--. بےزبانوں کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے
حدیث نمبر: 3370
اعراب
وعن سهل بن الحنظلية قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعير قد لحق ظهره ببطنه فقال: «اتقوا الله في هذه البهائم المعجمة فاركبوها صالحة واتركوها صالحة» . رواه ابو داود وَعَن سهلِ بنِ الحَنظلِيَّةِ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ فَقَالَ: «اتَّقُوا اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْكَبُوهَا صَالِحَة واترُكوها صَالِحَة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک لاغر اونٹ کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان پر اس حال میں سواری کرو کہ وہ سواری کے قابل ہوں، اور انہیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ اچھے ہوں (ابھی تھکے نہ ہوں)۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2548)»
--. یتیموں کے کھانے پینے کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3371
اعراب
عن ابن عباس قال: لما نزل قوله تعالى (ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي احسن) وقوله تعالى: (إن الذين ياكلون اموال اليتامى ظلما) الآية انطلق من كان عنده يتيم فعزل طعامه من طعامه وشرابه من شرابه فإذا فضل من طعام اليتيم وشرابه شيء حبس له حتى ياكله او يفسد فاشتد ذلك عليهم فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فانزل الله تعالى: (ويسالونك عن اليتامى قل: إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانكم) فخلطوا طعامهم بطعامهم وشرابهم بشرابهم. رواه ابو داود والنسائي عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى (وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أحسن) وَقَوْلُهُ تَعَالَى: (إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا) الْآيَةَ انْطَلَقَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ يَتِيمٌ فَعَزَلَ طَعَامه من طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ مِنْ شَرَابِهِ فَإِذَا فَضَلَ مِنْ طَعَامِ الْيَتِيمِ وَشَرَابِهِ شَيْءٌ حُبِسَ لَهُ حَتَّى يَأْكُلَهُ أَوْ يَفْسُدَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: (وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ: إصْلَاح لَهُم خير وَإِن تخالطوهم فإخوانكم) فَخَلَطُوا طَعَامَهُمْ بِطَعَامِهِمْ وَشَرَابَهُمْ بِشَرَابِهِمْ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ کا فرمان: ”تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اسی کے ساتھ کہ وہ احسن ہو۔ “ اس کا فرمان: ”بے شک جو لوگ یتیموں کا مال از راہِ ظلم کھاتے ہیں۔ “ نازل ہوا تو پھر جس شخص کے پاس یتیم تھا اس نے اس کا کھانا اپنے کھانے سے، اس کا پینا اپنے پینے سے الگ کر دیا، اور جب یتیم کے کھانے پینے سے کچھ بچ جاتا تو وہ اسی کے لیے رکھ دیتے حتی کہ وہ اسے کھا لیتا یا وہ خراب ہو جاتا، یہ چیز ان پر بہت دشوار گزری تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”وہ آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیجئے ان کے لیے اصلاح کرنا بہتر ہے، اور اگر تم ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ “ انہوں نے ان کا کھانا اپنے کھانے کے ساتھ اور پینا اپنے پینے کے ساتھ ملا لیا۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2871) و النسائي (256/6 ح 3699) ٭ عطاء بن السائب اختلط.»
وعن ابي موسى قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم من فرق بين الوالد وولده وبين الاخ وبين اخيه. رواه ابن ماجه والدارقطني وَعَن أبي مُوسَى قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِهِ وَبَيْنَ الْأَخِ وَبَيْنَ أَخِيهِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارَقُطْنِيُّ
ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والد اور اس کے بچے کے درمیان، نیز بھائیوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے پر لعنت فرمائی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ و الدارقطنی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (2250) و الدارقطني (67/3) ٭ إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع الأنصاري: ضعيف.»
