عن مالك قال: بلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامر باستبراء الإماء بحيضة إن كانت ممن تحيض وثلاثة اشهر إن كانت ممن تحيض وينهى عن سقي ماء الغير عَن مَالِكٍ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِاسْتِبْرَاءِ الْإِمَاءِ بِحَيْضَةٍ إِنْ كَانَتْ مِمَّنْ تَحِيضُ وَثَلَاثَةِ أَشْهُرٍ إِنْ كَانَت مِمَّن تحيض وَينْهى عَن سقِِي مَاء الْغَيْر
امام مالک ؒ بیان کرتے ہیں، مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لونڈیوں کو جنہیں حیض آتا تھا ایک حیض کے ذریعے اور جنہیں حیض نہیں آتا تھا تین ماہ کے ذریعے استبرائے رحم کا حکم فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی غیر کی کھیتی کو پانی دینے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ لم اجدہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «لم أجده، فائدة: کل حديث، قلت فيه: لم أجده، فھو ضعيف باطل مردود، إلا أن يثبت بسند آخر أو صرحت بخلافه.»
وعن ابن عمر: انه قال: إذا وهبت الوليدة التي توطا او بيعت او اعتقت فلتستبرئ رحمها بحيضة ولا تستبرئ العذراء. رواهما رزين وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ قَالَ: إِذَا وُهِبَتْ الْوَلِيدَةُ الَّتِي تُوطَأُ أَوْ بِيعَتْ أَوْ أُعْتِقَتْ فَلْتَسْتَبْرِئْ رَحِمَهَا بِحَيْضَةٍ وَلَا تُسْتَبْرَئُ الْعَذْرَاءُ. رَوَاهُمَا رزين
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ایسی لونڈی، جس سے جماع کیا جاتا ہو، ہبہ کی جائے یا بیع کی جائے یا آزاد کی جائے، تو وہ ایک حیض کے ذریعے اپنے رحم کے خالی ہونے کا یقین کر لے، اور کنواری سے استبرائے رحم کا نہیں کہا جائے گا۔ “ دونوں روایتیں رزین نے روایت کی ہیں۔ صحیح، رزین (لم اجدہ)
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رزين (لم أجده) ٭ وعلقه البخاري (قبل ح 2235، البيوع باب: 111) وانظر تغليق التعليق (272/3. 273) و تنقيح الرواة (51/2)»
--. عورت اپنے شوہر کے مال سے کس حد تک خرچ کر سکتی ہے؟
حدیث نمبر: 3342
اعراب
عن عائشة رضي الله عنها قالت: إن هندا بنت عتبة قالت: يا رسول الله إن ابا سفيان رجل شحيح وليس يعطيني ما يكفيني وولدي إلا ما اخذت منه وهو يعلم فقال: «خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف» عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: إِنَّ هندا بنت عتبَة قَالَت: يَا رَسُول الله إِن أَبَا سُفْيَان رجل شحيح وَلَيْسَ يعطيني مَا يَكْفِينِي وَوَلَدي إِلَّا مَا أخذت مِنْهُ وَهُوَ يعلم فَقَالَ: «خذي مَا يَكْفِيك وولدك بِالْمَعْرُوفِ»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ہند بن عتبہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اس قدر نہیں دیتا جو میرے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو، مگر میں اس سے اس طرح لے لیتی ہوں کہ اسے پتہ نہیں ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس قدر لے لیا کرو جو دستور کے مطابق تیرے اور تیری اولاد کے لیے کافی ہو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5364) و مسلم (1714/7)»
وعن جابر بن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا اعطى الله احدكم خيرا فليبدا بنفسه واهل بيته» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِذا أعْطى الله أحدكُم خيرا فليبدأ بِنَفسِهِ وَأهل بَيته» . رَوَاهُ مُسلم
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تم میں سے کسی کو مال عطا کرے تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے اپنی ذات اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1822/10)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «للمملوك طعامه وكسوته ولا يكلف من العمل إلا ما يطيق» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «للمملوك طَعَامه وَكسوته وَلَا يُكَلف من الْعَمَل إِلَّا مَا يُطيق» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مملوک کا کھانا اور لباس (دستور کے مطابق مالک پر واجب) ہے اور اس سے کام صرف اس کی طاقت کے مطابق ہی لیا جائے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1662/41)»
