--. چیزیں دینے کے معاملے میں اولاد میں فرق کرنا ٹھیک نہیں
حدیث نمبر: 3019
اعراب
وعن النعمان بن بشير ان اباه اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «اكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فارجعه» . وفي رواية: انه قال: «ايسرك ان يكونوا إليك في البر سواء؟» قال: بلى قال: «فلا إذن» . وفي رواية: انه قال: اعطاني ابي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا ارضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني اعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فامرتني ان اشهدك يا رسول الله قال: «اعطيت سائر ولدك مثل هذا؟» قال: لا قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين اولادكم» . قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: انه قال: «لا اشهد على جور» وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَأَرْجِعْهُ» . وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «أَيَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا إِلَيْكَ فِي الْبِرِّ سَوَاءً؟» قَالَ: بَلَى قَالَ: «فَلَا إِذن» . وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لَا أَرْضَى حَتَّى تشهد رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلِدِكَ مِثْلَ هَذَا؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ» . قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ. وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «لَا أشهد على جور»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا، میں نے اپنے بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو (برابر) اس طرح کا ہبہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے واپس لے لو۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پسند کرتے ہو کہ وہ سارے تیرے ساتھ مساوی حسن سلوک کریں؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر تم ایسے کیوں نہیں کرتے؟“ ایک روایت میں ہے، انہوں نے کہا: میرے والد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ (میری والدہ) نے کہا: میں راضی نہیں حتی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنا لو۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو عرض کیا: میں نے عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ سے اپنے بیٹے کو ایک عطیہ دیا ہے اور اللہ کے رسول! اس نے کہا ہے کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، وہ واپس آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2586) و مسلم (1623/13)»
عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يرجع احد في هبته إلا الوالد من ولده» . رواه النسائي وابن ماجه عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَرْجِعُ أَحَدٌ فِي هِبَتِهِ إِلَّا الْوَالِدُ مِنْ وَلَده» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ وَابْن مَاجَه
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ہبہ کر کے واپس نہیں لے سکتا، البتہ والدین اپنی اولاد کو کوئی چیز ہبہ کر کے واپس لے سکتے ہیں۔ “ صحیح، رواہ النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه النسائي (264/6 ح 3719) و ابن ماجه (2378)»
--. کسی کو کوئی چیز دیکر واپس لینے والے کی ایک بری مثال
حدیث نمبر: 3021
اعراب
وعن ابن عمر وابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل للرجل ان يعطي عطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده ومثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب اكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد في قيئه» . رواه ابو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وصححه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً ثُمَّ يَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَصَححهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ عطیہ دے کر واپس لے، مگر والد جو اپنی اولاد کو عطیہ دیتا ہے، اور اس شخص کی مثال جو عطیہ دے کر واپس لے کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہتا ہے، حتی کہ شکم سیر ہو جاتا ہے تو قے کر دیتا ہے، پھر اسے کھانے لگتا ہے۔ “ ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ۔ اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (3539) و الترمذي (2132) والنسائي (265/6 ح 3720) و ابن ماجه (2277)»
وعن ابي هريرة: ان اعرابيا اهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم بكرة فعوضه منها ست بكرات فتسخط فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله واثنى عليه ثم قال: «إن فلانا اهدى إلي ناقة فعوضته منها ست بكرات فظل ساخطا لقد هممت ان لا اقبل هدية إلا من قرشي او انصاري او ثقفي او دوسي» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ أَعْرَابِيًّا أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكْرَةً فَعَوَّضَهُ مِنْهَا سِتَّ بَكَرَاتٍ فَتَسَخَّطَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ فَلَانًا أَهْدَى إِلَيَّ نَاقَةً فَعَوَّضْتُهُ مِنْهَا سِتَّ بَكَرَاتٍ فَظَلَّ سَاخِطًا لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أَقْبَلَ هَدِيَّةً إِلَّا مِنْ قُرَشِيٍّ أَوْ أَنْصَارِيٍّ أَوْ ثَقَفِيٍّ أَوْ دوسي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے ایک نو عمر اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کیا تو آپ نے اس کے عوض اسے چھ نو عمر اونٹنیاں دیں، لیکن وہ راضی نہ ہوا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”فلاں شخص نے مجھے ایک اونٹ بطور ہدیہ پیش کیا تو میں نے اس کے عوض اسے چھ اونٹنیاں دیں لیکن وہ پھر بھی راضی نہیں ہوا۔ اب میں نے عزم کر لیا ہے کہ میں صرف کسی قریشی، انصاری، ثقفی یا دوسی شخص کا ہدیہ ہی قبول کروں گا۔ “ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3945 وقال: حسن صحيح، وسنده حسن و للفظ له) و أبو داود (3537) والنسائي (280/6 ح 3790)»
