--. مالدار شخص کو قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول نہیں کرنا چاہیے
حدیث نمبر: 2919
اعراب
وعن الشريد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لي الواجد يحل عرضه وعقوبته» قال ابن المبارك: يحل عرضه: يغلظ له. وعقوبته: يحبس له. رواه ابو داود والنسائي وَعَنِ الشَّرِيدِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ» قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: يُحِلُّ عِرْضَهُ: يُغَلَّظُ لَهُ. وَعُقُوبَتَهُ: يُحْبَسُ لَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ
شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنے والے مال دار شخص کی بے عزتی کرنا اور اسے سزا دینا جائز ہے۔ “ ابن مبارک ؒ نے فرمایا: اس کی بے عزتی کرنے سے یہ مراد ہے کہ اس سے سخت کلامی کرنا جائز ہے، اور اس کو سزا دینے سے مراد ہے کہ اسے قید کرنا جائز ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (3628) و النسائي (316/7. 317 ح 4693. 4694)»
--. قرضدار کی نماز جنازہ سے پہلے کسی کو اس کی ادائیگی کا ذمہ لینا چاہیے
حدیث نمبر: 2920
اعراب
وعن ابي سعيد الخدري قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم بجنازة ليصلي عليها فقال: «هل على صاحبكم دين؟» قالوا: نعم قال: «هل ترك له من وفاء؟» قالوا: لا قال: «صلوا على صاحبكم» قال علي بن ابي طالب: علي دينه يا رسول الله فتقدم فصلى عليه. وفي رواية معناه وقال: «فك الله رهانك من النار كما فككت رهان اخيك المسلم ليس من عبد مسلم يقضي عن اخيه دينه إلا فك الله رهانه يوم القيامة» . رواه في شرح السنة وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا فَقَالَ: «هَلْ عَلَى صَاحِبِكُمْ دَيْنٌ؟» قَالُوا: نَعَمْ قَالَ: «هَلْ تَرَكَ لَهُ مِنْ وَفَاءٍ؟» قَالُوا: لَا قَالَ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ» قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ مَعْنَاهُ وَقَالَ: «فَكَّ اللَّهُ رِهَانَكَ مِنَ النَّارِ كَمَا فَكَكْتَ رِهَانَ أَخِيكَ الْمُسْلِمِ لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَقْضِي عَنْ أَخِيهِ دَيْنَهُ إِلَّا فَكَّ اللَّهُ رِهَانَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس کی نمازِ جنازہ پڑھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے ساتھی پر قرض ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: ”کیا اس نے اس کی ادائیگی کے لیے کوئی مال چھوڑا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، فرمایا: ”تم اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھو۔ “ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس کا قرض میرے ذمے رہا، تو پھر آپ آگے بڑھے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھی، اور ایک دوسری روایت میں اسی کا ہم معنی مفہوم روایت کیا گیا ہے، اور فرمایا: ”اللہ نے تمہاری گردن کو آگ سے آزاد کر دیا جیسے تم نے اپنے مسلمان بھائی کی گردن کو آزاد کرا دیا۔ جو کوئی مسلمان بندہ اپنے بھائی کی طرف سے اس کا قرض ادا کرتا ہے تو روزِ قیامت اللہ اس کی گردن کو (آگ سے) آزاد فرمائے گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (213/8. 214 ح 2155) [والدارقطني (78/3 ح 3063) والبيھقي (73/6)] ٭ فيه عبيد الله بن الوليد الوصافي (ضعيف) عن عطية بن سعد العوفي (ضعيف مدلس) عن أبي سعيد به و قال البيھقي في عبيد الله: ’’ھو ضعيف جدًا‘‘.»
وعن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من مات وهو بريء من الكبر والغلول والدين دخل الجنة» . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنَ الْكِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه والدارمي
ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ کبر و خیانت اور قرض سے بَری ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ “ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1572) و ابن ماجه (2412) والدارمي (262/2 ح 2595) ٭ و للحديث شواھد.»
وعن ابي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن اعظم الذنوب عند الله ان يلقاه بها عبد بعد الكبائر التي نهى الله عنها ان يموت رجل وعليه دين لا يدع له قضاء» . رواه احمد وابو داود وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ أَعْظَمَ الذُّنُوبِ عِنْدَ اللَّهِ أَنْ يَلْقَاهُ بِهَا عَبْدٌ بَعْدَ الْكَبَائِرِ الَّتِي نَهَى اللَّهُ عَنْهَا أَنْ يَمُوتَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ لَا يَدَعُ لَهُ قَضَاءً» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
ابوموسی رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہوں کے بعد، اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ مرنے کے بعد اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ذمہ قرض ہو اور وہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز نہ چھوڑے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (392/4 ح 19724) و أبو داود (2342)»
--. حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے والی شرط جائز نہیں
حدیث نمبر: 2923
اعراب
وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا حرم حلالا او احل حراما والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا او احل حراما» . رواه الترمذي وابن ماجه وابو داود وانتهت روايته عند قوله «شروطهم» وَعَن عَمْرو بن عَوْف الْمُزَنِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَأَبُو دَاوُدَ وَانْتَهَتْ رِوَايَته عِنْد قَوْله «شروطهم»
عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے، ایسی صلح کے سوا جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے، اور اس شرط کے سوا جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال کر دے، مسلمان اپنی شرطوں پر ثابت ہیں۔ “ ترمذی، ابن ماجہ، ابوداؤد اور ان کی روایت ((عَلیٰ شُرُوْطِھِمْ)) تک ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1352 وقال: حسن صحيح) و ابن ماجه (2353) [و أبو داود (3594) من حديث أبي ھريرة رضي الله عنه و سنده حسن] ٭ سنده ضعيف جدًا و للحديث شواھد عند أبي داود وغيره وھو بھا صحيح.»
