کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب النكاح
--. اسلام میں جاہلیت والا معاملہ نہیں
حدیث نمبر: 3320
اعراب
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: قام رجل فقال: يا رسول الله إن فلانا ابني عاهرت بامه في الجاهلية فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا دعوة في الإسلام ذهب امر الجاهلية الولد للفراش وللعاهر الحجر» . رواه ابو داود عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَلَانًا ابْنِي عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا دِعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! فلاں میرا بیٹا ہے، میں نے دور جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام میں (بچے کا) دعوی نہیں، جاہلیت کا معاملہ ختم ہو گیا، بچہ صاحبِ بستر کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر (رجم یا محرومی) ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه أبو داود (2274)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. جن عورتوں سے لعان نہیں ہو سکتا
حدیث نمبر: 3321
اعراب
وعنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: اربع من النساء لا ملاعنة بينهن: النصرانية تحت المسلم واليهودية تحت المسلم والحرة تحت المملوك والمملوكة تحت الحر. رواه ابن ماجه وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ مِنَ النِّسَاءِ لَا مُلَاعَنَةَ بَيْنَهُنَّ: النَّصْرَانِيَّةُ تَحْتَ الْمُسْلِمِ وَالْيَهُودِيَّةُ تَحْتَ الْمُسْلِمِ وَالْحُرَّةُ تَحْتَ الْمَمْلُوكِ وَالْمَمْلُوكَةُ تَحْتَ الْحُرِّ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار قسم کی عورتوں کے درمیان کوئی لعان نہیں، نصرانی عورت مسلمان کے نکاح میں ہو، یہودی عورت مسلمان کے نکاح میں ہو، آزاد عورت مملوک کے نکاح میں ہو، اور مملوک عورت آزاد کے نکاح میں ہو۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (2071)
٭ فيه عثمان بن عطاء الخراساني قال فيه الدارقطني: ’’ھو ضعيف الحديث جدًا‘‘ (163/3. 164) و له متابعة مردودة.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا
--. لعان میں پانچویں گواہی سے گریز
حدیث نمبر: 3322
اعراب
وعن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم امر رجلا حين امر المتلاعنين ان يتلاعنا ان يضع يده عند الخامسة على فيه وقال: «إنها موجبة» . رواه النسائي وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلًا حِينَ أَمَرَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَنْ يَتَلَاعَنَا أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ عَلَى فِيهِ وَقَالَ: «إِنَّهَا مُوجِبَةٌ» . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کو اس وقت حکم فرمایا، جب آپ نے دو لعان کرنے والوں کو لعان کرنے کا حکم دیا تھا کہ وہ (آدمی) پانچویں شہادت کے وقت اس (لعان کرنے والے) کے منہ پر ہاتھ رکھ دے، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیونکہ وہ (پانچویں گواہی) واجب کرنے والی ہے۔ صحیح، رواہ النسائی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه النسائي (175/6 ح 3502)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. عورتوں کی غیرت
حدیث نمبر: 3323
اعراب
وعن عائشة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من عندها ليلا قالت: فغرت عليه فجاء فراى ما اصنع فقال: «ما لك يا عائشة اغرت؟» فقلت: وما لي؟ لا يغار مثلي على مثلك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لقد جاءك شيطانك» قالت: يا رسول الله امعي شيطان؟ قال: «نعم» قلت: ومعك يا رسول الله؟ قال: «نعم ولكن اعانني عليه حتى اسلم» . رواه مسلم وَعَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا لَيْلًا قَالَتْ: فَغِرْتُ عَلَيْهِ فَجَاءَ فَرَأَى مَا أَصْنَعُ فَقَالَ: «مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ أَغِرْتِ؟» فَقُلْتُ: وَمَا لِي؟ لَا يَغَارُ مِثْلِي عَلَى مِثْلِكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ جَاءَكِ شَيْطَانُكِ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْعِي شَيْطَانٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَمَعَكَ يَا رَسُولَ الله؟ قَالَ: «نعم وَلَكِن أعانني علَيهِ حَتَّى أسلَمَ» . رَوَاهُ مُسلم
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک رات میرے پاس سے تشریف لے گئے آپ کے تشریف لے جانے پر میں جذباتی ہوئی، چنانچہ آپ تھوڑی دیر بعد تشریف لائے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری حالت دیکھی تو فرمایا: عائشہ! کیا ہوا، کیا تم جذباتی ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: مجھے کیا ہے کہ مجھ جیسی کو آپ جیسے کی عدم موجودگی جذباتی نہ کرے؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس تمہارا شیطان آیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں! میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری اعانت فرمائی حتی کہ میں اس سے محفوظ رہتا ہوں۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (2815/70)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. عدت کی مناسب جگہ گزاری جائے
