وعن علي رضي الله عنه قال: لما كان يوم بدر تقدم عتبة بن ربيعة وتبعه ابنه واخوه فنادى: من يبارز؟ فانتدب له شباب من الانصار فقال: من انتم؟ فاخبروه فقال: لا حاجة لنا فيكم إنما اردنا بني عمنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قم يا حمزة قم يا علي قم يا عبيدة بن الحارث» . فاقبل حمزة إلى عتبة واقبلت إلى شيبة واختلف بين عبيدة والوليد ضربتان فاثخن كل واحد منهما صاحبه ثم ملنا على الوليد فقتلناه واحتملنا عبيدة. رواه احمد وابو داود وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ تَقَدَّمَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ وَتَبِعَهُ ابْنُهُ وَأَخُوهُ فَنَادَى: مَنْ يُبَارِزُ؟ فَانْتُدِبَ لَهُ شبابٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِيكُمْ إِنَّمَا أَرَدْنَا بَنِي عَمِّنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ يَا حَمْزَةُ قُمْ يَا عَلِيُّ قُمْ يَا عُبَيْدَةُ بْنَ الْحَارِثِ» . فَأَقْبَلَ حَمْزَةُ إِلى عتبةَ وَأَقْبَلْتُ إِلَى شَيْبَةَ وَاخْتَلَفَ بَيْنَ عُبَيْدَةَ وَالْوَلِيدِ ضَرْبَتَانِ فَأَثْخَنَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ ثُمَّ مِلْنَا عَلَى الْوَلِيدِ فَقَتَلْنَاهُ وَاحْتَمَلْنَا عُبَيْدَةَ. رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب بدر کا دن تھا تو عتبہ بن ربیعہ آگے بڑھا، اس کے پیچھے اس کا بیٹا (ولید بن عتبہ) اور اس کا بھائی (شیبہ بن ربیعہ) بھی آ گیا تو عتبہ نے کہا: مقابلے پر کون آتا ہے؟ اس کی اس للکار کا انصار کے نوجوانوں نے جواب دیا تو اس نے پوچھا، تم کون ہو؟ انہوں نے اسے بتایا تو اس نے کہا: ہمارا تم سے کوئی سروکار نہیں، ہم تو اپنے چچا زادوں سے لڑنا چاہتے ہیں، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ! اٹھو، علی! اٹھو، عبیدہ بن حارث! اٹھو۔ “ حمزہ رضی اللہ عنہ عتبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور میں شیبہ کی طرف، جبکہ عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ولید کے درمیان دو دو وار ہوئے اور اِن دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے مقابل کو زخمی کیا، پھر ہم ولید پر پل پڑے اور اسے قتل کر دیا اور ہم نے عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اٹھا لیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (117/1 ح 948) و أبو داود (2665) ٭ أبو إسحاق مدلس و عنعن و له شواھد مرسلة.»
وعن ابن عمر قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فحاص الناس حيصة فاتينا المدينة فاختفينا بها وقلنا: هلكنا ثم اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا: يا رسول الله نحن الفارون. قال: «بل انتم العكارون وانا فئتكم» . رواه الترمذي. وفي رواية ابي داود نحوه وقال: «لا بل انتم العكارون» قال: فدنونا فقبلنا يده فقال: «انا فئة من المسلمين» وسنذكر حديث امية بن عبد الله: كان يستفتح وحديث ابي الدرداء «ابغوني في ضعفائكم» في باب «فضل الفقراء» إن شاء الله تعالى وَعَن ابنِ عُمر قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً فَأَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَاخْتَفَيْنَا بِهَا وَقُلْنَا: هَلَكْنَا ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُول الله نَحن الفارون. قَالَ: «بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ وَأَنَا فِئَتُكُمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي دَاوُدَ نَحْوَهُ وَقَالَ: «لَا بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ» قَالَ: فَدَنَوْنَا فَقَبَّلْنَا يَده فَقَالَ: «أَنا فِئَة من الْمُسْلِمِينَ» وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: كَانَ يَسْتَفْتِحُ وَحَدِيثُ أَبِي الدَّرْدَاءِ «ابْغُونِي فِي ضُعَفَائِكُمْ» فِي بَابِ «فَضْلِ الْفُقَرَاءِ» إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں روانہ کیا، لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ گئے اور ہم نے مدینہ منورہ پہنچ کر پناہ لی، اور ہم نے کہا: ہم مارے گئے، پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم تو فرار ہونے والے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے ہو، اور میں تمہاری جماعت ہوں (کہ فرار کے زمرے میں نہیں، بلکہ تم جماعت کے پاس آئے ہو)۔ “ ترمذی۔ اور ابوداؤد کی روایت میں اسی طرح ہے، اور فرمایا: ”بلکہ جانے والے ہو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، ہم قریب ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کو بوسہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں مسلمانوں کی جماعت ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ اور ہم امیہ بن عبداللہ سے مروی حدیث ((کان یستفتح)) اور ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ”مجھے اپنے ضعفاء میں تلاش کرو۔ باب فضل الفقراء میں ان شاءاللہ تعالیٰ ذکر کریں گے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1716 وقال: حسن غريب) و أبو داود (2647) ٭ فيه يزيد بن أبي زياد: ضعيف مدلس مختلط. حديث أمية بن عبد الله يأتي (5247) و حديث أبي الدرداء يأتي (5246)»
