وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله تعالى يغار وإن المؤمن يغار وغيرة الله ان لا ياتي المؤمن ما حرم الله» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «إِن اللَّهَ تَعَالَى يَغَارُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ وَغَيْرَةُ اللَّهِ أَنْ لَا يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ الله»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ غیرت مند ہے اور بے شک مومن بھی غیرت مند ہے، اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ مومن اللہ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب نہ کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5223) و مسلم (2761/36)»
وعنه ان اعرابيا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن امراتي ولدت غلاما اسود وإني نكرته فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل لك من إبل؟» قال: نعم قال: «فما الوانها؟» قال: حمر قال: «هل فيها من اورق؟» قال: إن فيها لورقا قال: «فانى ترى ذلك جاءها؟» قال: عرق نزعها. قال: «فلعل هذا عرق نزعه» ولم يرخص له في الانتفاء منه وَعَنْهُ أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إنَّ امْرَأَتي ولدَتْ غُلَاما أسودَ وَإِنِّي نكرته فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَمَا أَلْوَانُهَا؟» قَالَ: حُمْرٌ قَالَ: «هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟» قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا قَالَ: «فَأَنَّى تُرَى ذَلِكَ جَاءَهَا؟» قَالَ: عِرْقٌ نَزَعَهَا. قَالَ: «فَلَعَلَّ هَذَا عِرْقٌ نَزَعَهُ» وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الِانْتِفَاءِ مِنْهُ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: میری بیوی نے ایک سیاہ بچے کو جنم دیا ہے، میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں؟“ اس نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے رنگ کیسے ہیں؟“ اس نے عرض کیا: سرخ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اِن میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟“ اس نے عرض کیا: ان میں خاکی رنگ کا بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے خیال میں یہ کہاں سے آ گیا؟“ اس نے عرض کیا: (پرانی) رگ اسے لے آئی ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ممکن ہے یہ بھی رگ ہو جو اسے لے آئی ہو۔ “ اور آپ نے اسے اس بچے سے انکار کی اجازت نہیں دی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (7314) و مسلم (1500)»
وعن عائشة قالت: كان عتبة بن ابي وقاص عهد إلى اخيه سعد بن ابي وقاص: ان ابن وليدة زمعة مني فاقبضه إليك فلما كان عام الفتح اخذه سعد فقال: إنه ابن اخي وقال عبد بن زمعة: اخي فتساوقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال سعد: يا رسول الله إن اخي كان عهد إلي فيه وقال عبد بن زمعة: اخي وابن وليدة ابي ولد على فراشه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش وللعاهر الحجر» ثم قال لسودة بنت زمعة: «احتجبي منه» لما راى من شبهه بعتبة فما رآها حتى لقي الله وفي رواية: قال: «هو اخوك يا عبد بن زمعة من اجل انه ولد على فراش ابيه» وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ: أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي فَاقْبِضْهُ إِلَيْكَ فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ أَخَذَهُ سَعْدٌ فَقَالَ: إِنَّهُ ابْنُ أَخِي وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي فَتَسَاوَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَخِي كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وَابْن وليدة أبي وُلِدَ على فرَاشه فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ: «احْتَجِبِي مِنْهُ» لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: «هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمَعَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِيهِ»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے۔ تم اسے اپنے قبضے میں لے لینا۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا سال ہوا تو سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے۔ اور عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے، وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے بھائی نے اس (بچے) کے بارے میں مجھے وصیت کی تھی، اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا، یہ میرا بھائی ہے اور میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عبد بن زمعہ بچہ تمہیں ملے گا کیونکہ بچہ اسی کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو، جبکہ زانی کے لیے پتھر (یعنی رجم) ہے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اس سے پردہ کیا کرو۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تب فرمایا جب آپ نے اس لڑکے کی عتبہ سے مشابہت دیکھی۔ اس کے بعد اس نے سودہ رضی اللہ عنہ کو تا دم زیست نہیں دیکھا۔ اور ایک روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عبد بن زمعہ! وہ تمہارا بھائی ہے، اس لیے کہ وہ اس کے والد کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2745، 4303) و مسلم (1457/36)»
--. حضرت اسامہ اور زید رضی اللہ عنہما کے بارے میں قیافہ شناس کی رائے
حدیث نمبر: 3313
اعراب
