وعن علي رضي الله عنه قال: لما كان يوم بدر تقدم عتبة بن ربيعة وتبعه ابنه واخوه فنادى: من يبارز؟ فانتدب له شباب من الانصار فقال: من انتم؟ فاخبروه فقال: لا حاجة لنا فيكم إنما اردنا بني عمنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قم يا حمزة قم يا علي قم يا عبيدة بن الحارث» . فاقبل حمزة إلى عتبة واقبلت إلى شيبة واختلف بين عبيدة والوليد ضربتان فاثخن كل واحد منهما صاحبه ثم ملنا على الوليد فقتلناه واحتملنا عبيدة. رواه احمد وابو داود وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ تَقَدَّمَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ وَتَبِعَهُ ابْنُهُ وَأَخُوهُ فَنَادَى: مَنْ يُبَارِزُ؟ فَانْتُدِبَ لَهُ شبابٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِيكُمْ إِنَّمَا أَرَدْنَا بَنِي عَمِّنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ يَا حَمْزَةُ قُمْ يَا عَلِيُّ قُمْ يَا عُبَيْدَةُ بْنَ الْحَارِثِ» . فَأَقْبَلَ حَمْزَةُ إِلى عتبةَ وَأَقْبَلْتُ إِلَى شَيْبَةَ وَاخْتَلَفَ بَيْنَ عُبَيْدَةَ وَالْوَلِيدِ ضَرْبَتَانِ فَأَثْخَنَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ ثُمَّ مِلْنَا عَلَى الْوَلِيدِ فَقَتَلْنَاهُ وَاحْتَمَلْنَا عُبَيْدَةَ. رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب بدر کا دن تھا تو عتبہ بن ربیعہ آگے بڑھا، اس کے پیچھے اس کا بیٹا (ولید بن عتبہ) اور اس کا بھائی (شیبہ بن ربیعہ) بھی آ گیا تو عتبہ نے کہا: مقابلے پر کون آتا ہے؟ اس کی اس للکار کا انصار کے نوجوانوں نے جواب دیا تو اس نے پوچھا، تم کون ہو؟ انہوں نے اسے بتایا تو اس نے کہا: ہمارا تم سے کوئی سروکار نہیں، ہم تو اپنے چچا زادوں سے لڑنا چاہتے ہیں، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ! اٹھو، علی! اٹھو، عبیدہ بن حارث! اٹھو۔ “ حمزہ رضی اللہ عنہ عتبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور میں شیبہ کی طرف، جبکہ عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ولید کے درمیان دو دو وار ہوئے اور اِن دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے مقابل کو زخمی کیا، پھر ہم ولید پر پل پڑے اور اسے قتل کر دیا اور ہم نے عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اٹھا لیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (117/1 ح 948) و أبو داود (2665) ٭ أبو إسحاق مدلس و عنعن و له شواھد مرسلة.»