عن ثوبان بن يزيد: ان النبي صلى الله عليه وسلم نصب المنجنيق على اهل الطائف. رواه الترمذي مرسلا عَنْ ثَوْبَانَ بْنِ يَزِيدَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطائفِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ مُرْسلا
ثوبان بن یزید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کی۔ امام ترمذی ؒ نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2762) ٭ فيه عمر بن ھارون: متروک و للحديث شواھد ضعيفة، انظر بلوغ المرام بتحقيقي (1306)»
عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «عجب الله من قوم يدخلون الجنة في السلاسل» . وفي رواية: «يقادون إلى الجنة بالسلاسل» . رواه البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «عَجِبَ اللَّهُ مِنْ قَوْمٍ يُدْخَلُونَ الْجَنَّةَ فِي السَّلَاسِلِ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «يُقَادُونَ إِلى الجنَّةِ بالسلاسل» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان لوگوں پر خوش ہوتا ہے جو پابند سلاسل جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”جنہیں بیڑیاں پہنا کر جنت کی طرف چلایا جائے گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3010)»
وعن سلمة بن الاكوع قال اتى النبي صلى الله عليه وسلم عين من المشركين وهو في سفر فجلس عند اصحابه يتحدث ثم انفتل فقال النب ي صلى الله عليه وسلم: «اطلبوه واقتلوه» . فقتلته فنفلني سلبه وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَيْنٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَهُوَ فِي سَفَرٍ فَجَلَسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ يَتَحَدَّثُ ثُمَّ انْفَتَلَ فَقَالَ النَّب يُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اطْلُبُوهُ وَاقْتُلُوهُ» . فَقَتَلْتُهُ فنفَّلَني سلبَه
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، دورانِ سفر مشرکین میں سے ایک جاسوس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور وہ آپ کے ساتھیوں کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا رہا، پھر غائب ہو گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تلاش کرو اور اسے قتل کر دو۔ “ چنانچہ میں نے اسے قتل کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا سامان مجھے عطا فرما دیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3051) و مسلم (1754/45)»
وعنه قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوازن فبينا نحن نتضحى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاء رجل على جمل احمر فاناخه وجعل ينظر وفينا ضعفة ورقة من الظهر وبعضنا مشاة إذ خرج يشتد فاتى جمله فاثاره فاشتد به الجمل فخرجت اشتد حتى اخذت بخطام الجمل فانخته ثم اخترطت سيفي فضربت راس الرجل ثم جئت بالجمل اقوده وعليه رحله وسلاحه فاستقبلني رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس فقال: «من قتل الرجل؟» قالوا: ابن الاكوع فقال: «له سلبه اجمع» وَعَنْهُ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ فَبَيْنَا نَحْنُ نَتَضَحَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ فَأَنَاخَهُ وَجَعَلَ يَنْظُرُ وَفِينَا ضَعْفَةٌ وَرِقَّةٌ مِنَ الظَّهْرِ وَبَعْضُنَا مُشَاةٌ إِذْ خَرَجَ يَشْتَدُّ فَأَتَى جَمَلَهُ فَأَثَارَهُ فَاشْتَدَّ بِهِ الْجَمَلُ فَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ فَأَنَخْتُهُ ثُمَّ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي فَضَرَبْتُ رَأْسَ الرَّجُلِ ثُمَّ جِئْتُ بِالْجَمَلِ أَقُودُهُ وَعَلَيْهِ رَحْلُهُ وَسِلَاحُهُ فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فَقَالَ: «مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟» قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ فَقَالَ: «لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ»
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوازن قبیلے سے جہاد کیا، اس اثنا میں کہ ہم چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ایک آدمی سرخ اونٹ پر آیا تو اس نے اسے بٹھا دیا اور وہ جائزہ لینے لگا، اس وقت ہم میں ضعف و سستی تھی، سواریاں کم تھیں جبکہ ہم میں سے بعض پیادہ تھے، وہ آدمی اچانک ہمارے بیچ میں سے نکلا تیزی سے اپنے اونٹ کے پاس آیا اسے کھڑا کیا اور اونٹ اسے تیزی کے ساتھ لے گیا، میں بھی تیزی سے روانہ ہوا حتی کہ میں نے اونٹ کی لگام پکڑ لی، اسے بٹھایا پھر میں نے اپنی تلوار سونت لی، میں نے اس آدمی کا سر قلم کر دیا اور اونٹ لے آیا، اس کا سازو سامان اور اس کا اسلحہ بھی اس پر لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے میرا استقبال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس آدمی کو کس نے قتل کیا؟ صحابہ نے بتایا: ابن اکوع نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا سارا سازو سامان اس کے لیے ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3051) ومسلم (45/ 1754)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: لما نزلت بنو قريظة على حكم سعد بن معاذ بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه فجاء على حمار فلما دنا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قوموا إلى سيدكم» فجاء فجلس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن هؤلاء نزلوا على حكمك» . قال: فإني احكم ان تقتل المقاتلة وان تسبى الذرية. قال: «لقد حكمت فيهم بحكم الملك» . وفي رواية: «بحكم الله» وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِليه فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ» فَجَاءَ فَجَلَسَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ» . قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تَقْتُلَ الْمُقَاتِلَةُ وَأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ. قَالَ: «لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بحُكْمِ المَلِكِ» . وَفِي رِوَايَة: «بِحكم الله»
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر رضا مند ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب وہ قریب آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے سردار کا استقبال کرو۔ “ چنانچہ وہ آئے اور بیٹھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ تمہارے فیصلے پر رضا مند ہوئے ہیں۔ “ انہوں نے عرض کیا: میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجو قتل کر دیے جائیں اور بچے قیدی بنا لیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ان کے درمیان اللہ بادشاہ کا فیصلہ کیا ہے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”اللہ کے حکم کے مطابق (فیصلہ کیا ہے)۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3043 والرواية الثانية: 3804) و مسلم (64/ 1769)»
وعن ابي هريرة قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له: ثمامة بن اثال سيد اهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ماذا عندك يا ثمامة؟» فقال: عندي يا محمد خير إن نقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان الغد فقال له: «ما عندك يا ثمامة؟» فقال: عندي ما قلت لك: إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت. فتركه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان بعد الغد فقال له: «ما عندك يا ثمامة؟» فقال: عندي ما قلت لك: إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلقوا ثمامة» فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل ثم دخل المسجد فقال: اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله يا محمد والله ما كان على وجه الارض وجه ابغض إلي من وجهك فقد اصبح وجهك احب الوجوه كلها إلي والله ما كان من دين ابغض إلي من دينك فاصبح دينك احب الدين كله إلي ووالله ما كان من بلد ابغض إلي من بلدك فاصبح بلدك احب البلاد كلها إلي. وإن خيلك اخذتني وانا اريد العمرة فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وامره ان يعتمر فلما قدم مكة قال له قائل: اصبوت؟ فقال: لا ولكنى اسلمت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم والله لا ياتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى ياذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه مسلم واختصره البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟» فَقَالَ: عنْدي يَا مُحَمَّد خير إِن نقْتل تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ كُنْتُ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتَرَكَهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ فَقَالَ لَهُ: «مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟» فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ كنتَ تريدُ المالَ فسَلْ تعط مِنْهُ مَا شِئْتَ. فَتَرَكَهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ لَهُ: «مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟» فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَطْلَقُوا ثُمَامَةَ» فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَن مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَيَّ وَوَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ كُلِّهَا إِلَيَّ. وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدَ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى؟ فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ: أَصَبَوْتَ؟ فَقَالَ: لَا وَلَكِنَّى أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ مُسلم وَاخْتَصَرَهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا، وہ بنو حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی شخص کو پکڑ لائے جو کہ اہل یمامہ کا سردار تھا، انہوں نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”ثمامہ! تمہارا کیا خیال ہے؟