وعنها قالت: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وهو مسرور فقال: اي عائشة الم تري ان مجززا المدلجي دخل فلما راى اسامة وزيدا وعليهما قطيفة قد غطيا رؤوسهما وبدت اقدامهما فقال: إن هذه الاقدام بعضها من بعض وَعَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ مَسْرُورٌ فَقَالَ: أَيْ عَائِشَةُ أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ دَخَلَ فَلَمَّا رَأَى أُسَامَةَ وَزَيْدًا وَعَلَيْهِمَا قطيفةٌ قد غطيَّا رؤوسَهُما وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا من بعضٍ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے خوش خوش میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”عائشہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ مجز زمدلجی آیا ہوا ہے جب اس نے اسامہ اور زید رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا کہ ان دونوں پر ایک چادر تھی اور انہوں نے اپنے سروں کو اس سے ڈھانپ رکھا تھا اور ان کے پاؤں ننگے تھے، اس نے کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6771) و مسلم (1459/38)»
--. اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا کبیرہ گناہ
حدیث نمبر: 3314
اعراب
وعن سعد بن ابي وقاص وابي بكرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ادعى إلى غير ابيه وهو يعلم انه غير ابيه فالجنة عليه حرام» وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَأَبِي بَكْرَةَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حرَام»
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جانتے بوجھتے اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6766) و مسلم (115/ 63)»
--. اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی اور کو باپ کہنا کفران نعمت ہے
حدیث نمبر: 3315
اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ترغبوا عن آبائكم فمن رغب عن ابيه فقد كفر» وذكر حديث عائشة «ما من احد اغير من الله» في «باب صلاة الخسوف» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فقد كفر» وَذُكِرَ حَدِيثُ عَائِشَةَ «مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ من الله» فِي «بَاب صَلَاة الخسوف»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اباء سے بے رغبتی و اعراض نہ کرو، کیونکہ جس شخص نے اپنے باپ سے اعراض کیا (اور اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب کیا) اس نے کفر کیا۔ “ متفق علیہ۔ وَقَدْ ذُکِرَ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہ ((مَا مِنْ اَحَدِِ اَغْیَرُ مِنَ اللہِ)) فِیْ بَابِ صَلْوۃِ الْخُسُوْفِ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ”اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں۔ “ صلاۃ الخسوف کے باب میں ذکر کی گئی ہے
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6768) و مسلم (113/ 62) حديث عائشة: ما من أحد أغير من الله، تقدم (1483)»
--. اپنی اولاد کا انکار کرنے والوں کا رسوا کن انجام
حدیث نمبر: 3316
اعراب
عن ابي هريرة انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول لما نزلت آية الملاعنة: «ايما امراة ادخلت على قوم من ليس منهم فليست من الله في شيء ولن يدخلها الله جنته وايما رجل جحد ولده وهو ينظر إليه احتجب الله منه وفضحه على رؤوس الخلائق في الاولين والآخرين» . رواه ابو داود والنسائي والدارمي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ الْمُلَاعَنَةِ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وفضَحَهُ على رؤوسِ الْخَلَائِقِ فِي الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ والدارمي
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لعان کے متعلق آیت نازل ہوئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو عورت بچے کو ایسی قوم میں داخل کر دے جس سے ان کا ناطہ نہیں اللہ کے نزدیک اس عورت کی کوئی عزت نہیں اور وہ اسے جنت میں داخل نہیں فرمائے گا، اور جو شخص اپنے بچے کا انکار کر دے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہ بچہ اسی کا ہے، اللہ اس سے حجاب فرما لے گا اور اس کو تمام اول و آخر پوری مخلوق کے سامنے رسوا کر دے گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و النسائی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2263) و النسائي (179/6 ح 3511) و الدارمي (153/2 ح 2244)»
وعن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي امراة لا ترد يد لامس فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «طلقها» قال: إني احبها قال: «فامسكها إذا» . رواه ابو داود والنسائي وقال النسائي: رفعه احد الرواة إلى ابن عباس واحدهم لم يرفعه قال: وهذا الحديث ليس بثابت وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِن لِي امْرَأَةً لَا تَرُدُّ يَدَ لَامِسٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَلِّقْهَا» قَالَ: إِنِّي أُحِبُّها قَالَ: «فأمسِكْهَا إِذا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَقَالَ النَّسَائِيُّ: رَفَعَهُ أَحَدُ الرُّوَاةِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَحَدُهُمْ لَمْ يرفعهُ قَالَ: وَهَذَا الحَدِيث لَيْسَ بِثَابِت
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: میری بیوی ہے جو کسی چھونے والے کا ہاتھ نہیں روکتی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو۔ “ اس نے عرض کیا: میں اس سے محبت کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اسے اپنے نکاح میں رکھ۔ “ اور امام نسائی ؒ نے فرمایا: کسی راوی نے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوع نقل کیا ہے اور کسی نے مرفوعاً ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ امام نسائی کہتے ہیں یہ حدیث ثابت نہیں۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2049) والنسائي (169/6. 170 ح 3494. 3495) ٭ سند المرفوع صحيح و أعل بما لا يقدح.»
