْجَيْشُ أَلْفًا وَخَمْسَمِائَةٍ فِيهِمْ ثَلَاثُمِائَةِ فَارِسٍ فَأُعْطِيَ الْفَارِسُ سَهْمَيْنِ وَالرَّاجِلُ سَهْمًا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ أصح فَالْعَمَل عَلَيْهِ وَأَتَى الْوَهْمُ فِي حَدِيثِ مُجَمِّعٍ أَنَّهُ قَالَ: أَنَّهُ قَالَ: ثَلَاثُمِائَةِ فَارِسٍ وَإِنَّمَا كَانُوا مِائَتَيْ فَارس
مجمع بن جاریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، خیبر کا مالِ غنیمت اہل حدیبیہ پر تقسیم کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اٹھارہ حصوں میں تقسیم فرمایا: لشکر کی تعداد پندرہ سو تھی، اس میں سے تین سو گھڑ سوار تھے، آپ نے گھڑ سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ عطا فرمایا۔ اور امام ابوداؤد نے فرمایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے اور عمل اسی پر ہے۔ مجمع سے مروی حدیث میں وہم ہے کہ انہوں نے کہا: تین سو گھڑ سوار تھے، جبکہ وہ صرف دو سو تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2736)»