وعن عبد الله بن مسعود قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتي بالسبي اعطى اهل البيت جميعا كراهية ان يفرق بينهم. رواه ابن ماجه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِالسَّبْيِ أَعْطَى أَهْلَ الْبَيْتِ جَمِيعًا كَرَاهِيَةَ أَنْ يفرق بَينهم. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قیدی لائے جاتے تو آپ ایک گھر کے تمام افراد کسی ایک کو عطا فرما دیتے کیونکہ آپ کو ان میں جدائی ڈالنا ناپسند تھا۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (2248) ٭ فيه جابر الجعفي ضعيف رافضي مدلس اتھمه بعضھم، و في السند علة أخري.»
وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الا انبئكم بشراركم؟ الذي ياكل وحده ويجلد عبده ويمنع رفده» . رواه رزين وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِشِرَارِكُمُ؟ الَّذِي يَأْكُلُ وَحْدَهُ وَيَجْلِدُ عَبْدَهُ وَيَمْنَعُ رِفْدَهُ» . رَوَاهُ رزين
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے بُرے لوگوں کے متعلق نہ بتاؤں، وہ شخص ہے جو (بخل و تکبر کی وجہ سے) اکیلا کھاتا ہے، اپنے غلام کو مارتا ہے اور اپنا عطیہ اس کے مستحق کو نہیں دیتا۔ “ لم اجدہ، رواہ رزین۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «لم أجده، رواه رزين (لم أجده) ٭ قوله ’’و يجلد عبده و يمنع رفده‘‘ له شاھد عند الطبراني في الکبير (387/10ح 10775) فيه ابن ميمون متروک، انظر مجمع الزوائد (183/8) فلا يستشھد به.»
وعن ابي بكر الصديق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يدخل الجنة سيئ الملكة» . قالوا: يا رس ل الله اليس اخبرتنا ان هذه الامة اكثر الامم مملوكين ويتامى؟ قال: «نعم فاكرموهم ككرامة اولادكم واطعموهم مما تاكلون» . قالوا: فما تنفعنا الدنيا؟ قال: «فرس ترتبطه تقاتل عليه في سبيل الله ومملوك يكفيك فإذا صلى فهو اخوك» . رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ» . قَالُوا: يَا رَسُ لَ اللَّهِ أَلَيْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ أَكْثَرُ الْأُمَمِ مَمْلُوكِينَ وَيَتَامَى؟ قَالَ: «نَعَمْ فَأَكْرِمُوهُمْ كَكَرَامَةِ أَوْلَادِكُمْ وَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ» . قَالُوا: فَمَا تنفعنا الدُّنْيَا؟ قَالَ: «فَرَسٌ تَرْتَبِطُهُ تُقَاتِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَمْلُوكٌ يَكْفِيكَ فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(مملوکوں سے) بُرا سلوک کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ “ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ہمیں نہیں بتایا کہ اس امت میں تمام امتوں سے زیادہ مملوک اور یتیم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، تم ان کی اپنی اولاد کی طرح تکریم کرو اور جو خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ۔ “ انہوں نے عرض کیا: ہمیں دنیا میں کون سی چیز فائدہ دے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑا جسے تو تیار رکھے تاکہ تو اس پر اللہ کی راہ میں جہاد کرے، اور مملوک جو تجھے کفایت کرے، جب وہ نماز پڑھے تو وہ تمہارا بھائی ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (3691) [والترمذي: 1946] ٭ فيه فرقد ضعيف و تقدم طرفه (3358)»
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: عرضت على رسول الله صلى الله عليه وسلم عام احد وانا ابن اربع عشرة سنة فردني ثم عرضت عليه عام الخندق وانا ابن خمس عشرة سنة فاجازني فقال عمر بن عبد العزيز: هذا فرق ما بين المقاتلة والذرية عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ أُحُدٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً فَرَدَّنِي ثُمَّ عُرِضْتُ عَلَيْهِ عَامَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَأَجَازَنِي فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: هَذَا فَرْقُ مَا بَين الْمُقَاتلَة والذرية
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوہ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے مجھے واپس کر دیا، پھر غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں مجھے پیش کیا گیا تو آپ نے مجھے (جہاد کرنے کی) اجازت مرحمت فرما دی۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے فرمایا: یہی عمر (پندرہ سال) لڑنے والے جوانوں اور لڑکوں (نابالغ) میں فرق کرنے والی ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2664) و مسلم (1868/91)»
--. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو خالہ کے سپرد کرنا
حدیث نمبر: 3377
اعراب
