وعن عائشة قالت: إن فاطمة كانت في مكان وحش فخيف على ناحيتها فلذلك رخص لها النبي صلى الله عليه وسلم تعني النقلة وفي رواية: قالت: ما لفاطمة؟ الا تتقي الله؟ تعني في قولها: لا سكنى ولا نفقة. رواه البخاري وَعَن عائشةَ قَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحِشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا فَلِذَلِكَ رَخَّصَ لَهَا النَّبِيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم تَعْنِي النُّقْلَةِ وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَتْ: مَا لِفَاطِمَةَ؟ أَلَا تَتَّقِي اللَّهَ؟ تَعْنِي فِي قَوْلِهَا: لَا سُكْنَى وَلَا نَفَقَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ ایک بے آباد گھر میں تھیں، ان کے متعلق اندیشہ محسوس کیا گیا اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں رخصت عنایت فرمائی، یعنی عائشہ رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں (اپنے گھر سے) منتقل ہونے کی اجازت دی۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کیا ہو گیا وہ اللہ سے کیوں نہیں ڈرتی، جب وہ یہ کہتی ہے کہ مطلقہ ثلاثہ کے لیے، سکونت ہے اور نہ خرچہ۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5325)»