حدیث نمبر: 3324
اعراب
عن ابي سلمة عن فاطمة بنت قيس: ان ابا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب فارسل إليها وكيله الشعير فسخطته فقال: والله ما لك علينا من شيء فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له فقال: «ليس لك نفقة» فامرها ان تعتد في بيت ام شريك ثم قال: «تلك امراة يغشاها اصحابي اعتدي عند ابن ام مكتوم فإنه رجل اعمى تضعين ثيابك فإذا حللت فآذنيني» . قالت: فلما حللت ذكرت له ان معاوية بن ابي سفيان وابا جهم خطباني فقال: «اما ابو الجهم فلا يضع عصاه عن عاتقه واما معاوية فصعلوك لا مال له انكحي اسامة بن زيد» فكرهته ثم قال: «انكحي اسامة» فنكحته فجعل الله فيه خيرا واغتبطت وفي رواية عنها: «فاما ابو جهم فرجل ضراب للنساء» . رواه مسلم وفي رواية: ان زوجها طلقها ثلاثا فاتت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «لا نفقة لك إلا ان تكوني حاملا» عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيْلُهُ الشَّعِيرَ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ» فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ: «تِلْكِ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي» . قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي فَقَالَ: «أَمَّا أَبُو الْجَهْمِ فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ» فَكَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ: «انْكِحِي أُسَامَةَ» فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهَا: «فَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا نَفَقَةَ لَكِ إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَامِلا»
ابوسلمہ، فاطمہ بنت قیس سے روایت کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص نے انہیں آخری طلاق اس وقت دی جب وہ مدینہ منورہ سے باہر تھے، چنانچہ ابوعمرو بن حفص کے وکیل نے وہ جو فاطمہ کے سپرد کر دیے جو ابوعمرو نے ان کے لیے بھیجے تھے وہ اس سے ناراض ہو گئیں، اس پر (اس کے وکیل) نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے کوئی نفقہ نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر عدت گزارنے کا حکم فرمایا، پھر فرمایا: وہ ایسی خاتون ہیں، کہ میرے صحابہ اس کے پاس آتے جاتے ہیں، لہذا تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں عدت گزارو، کیونکہ وہ نابینا شخص ہے، تم اپنے معمول کے کپڑے پہن کر رہ سکتی ہو، جب تم عدت گزار لو تو مجھے مطلع کرنا۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ کہتی ہیں: جب میں نے عدت گزار لی تو میں نے آپ کو بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور ابوجہم رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام نکاح بھیجا ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوجہم وہ تو اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے نہیں اتارتا (سخت مزاج ہے)، اور رہا معاویہ وہ تو فقیر آدمی ہے، اس کے پاس کوئی مال نہیں، تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔ میں نے اسے ناپسند کیا، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسامہ سے نکاح کر لو۔ میں نے اس سے نکاح کر لیا اللہ نے اس میں خیر فرما دی، اور میں قابل رشک بن گئی۔ اور انہی سے ایک روایت میں ہے: ابوجہم! وہ تو عورتوں کو بہت مارنے والا ہے۔ رواہ مسلم۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے خاوند نے جب اسے تین طلاقیں دے دیں تو وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئیں، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں فرمایا: تمہارے لیے صرف حاملہ ہونے کی صورت میں نفقہ ہے، ویسے کوئی نفقہ نہیں۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1480/36)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. خطرناک جگہ کی وجہ سے مکان بدلنے کا حکم دیا
حدیث نمبر: 3325
اعراب
وعن عائشة قالت: إن فاطمة كانت في مكان وحش فخيف على ناحيتها فلذلك رخص لها النبي صلى الله عليه وسلم تعني النقلة وفي رواية: قالت: ما لفاطمة؟ الا تتقي الله؟ تعني في قولها: لا سكنى ولا نفقة. رواه البخاري وَعَن عائشةَ قَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحِشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا فَلِذَلِكَ رَخَّصَ لَهَا النَّبِيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم تَعْنِي النُّقْلَةِ وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَتْ: مَا لِفَاطِمَةَ؟ أَلَا تَتَّقِي اللَّهَ؟ تَعْنِي فِي قَوْلِهَا: لَا سُكْنَى وَلَا نَفَقَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ ایک بے آباد گھر میں تھیں، ان کے متعلق اندیشہ محسوس کیا گیا اسی لیے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں رخصت عنایت فرمائی، یعنی عائشہ رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ اس لیے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں (اپنے گھر سے) منتقل ہونے کی اجازت دی۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کیا ہو گیا وہ اللہ سے کیوں نہیں ڈرتی، جب وہ یہ کہتی ہے کہ مطلقہ ثلاثہ کے لیے، سکونت ہے اور نہ خرچہ۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (5325)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. زبان درازی کی وجہ سے عدت دوسری جگہ کی جا سکتی ہے
