--. مزدوری کے سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر
حدیث نمبر: 2989
اعراب
عن عتبة بن المنذر قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرا: (طسم) حتى بلغ قصة موسى قال: «إن موسى عليه السلام آجر نفسه ثمان سنين او عشرا على عفة فرجه وطعام بطنه» . رواه احمد وابن ماجه عَنْ عُتْبَةَ بْنِ الْمُنْذِرِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ: (طسم) حَتَّى بَلَّغَ قِصَّةَ مُوسَى قَالَ: «إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ آجَرَ نَفْسَهُ ثَمَانِ سِنِينَ أَوْ عَشْرًا عَلَى عِفَّةِ فَرْجِهِ وَطَعَامِ بَطْنِهِ» . رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه
عتبہ بن منذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے ”سورہ طٰسٓمٓ“ تلاوت فرمائی حتی کہ آپ موسی ؑ کے قصہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”موسی ؑ نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت اور شکم سیری کی خاطر اپنے آپ کو آٹھ یا دس سال مزدوری پر لگائے رکھا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ احمد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه أحمد (لم أجده) و ابن ماجه (2444) ٭ فيه مسلمة بن علي: متروک و الحديث ضعفه البوصيري.»
وعن عبادة بن الصامت قال: قلت: يا رسول الله رجل اهدى إلي قوسا ممن كنت اعلمه الكتاب والقرآن وليست بمال فارمي عليها في سبيل الله قال: «إن كنت تحب ان تطوق طوقا من نار فاقبلها» . رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ وَلَيْسَتْ بِمَالٍ فَأَرْمِي عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ: «إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ایک آدمی نے ایک کمان مجھے بطور ہدیہ دی ہے اور یہ اس لیے ہے کہ میں اسے کتاب اور قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا، اور وہ کوئی مال نہیں، میں اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو پسند کرتا ہے کہ تجھے آگ کا طوق ڈال دیا جائے تو پھر اسے قبول کر لے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (3416) و ابن ماجه (2157)»
--. غیر آباد اور بنجر زمین کو آباد کرنے والا ہی اس کا مالک
حدیث نمبر: 2991
اعراب
عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من عمر ارضا ليست لاحد فهو احق» . قال عروة: قضى به عمر في خلافته. رواه البخاري عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ عَمَرَ أَرْضًا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ فَهُوَ أَحَقُّ» . قَالَ عُرْوَةُ: قَضَى بِهِ عُمَرُ فِي خِلَافَتِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
عائشہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی بنجر (بے آباد) زمین کو، جو کہ کسی کی ملکیت نہ ہو، آباد کرے تو وہ (اس کا) زیادہ حق دار ہے۔ “ عروہ بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2335)»
وعن ابن عباس: ان الصعب بن جثامة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا حمى إلا لله ورسوله» . رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا حِمَى إِلَّا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”چراگاہ تو صرف اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2370)»
وعن عروة قال: خاصم الزبير رجلا من الانصار في شراج من الحرة فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اسق يا زبير ثم ارسل الماء إلى جارك» . فقال الانصاري: ان كان ابن عمتك؟ فتلون وجهه ثم قال: «اسق يا زبير ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر ثم ارسل الماء إلى جارك» فاستوعى النبي صلى الله عليه وسلم للزبير حقه في صريح الحكم حين احفظه الانصاري وكان اشار عليهما بامر لهما فيه سعة وَعَنْ عُرْوَةَ قَالَ: خَاصَمَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فِي شِرَاجٍ مِنَ الْحَرَّةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ» . فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ: «اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ» فَاسْتَوْعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ حِينَ أحفظه الْأنْصَارِيّ وَكَانَ أَشَارَ عَلَيْهِمَا بِأَمْرٍ لَهُمَا فِيهِ سَعَةٌ
عروہ بیان کرتے ہیں، زبیر کا حرّہ کے برساتی نالے میں ایک انصاری آدمی سے جھگڑا ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زبیر! پہلے تم سیراب کر لو، پھر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔ “ انصاری بولنے لگا: کیونکہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا، پھر فرمایا: ”زبیر! پہلے تم سیراب کرو، پھر پانی روک رکھو حتی کہ وہ منڈیر تک پہنچ جائے، پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دے۔ “ یوں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صریح حکم میں (فی الحقیقت) زبیر رضی اللہ عنہ کو پورا حق دے دیا۔ جبکہ انصاری نے (قول فیصل پر معترض ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غصہ دلایا، حالانکہ آپ نے پہلے ایسا حکم دیا تھا جس میں دونوں کے لیے وسعت تھی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2359) و مسلم (2357/139)»