وعن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إخوانكم جعلهم الله تحت ايديكم فمن جعل الله اخاه تحت يديه فليطعمه مما ياكل وليلبسه مما يلبس ولا يكلفه من العمل ما يغلبه فإن كلفه ما يغلبه فليعنه عليه» وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ يَدَيْهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا يُكَلِّفْهُ مِنَ الْعَمَلِ مَا يَغْلِبُهُ فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ»
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(غلام) تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے زیر تصرف کر دیا ہے، اللہ جس کے بھائی کو اس کے زیر تصرف کر دے تو وہ اسے ویسا ہی کھلائے جیسا خود کھائے اور ویسا ہی پہنائے جیسا خود پہنے اور اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو، اور اگر وہ اس کے ذمے کوئی ایسا کام لگا دے جو اس کی طاقت سے بڑھ کر ہو تو پھر وہ اس میں اس کی اعانت کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6050) و مسلم (1661/38»
وعن عبد الله بن عمرو جاءه قهرمان له فقال له: اعطيت الرقيق قوتهم؟ قال: لا قال: فانطلق فاعطهم فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كفى بالرجل إثما ان يحبس عمن يملك قوته» . وفي رواية: «كفى بالمرء إثما ان يضيع من يقوت» . رواه مسلم وَعَن عبد الله بن عَمْرو جَاءَهُ قَهْرَمَانٌ لَهُ فَقَالَ لَهُ: أَعْطَيْتَ الرَّقِيقَ قُوتَهُمْ؟ قَالَ: لَا قَالَ: فَانْطَلِقْ فَأَعْطِهِمْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَفَى بِالرَّجُلِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ» . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ان کا منشی ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے فرمایا: کیا تم نے غلاموں کو ان کے کھانے کا سامان دے دیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے فرمایا: جاؤ اور انہیں (کھانے کا سامان) دو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بندے کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے مملوک کے کھانے کا سامان روک لے۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”آدمی کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک اس کے ذمے ہے وہ اس کی روزی ضائع کر دے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (م996/4)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا صنع لاحدكم خادمه طعامه ثم جاءه به وقد ولي حره ودخانه فليقعده معه فلياكل وإن كان الطعام مشفوها قليلا فليضع في يده منه اكلة او اكلتين» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا صَنَعَ لِأَحَدِكُمْ خَادِمُهُ طَعَامَهُ ثُمَّ جَاءَهُ بِهِ وَقَدْ وَلِيَ حره ودخانه فليقعده مَعَه فَليَأْكُل وَإِن كَانَ الطَّعَامُ مَشْفُوهًا قَلِيلًا فَلْيَضَعْ فِي يَدِهِ مِنْهُ أَكلَة أَو أكلتين» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارا خادم تمہارے لیے کھانا تیار کر کے لائے تو وہ (مالک) اسے اپنے ساتھ بٹھائے تاکہ وہ کھائے، کیونکہ اس نے آگ کی حرارت اور دھواں برداشت کیا ہے، اگر کھانا، کھانے والوں کے حساب سے کم ہو تو وہ اس میں ایک یا دو لقمے اس کے ہاتھ پر رکھ دے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1663/42)»
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن العبد إذا نصح لسيده واحسن عبادة الله فله اجره مرتين» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا نَصَحَ لِسَيِّدِهِ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ اللَّهِ فَلَهُ أَجْرُهُ مرَّتَيْنِ»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام اپنے آقا کے لیے مخلص و خیر خواہ ہو اور وہ اللہ کی عبادت بھی احسن انداز میں کرتا ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2546) و مسلم (1664/43)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعما للمملوك ان يتوفاه الله بحسن عبادة ربه وطاعة سيده نعما له» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نِعِمَّا لِلْمَمْلُوكِ أَنْ يَتَوَفَّاهُ اللَّهُ بِحُسْنِ عِبَادَةِ رَبِّهِ وَطَاعَة سَيّده نعما لَهُ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مملوک کے لیے کیا خوب ہے کہ اللہ اسے اس حال میں فوت کرے کہ وہ اپنے رب کی عبادت بھی اچھے انداز میں کرتا ہو اور اپنے آقا کی اطاعت بھی اچھے انداز میں کرتا ہو، کیا خوب ہے اس کے لیے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2549) و مسلم (1667/46)»