--. کوئی تحفہ دے تو اس کے بدلے میں کم سے کم اس کی تعریف ہی کی جائے
حدیث نمبر: 3023
اعراب
وعن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من اعطي عطاء فوجد فليجز به ومن لم يجد فليثن فإن من اثنى فقد شكر ومن كتم فقد كفر ومن تحلى بما لم يعط كان كلابس ثوبي زور» . رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ جَابِرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيُجْزِ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ فَإِنَّ مَنْ أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَ وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَ كَانَ كَلَابِسِ ثوبي زور» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو کوئی عطیہ دیا جائے اور وہ کشائش پائے تو اس کا بدلہ دے اور جو شخص کشائش نہ پائے تو وہ اس کی تعریف کرے، کیونکہ جس نے تعریف کی تو اس نے شکریہ ادا کیا، اور جس نے (احسان کو) چھپایا تو اس نے ناشکری کی، اور جو شخص ایسی چیز ظاہر کرنے کی کوشش کرے جو اسے نہیں دی گئی تو وہ جھوٹ کے دو سوٹ پہننے والے کی طرح ہے (دہرا جھوٹ بولنے والے کی طرح ہے)۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2034 بلون آخر و قال: حسن غريب، و سنده ضعيف) و أبو داود (4813 وسنده ضعيف) ٭ فيه شرحبيل بن سعد الأنصاري، شيخ عمارة: ’’وثقه ابن حبان و ضعفه جمھور الأئمة‘‘ (مجمع الزوائد 115/4)»
وعن اسامة بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صنع إليه معروف فقال لفاعله: جزاك الله خيرا فقد ابلغ في الثناء. رواه الترمذي وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے سے کہا: ((جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا))”اللہ تمہیں بہتر بدلہ دے“ تو اس نے اس کی بہت اچھی تعریف کی۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2035) ٭ سليمان التيمي مدلس و عنعن و لبعض الحديث شواھد.»
--. جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں
حدیث نمبر: 3025
اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لم يشكر الناس لم يشكر الله» . رواه احمد والترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا، اس نے اللہ کا بھی شکریہ ادا نہ کیا۔ “ صحیح، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (32/3 ح 11300) والترمذي (1955 وقال: حسن)»
وعن انس قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة اتاه المهاجرون فقالوا: يا رسول الله ما راينا قوما ابذل من كثير ولا احسن مواساة من قليل من قوم نزلنا بين اظهرهم: لقد كفونا المؤونة واشركونا في المهنا حتى لقد خفنا ان يذهبوا بالاجر كله فقال: «لا ما دعوتم الله لهم واثنيتم عليهم» . رواه الترمذي وصححه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ: لَقَدْ كَفَوْنَا المؤونة وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَأِ حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ فَقَالَ: «لَا مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مہاجر صحابہ کرام آپ کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول!ہم جس قوم کے ہاں قیام پذیر ہیں وہ مال کثیر ہونے کی صورت میں بہت زیادہ خرچ کرنے والے اور مال قلیل ہونے کی صورت میں بہترین غم خوار ہونے میں اپنی مثال نہیں رکھتے، انہوں نے ہمیں کام کرنے سے روک رکھا ہے اور منفعت میں برابر شریک کر رکھا ہے۔ حتی کہ ہمیں تو اندیشہ ہے کہ سارا اجر وہی لے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک تم ان کے لیے اللہ سے دعائیں کرتے رہو گے اور ان کی تعریف کرتے رہو گے تو ایسے نہیں ہو گا۔ “ ترمذی، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2487)»
وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «تهادوا فإن الهدية تذهب الضغائن» . رواه وَعَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تَهَادُوا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ الضَّغَائِنَ» . رَوَاهُ
عائشہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”باہم تحائف دیا کرو، کیونکہ تحفہ عداوت دور کر دیتا ہے۔ “ اسنادہ موضوع۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده موضوع، [رواه القضاعي في مسند الشھاب (383/1 ح 660) و فيه أبو يوسف يعقوب بن محمد بن عبيد الکوفي الأعشي: کذاب رجل سوء، و في السند علل أخري.]»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «تهادوا فإن الهدية تذهب وحر الصدر ولا تحقرن جارة لجارتها ولا شق فرسن شاة» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تهادوا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لجارتها وَلَا شقّ فرسن شَاة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”باہم تحائف دیا کرو، کیونکہ تحفہ سینے کا کینہ دور کر دیتا ہے، اور پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کو معمولی نہ سمجھے خواہ بکری کے کھر کا ایک حصہ ہی ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2130 وقال: غريب) ٭ فيه أبو معشر نجيح السندي: ضعيف.»