وعن البراء بن عازب قال: صالح النبي صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية على ثلاثة اشياء: على ان من اتاه من المشركين رده إليهم ومن اتاهم من المسلمين لم يردوه وعلى ان يدخلها من قابل ويقيم بها ثلاثة ايام فلما دخلها ومضى الاجل خرج فتبعته ابنة حمزة تنادي: يا عم يا عم فتناولها علي فاخذ بيدها فاختصم فيها علي وزيد وجعفر قال علي: انا اخذتها وهي بنت عمي. وقال جعفر: بنت عمي وخالتها تحتي وقال زيد: بنت اخي فقضى بها النبي صلى الله عليه وسلم لخالتها وقال: «الخالة بمنزلة الام» . وقال لعلي: «انت مني وانا منك» وقال لجعفر: «اشبهت خلقي وخلقي» . وقال لزيد: «انت اخونا ومولانا» وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: عَلَى أَنَّ مَنْ أَتَاهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ رَدَّهُ إِلَيْهِمْ وَمَنْ أَتَاهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَمْ يَرُدُّوهُ وَعَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا مِنْ قَابِلٍ وَيُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ خَرَجَ فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي: يَا عَمِّ يَا عَمِّ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ قَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ بِنْتُ عَمِّي. وَقَالَ جَعْفَرٌ: بِنْتُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي وَقَالَ زَيْدٌ: بِنْتُ أَخِي فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا وَقَالَ: «الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ» . وَقَالَ لَعَلِيٍّ: «أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ» وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي» . وَقَالَ لزيد: «أَنْت أخونا ومولانا»
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر تین اشیاء پر صلح فرمائی، کہ مشرکین میں سے جو شخص ان کی طرف آئے گا اسے ان (مشرکین) کی طرف واپس کیا جائے گا۔ اور جو مسلمانوں کی طرف سے ان کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئندہ سال مکہ میں داخل ہوں گے۔ اور وہاں تین روز قیام کریں گے، جب آپ اس (مکہ) میں داخل ہوئے اور مدت پوری ہو گئی اور آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چچا جان! چچا جان! کہہ کر آوازیں دینے لگی تو علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کر لیا اس کے ساتھ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ، اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کے درمیان حمزہ کی بیٹی کے بارے میں تنازع شروع ہو گیا: علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اسے پکڑا ہے اور وہ میرے چچا کی بیٹی ہے، جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے، اور زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے بھائی کی بیٹی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے متعلق اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا: ”خالہ ماں کی جگہ پر ہے۔ “ اور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں۔ “ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم خَلق و خُلق (سیرت و صورت) میں مجھ سے مشابہ ہو۔ “ اور زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم ہمارے بھائی اور ہمارے چہیتے ہو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4251) و مسلم (1783/90)»
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده عبد الله بن عمرو: ان امراة قالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وثديي له سقاء وحجري له حواء وإن اباه طلقني واراد ان ينزعه مني فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انت احق به ما لم تنكحي» . رواه احمد وابو داود وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لم تنكحي» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا یہ بیٹا (کہ دوران حمل) میرا پیٹ اس کے لیے ظرف تھا، (دورانِ رضاعت) میری چھاتی اس کے لیے مشکیزہ (دودھ پینے کی جگہ) تھی۔ اور میری گود اس کے لیے ٹھکانا تھی، اور (اب) اس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک تو (نئے خاوند سے) نکاح نہ کرے، اس وقت تک تم اس کی زیادہ حق دار ہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (182/2 ح 6707) و أبو داود (2276)»
وعن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خير غلاما بين ابيه وامه. رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيَّرَ غُلَامًا بَيْنَ أَبِيهِ وَأمه. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالغ لڑکے کو اس کے والد اور اس کی والدہ کے درمیان اختیار دیا۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1357 وقال: حسن صحيح)»