عن سويد بن قيس قال: جلبت انا ومخرفة العبدي بزا من هجر فاتينا به مكة فجاءنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي فساومنا بسراويل فبعناه وثم رجل يزن بالاجر فقال له رسول الله: «زن وارجح» . رواه احمد وابو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح عَن سُوَيْد بن قيس قَالَ: جَلَبْتُ أَنَا وَمَخَرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرٍ فَأَتَيْنَا بِهِ مَكَّةَ فَجَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ فَبِعْنَاهُ وَثمّ رجل يزن بِالْأَجْرِ فَقَالَ لَهُ رَسُول الله: «زِنْ وَأَرْجِحْ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
سوید بن قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اور مخرفہ عبدی تجارت کے لیے ہجر سے کپڑا لے کر مکہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدل چلتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ایک شلوار کے کپڑے کی ہم سے قیمت طے کی تو ہم نے آپ کو فروخت کر دیا، وہاں ایک آدمی تھا جو اُجرت پر وزن کیا کرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”وزن کر اور جھکتا وزن کر۔ “(یعنی پورے سے کچھ زیادہ)۔ احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ صحیح، رواہ احمد و ابوداؤد و الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (352/4 ح 19308) و أبو داود (3336) و الترمذي (1305) و ابن ماجه (2220) و الدارمي (260/2 ح 2588)»
وعن جابر قال: كان لي على النبي صلى الله عليه وسلم دين فقضاني وزادني. رواه ابو داود وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ لِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ قرض تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ مجھے ادا کیا اور مجھے مزید عطا کیا۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (3347) [والبخاري (443، 2394) و مسلم (715)]»
وعن عبد الله بن ابي ربيعة قال: استقرض مني النبي صلى الله عليه وسلم اربعين الفا فجاءه مال فدفعه إلي وقال: «بارك الله تعالى في اهلك ومالك إنما جزاء السلف الحمد والاداء» . رواه النسائي وَعَن عبد الله بن أبي ربيعَة قَالَ: اسْتَقْرَضَ مِنِّي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ أَلْفًا فَجَاءَهُ مَالٌ فَدَفَعَهُ إِلَيَّ وَقَالَ: «بَارَكَ اللَّهُ تَعَالَى فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ إِنَّمَا جَزَاءُ السَّلَفِ الْحَمْدُ وَالْأَدَاءُ» . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ
عبداللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چالیس ہزار درہم قرض لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مال آیا تو آپ نے وہ مجھے واپس کر دیا، اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و مال میں برکت فرمائے، قرض کی جزا ہی شکریہ ادا کرنا اور قرض ادا کرنا ہے۔ “ حسن، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه النسائي (314/7 ح 4687) و ابن ماجه (2424)»
وعن عمران بن حصين قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان له على رجل حق فمن اخره كان له بكل يوم صدقة» . رواه احمد وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَمَنْ أَخَّرَهُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ» . رَوَاهُ أَحْمد
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کا کسی شخص پر کوئی حق ہو، اور وہ (حق لینے والا) اسے مہلت دے تو ہر روز کے بدلے اسے صدقہ کا ثواب ملے گا۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه أحمد (442/4، 443 ح 20219) ٭ فيه الأعمش (ثقة مدلس) عن أبي داود (الأعمي: کذاب) عن عمران به، و حديث بريدة: ’’من أنظر معسرًا فله بکل يوم مثله صدقة‘‘ يغني عنه، رواه أحمد (360/5 ح 23434) و سنده صحيح و صححه الحاکم علي شرط الشيخين (29/2) ووافقه الذهبي.»
وعن سعد بن الاطول قال: مات اخي وترك ثلاثمائة دينار وترك ولدا صغارا فاردت ان انفق عليهم فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن اخلك محبوس بدينه فاقض عنه» . قال: فذهبت فقضيت عنه ولم تبق إلا امراة تدعي دينارين وليست لها بينة قال: «اعطها فإنها صدقة» . رواه احمد وَعَن سعد بن الأطول قَالَ: مَاتَ أَخِي وَتَرَكَ ثَلَاثَمِائَةِ دِينَارٍ وَتَرَكَ وَلَدًا صِغَارًا فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِن أخلك مَحْبُوسٌ بِدَيْنِهِ فَاقْضِ عَنْهُ» . قَالَ: فَذَهَبْتُ فَقَضَيْتُ عَنهُ وَلم تبْق إِلَّا امْرَأَةٌ تَدَّعِي دِينَارَيْنِ وَلَيْسَتْ لَهَا بَيِّنَةٌ قَالَ: «أعْطهَا فَإِنَّهَا صَدَقَة» . رَوَاهُ أَحْمد
سعد بن اطول رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا بھائی فوت ہو گیا اور اس نے تین سو دینار اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے، میں نے ارادہ کیا کہ میں (یہ رقم) ان پر خرچ کروں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تیرا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے محبوس ہے، (پہلے) اس کی طرف سے قرض ادا کرو۔ “ وہ بیان کرتے ہیں۔ میں گیا اور اس کی طرف سے قرض ادا کیا، پھر میں واپس آیا تو عرض کیا، اللہ کے رسول! میں نے اس کی طرف سے سارا قرض ادا کر دیا ہے، صرف ایک عورت باقی رہ گئی ہے جو دو دینار کا مطالبہ کرتی ہے۔ جبکہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے دے دو کیونکہ وہ سچی ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (7/5ح 20336. 20337، 136/4 ح 17359 واللفظ له) [و ابن ماجه:2433] ٭ عبد الملک أبو جعفر مجھول الحال و للحديث شاھد صحيح عند أحمد (7/5) وغيره دون قوله: ’’و ترک ثلاثمائة‘‘.»