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى ان كل مستحلق استحلق بعد ابيه الذي يدعى له ادعاه ورثته فقضى ان كل من كان من امة يملكها يوم اصابها فقد لحق بمن استحلقه وليس له مما قسم قبله من الميراث شيء وما ادرك من ميراث لم يقسم فله نصيبه ولا يلحق إذا كان ابوه الذي يدعى له انكره فإن كان من امة لم يملكها او من حرة عاهر بها فإنه لا يلحق به ولا يرث وإن كان الذي يدعى له هو الذي ادعاه فهو ولد زنية من حرة كان او امة. رواه ابو داود وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قضى أَن كل مستحلق استحلق بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ فَقَضَى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يملكهَا يَوْم أَصَابَهَا فقد لحق بِمن استحلقه وَلَيْسَ لَهُ مِمَّا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ فَإِنْ كَانَ مِنْ أمَةٍ لم يَملِكْها أَو من حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ بِهِ وَلَا يَرِثُ وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ الَّذِي ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنْيَةٍ مِنْ حُرَّةٍ كَانَ أَوْ أَمَةٍ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بچے کی بابت فیصلہ صادر فرمایا جسے اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں میں شامل کیا گیا ہو۔ اگر وہ بچہ ایسی لونڈی کا ہے کہ مرنے والے شخص نے اس لونڈی سے اس وقت ہمبستری کی تھی جب وہ اس لونڈی کا مالک تھا تو وہ بچہ اس کے ورثا میں شامل ہے اس کے پیدا ہونے سے پہلے جو وراثت تقسیم ہو چکی اس سے وہ محروم رہے گا البتہ پیدا ہونے کے وقت جو ترکہ موجود تھا اس میں سے اسے حصہ ملے گا (جس بچے کو شامل کیا جا رہا ہے) اگر اس کے والد نے مرنے سے قبل اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا تو پھر اس بچے کو ورثا میں شامل نہیں کیا جائے گا، اگر وہ بچہ ایسی لونڈی سے ہے جس کا وہ متوفی مالک نہیں تھا یا وہ ایسی آزاد عورت سے جو اس کے نکاح میں نہ تھی تو اس بچے کو متوفی کے نسب میں شامل نہیں کیا جائے گا لہذا وہ بچہ متوفی کا وارث نہیں بنے گا، اگرچہ اس بچے کو خود متوفی نے اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قرار دیا ہو کیونکہ وہ زنا کی پیداوار ہے خواہ لونڈی سے ہو یا آزاد عورت سے ہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2265)»
وعن جابر بن عتيك ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: «من الغيرة ما يحب الله ومنها ما يبغض الله فاما التي يحبها الله فالغيرة في الريبة واما التي يبغضها الله فالغيرة في غير ريبة وإن من الخيلاء ما يبغض الله ومنها ما يحب الله فاما الخيلاء التي يحب الله فاختيال الرجل عند القتال واختياله عند الصدقة واما التي يبغض الله فاختياله في الفخر» وفي رواية: «في البغي» . رواه احمد وابو داود والنسائي وَعَن جابرِ بنِ عتيكٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ فَأَمَّا الَّتِي يُحِبُّهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ وَأَمَّا الَّتِي يُبْغِضُهَا اللَّهُ فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ وَإِنَّ مِنَ الْخُيَلَاءِ مَا يُبْغِضُ اللَّهُ وَمِنْهَا مَا يُحِبُّ اللَّهُ فَأَمَّا الْخُيَلَاءُ الَّتِي يُحِبُّ اللَّهُ فَاخْتِيَالُ الرَّجُلِ عِنْدَ الْقِتَالِ وَاخْتِيَالُهُ عِنْدَ الصَّدَقَةِ وَأَمَّا الَّتِي يُبْغِضُ اللَّهُ فَاخْتِيَالُهُ فِي الْفَخْرِ» وَفِي رِوَايَةٍ: «فِي الْبَغْيِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ
جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”غیرت کی ایک قسم ایسی ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے اور ایک قسم ایسی ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا، رہی وہ جسے اللہ پسند فرماتا ہے، وہ ہے جو مقام شک میں ہو، اور رہی وہ جسے اللہ ناپسند فرماتا ہے وہ غیرت ہے جو غیر شک (گمان) میں ہو۔ اور فخر کی ایک ایسی قسم ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے، اور ایک ایسی قسم ہے جسے اللہ پسند فرماتا ہے رہا وہ فخر جسے اللہ پسند فرماتا ہے وہ آدمی کا قتال (جہاد) اور صدقہ کے وقت فخر کرنا ہے، اور رہا وہ جسے اللہ ناپسند فرماتا ہے تو وہ نسب میں فخر کرنا ہے۔ “ اور دوسری روایت میں ہے: ”ظلم میں فخر کرنا۔ “ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (445/5، 446 ح 24148، 24149، 24153) و أبو داود (2659) والنسائي (5/ 78. 79 ح 2559)»