“ اس نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! خیر ہے، اگر تم نے قتل کیا تو صاحبِ خون کو قتل کرو گے، اگر احسان کرو گے تو قدر دان پر احسان کرو گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مطالبہ کریں آپ کو دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا، حتی کہ اگلا روز ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“ اس نے کہا: میرا وہی خیال ہے جو میں نے تمہیں کہا تھا، اگر احسان کرو گے تو ایک قدر دان پر احسان کرو گے، اگر قتل کرو گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کرو گے، جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہو مطالبہ کرو آپ کو دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا، حتی کہ اگلا روز ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ثمامہ! تمہارا کیا خیال ہے؟“ اس نے کہا: میرا وہی موقف ہے جو میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اگر تم احسان کرو گے تو ایک قدر دان شخص پر احسان کرو گے اگر قتل کرو گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر تمہیں مال چاہیے تو پھر جتنا چاہو مطالبہ کرو تمہیں دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ثمامہ کو کھول دو َ“ وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے درختوں کی طرف گیا، غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ “ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! روئے زمین پر آپ کا چہرہ مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا جبکہ اب آپ کا چہرہ مجھے تمام چہروں سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے، اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین مجھے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا، اب آپ کا دین میرے نزدیک تمام ادیان سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کا شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ ناپسندیدہ تھا، اب آپ کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ کے لشکر نے مجھے گرفتار کر لیا جبکہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، آپ میرے بارے کیا فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بشارت سنائی اور اسے عمرہ کرنے کا حکم فرمایا، جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے انہیں کہا: کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ہے، اللہ کی قسم! جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت نہ فرما دیں یمامہ سے تمہارے پاس گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا۔ مسلم، امام بخاری نے اسے مختصر بیان کیا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4372) و مسلم (1764/59)»
وعن جبير بن مطعم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال في اسارى بدر: «لو كان المطعم بن عدي حيا ثم كلمني في هؤلاء النتنى لتركتهم له» . رواه البخاري وَعَن جُبَير بن مطعم أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ: «لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى لتركتهم لَهُ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا: ”اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا، پھر وہ ان ناپاکوں کے متعلق سفار�� کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3139)»
وعن انس: ان ثمانين رجلا من اهل مكة هبطوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم من جبل التنعيم متسلحين يريدون غرة النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه فاخذهم سلما فاستحياهم. وفي رواية: فاعتقهم فانزل الله تعالى (وهو الذي كف ايديهم عنكم وايديكم عنهم ببطن مكة) رواه مسلم وَعَن أنسٍ: أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِيمِ مُتَسَلِّحِينَ يُرِيدُونَ غِرَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ فَأَخَذَهُمْ سِلْمًا فَاسْتَحْيَاهُمْ. وَفِي رِوَايَةٍ: فَأَعْتَقَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى (وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ ببطنِ مكةَ) رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مکہ کے اسّی آدمی مسلح ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر اچانک حملہ کرنے کی غرض سے جبلِ تنعیم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتر آئے، آپ نے انہیں مغلوب کر کے گرفتار کر لیا، لیکن آپ نے انہیں زندہ چھوڑ دیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”وہی ذات ہے جس نے وادئ مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے روکے رکھے اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے رکھے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1808/132)»