حدیث نمبر: 3326
اعراب
وعن سعيد بن المسيب قال: إنما نقلت فاطمة لطول لسانها على احمائها. رواه في شرح السنة وَعَن سعيدِ بنِ المسيِّبِ قَالَ: إِنَّمَا نُقِلَتْ فَاطِمَةُ لِطُولِ لِسَانِهَا عَلَى أحمائِها. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
سعید بن مسیّب بیان کرتے ہیں، فاطمہ (بنت قیس رضی اللہ عنہ) کو محض اس لیے منتقل کیا گیا کہ وہ اپنے (خاوند کے) اقارب پر زبان درازی کرتی تھیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (294/9 بعد ح 2384 بلا سند) [و أبو داود (2296 و سنده ضعيف) و الشافعي في الأم (474/7)]
٭ سعيد بن المسيب لم يذکر من حدثه بھذا فقوله ھاھنا مردود.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. دوران عدت بوقت ضرورت عورت باہر جا سکتی ہے
حدیث نمبر: 3327
اعراب
وعن جابر قال: طلقت خالتي ثلاثا فارادت ان تجد نخلها فزجرها رجل ان تخرج فاتت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «بلى فجدي نخلك فإنه عسى ان تصدقي او تفعلي معروفا» . رواه مسلم وَعَن جابرٍ قَالَ: طُلِّقَتْ خَالَتِي ثَلَاثًا فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ فَإِنَّهُ عَسَى أَنْ تَصَّدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفا» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئیں، انہوں نے اپنی کھجوریں توڑنے کا ارادہ کیا تو ایک آدمی نے انہیں گھر سے نکلنے سے منع کیا تو وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور واقعہ بیان کیا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، تم اپنی کھجوریں توڑو، کیونکہ امید ہے کہ تم صدقہ کرو گی یا کوئی بھلائی و نیکی کا کام کرو گی۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1483/55)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. حاملہ کی عدت وضع حمل
حدیث نمبر: 3328
اعراب
وعن المسور بن مخرمة: ان سبيعة الاسلمية نفست بعد وفاة زوجها بليال فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم فاستاذنته ان تنكح فاذن لها فنكحت. رواه البخاري وَعَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ: أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَتْهُ أَنْ تَنْكِحَ فأذِنَ لَهَا فنكحت. رَوَاهُ البُخَارِيّ
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کی وفات کے چند دن بعد بچے کو جنم دیا، پھر وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کریں، آپ نے انہیں اجازت عطا فرما دی اور انہوں نے نکاح کر لیا۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (4909)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. دوران عدت کسی طرح کی بھی زیب و زینت جائز نہیں
حدیث نمبر: 3329
اعراب
وعن ام سلمة قالت: جاءت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن ابنتي توفي عنها زوجها وقد اشتكت عينها افنكحلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا» مرتين او ثلاثا كل ذلك يقول: «لا» قال: «إنما هي اربعة اشهر وعشر وقد كانت إحداهن في الجاهلية ترمي بالبعرة على راس الحول» وَعَن أُمِّ سلمةَ قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنُهَا أَفَنَكْحُلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا» مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: «لَا» قَالَ: «إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وعشرٌ وَقد كَانَت إِحْدَاهُنَّ فِي الجاهليَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ»
ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ایک عورت نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا خاوند فوت ہو گیا ہے، اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے، کیا میں اس کی آنکھ میں سرمہ لگا دوں؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ دو بار یا تین بار، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر بار یہی فرماتے: نہیں۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (عدت) چار ماہ دس دن ہے، جبکہ دور جاہلیت میں تم میں سے ہر کوئی سال کے اختتام پر اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی۔ (ایک سال بعد عدت ختم ہوتی تھی) متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (5336) و مسلم (1488)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    21    22    23    24    25    26    27    28    29    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.