مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر

مشكوة المصابيح
كتاب البيوع
--. چیزیں دینے کے معاملے میں اولاد میں فرق کرنا ٹھیک نہیں
حدیث نمبر: 3019
Save to word اعراب
وعن النعمان بن بشير ان اباه اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «اكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فارجعه» . وفي رواية: انه قال: «ايسرك ان يكونوا إليك في البر سواء؟» قال: بلى قال: «فلا إذن» . وفي رواية: انه قال: اعطاني ابي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا ارضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني اعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فامرتني ان اشهدك يا رسول الله قال: «اعطيت سائر ولدك مثل هذا؟» قال: لا قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين اولادكم» . قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: انه قال: «لا اشهد على جور» وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَأَرْجِعْهُ» . وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «أَيَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا إِلَيْكَ فِي الْبِرِّ سَوَاءً؟» قَالَ: بَلَى قَالَ: «فَلَا إِذن» . وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لَا أَرْضَى حَتَّى تشهد رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلِدِكَ مِثْلَ هَذَا؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ» . قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ. وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «لَا أشهد على جور»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا، میں نے اپنے بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو (برابر) اس طرح کا ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے واپس لے لو۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ وہ سارے تیرے ساتھ مساوی حسن سلوک کریں؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم ایسے کیوں نہیں کرتے؟ ایک روایت میں ہے، انہوں نے کہا: میرے والد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ (میری والدہ) نے کہا: میں راضی نہیں حتی کہ تم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گواہ بنا لو۔ وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تو عرض کیا: میں نے عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ سے اپنے بیٹے کو ایک عطیہ دیا ہے اور اللہ کے رسول! اس نے کہا ہے کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں، وہ واپس آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2586) و مسلم (1623/13)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.