--. جانوروں کو ضرورت سے زیادہ والا پانی پینے سے نہ روکا جائے
حدیث نمبر: 2994
اعراب
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تمنعوا فضل الماء لتمنعوا به فضل الكلا» عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تمنعوا فضل المَاء لتمنعوا بِهِ فضل الْكلأ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زائد از ضرورت گھاس روکنے کے لیے زائد از ضرورت پانی مت روکو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2354) و مسلم (1566/37)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم رجل حلف على سلعة لقد اعطي بها اكثر مما اعطي وهو كاذب ورجل حلف على يمين كاذبة بعد العصر ليقتطع بها مال رجل مسلم ورجل منع فضل ماء فيقول الله: اليوم امنعك فضلي كما منعت فضل ماء لم تعمل يداك «وذكر حديث جابر في» باب المنهي عنها من البيوع وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ رَجُلٌ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ لَقَدْ أُعْطِيَ بِهَا أَكْثَرَ مِمَّا أُعْطِيَ وَهُوَ كَاذِبٌ وَرَجُلٌ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ كَاذِبَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَرَجُلٌ مَنَعَ فَضْلَ مَاءٍ فَيَقُولُ اللَّهُ: الْيَوْمَ أَمْنَعُكَ فَضْلِي كَمَا مَنَعْتَ فَضْلَ مَاء لم تعْمل يداك «وَذُكِرَ حَدِيثُ جَابِرٍ فِي» بَابِ الْمَنْهِيِّ عَنْهَا من الْبيُوع
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں، جن سے اللہ روزِ قیامت کلام کرے گا نہ نظرِ رحمت سے ان کی طرف دیکھے گا: وہ آدمی جس نے مال پر قسم اٹھائی ہو کہ اسے تو اس سے، جتنی تم دے رہے ہو، زیادہ قیمت ملتی ہے، حالانکہ وہ جھوٹا ہے، دوسرا وہ شخص جو عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان شخص کا مال ہڑپ کر جائے، اور تیسرا وہ شخص جس نے زائد از ضرورت پانی روک رکھا ہو، اللہ فرمائے گا: آج میں تجھے اپنے فضل سے محروم رکھوں گا جیسا کہ تو نے زائد از ضرورت پانی روک لیا تھا۔ حالانکہ اسے تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔ “ متفق علیہ۔ وَذْکِرَ حَدِیْثُ جَابِر رضی اللہ عنہ فِیْ ”بَابِ الْمَنْھِیِّ عَنْھَا مِنَ الْبُیُوْع“۔ اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت باب المنھی عنھا من البیوع میں ذکر کی جا چکی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2369) و مسلم (173 / 108) حديث جابر تقدم: 2858»
عن الحسن عن سمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من احاط حائطا على الارض فهو له» . رواه ابو داود عَنِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَحَاطَ حَائِطًا عَلَى الْأَرْضِ فَهُوَ لَهُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
حسن ؒ سمرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی (بنجر) زمین پر چار دیواری کر لے تو وہ قطعہ زمین اس کا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3077) ٭ قتادة مدلس و عنعن.»
وعن اسماء بنت ابي بكر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقطع للزبير نخيلا. رواه ابو داود وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ لِلزُّبَيْرِ نخيلا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
اسماء بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو جاگیر میں کچھ کھجوروں کے درخت عطا فرمائے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (3069)»
--. زبیر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جاگیر عطا کرنا
حدیث نمبر: 2998
اعراب
وعن ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم اقطع للزبير حضر فرسه فاجرى فرسه حتى قام ثم رمى بسوطه فقال: «اعطوه من حيث بلغ السوط» . رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ لِلزُّبَيْرِ حُضْرَ فَرَسِهِ فَأَجْرَى فَرَسَهَ حَتَّى قَامَ ثُمَّ رَمَى بِسَوْطِهِ فَقَالَ: «أَعْطُوهُ مِنْ حَيْثُ بَلَغَ السَّوْطُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کے لیے ان کے گھوڑے کی دوڑ تک مسافت کا رقبہ جاگیر میں عطا کیا، انہوں نے اپنا گھوڑا دوڑایا حتی کہ وہ کھڑا ہو گیا۔ پھر انہوں نے اپنا کوڑا پھینکا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جہاں تک کوڑا پہنچا ہے وہاں تک رقبہ اسے عطا کر دو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (3072) ٭ عبد الله العمري حسن الحديث عن نافع و ضعيف الحديث عن غيره.»