کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب البيوع
--. ایک معاملے پر دو بیع منع ہے
حدیث نمبر: 2869
اعراب
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة. رواه في شرح السنةوَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ہی مرتبہ دو بیع سے منع فرمایا۔ اسنادہ حسن، رواہ البغوی فی شرح السنہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه البغوي في شرح السنة (144/8 ح 2112) [والبيھقي 343/5] و انظر الحديث الآتي:2870»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. خرید و فروخت کو قرض کے ساتھ نہ ملاؤ
حدیث نمبر: 2870
اعراب
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل سلف وبيع ولا شرطان في بيع ولا ربح ما لم يضمن ولا بيع ما ليس عندك» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وقال الترمذي: هذا صحيحوَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يضمن وَلَا بيع مَا لَيْسَ عِنْدَكَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا صَحِيح
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرض اور بیع (ایک ساتھ) جائز ہے نہ ایک بیع میں دو شرطیں، اور نہ ہی اس چیز کا منافع جائز ہے جس کا ضامن نہیں اور اس چیز کی بیع بھی جائز نہیں جو تیرے پاس نہیں۔ ترمذی، ابوداؤ، نسائی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه الترمذي (1234) و أبو داود (3504) و النسائي (288/7 ح 4615)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
--. قیمت ادا کرنے میں سکے کی تبدیلی جائز ہے
حدیث نمبر: 2871
اعراب
وعن ابن عمر قال: كنت ابيع الإبل بالنقيع بالدنانير فآخذ مكانها الدارهم وابيع بالدراهم فآخذ مكانها الدنانير فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له فقال: «لا باس ان تاخذها بسعر يومها ما لم تفترقا وبينكما شيء» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي والدارميوَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بالنقيع بِالدَّنَانِيرِ فآخذ مَكَانهَا الدارهم وأبيع بِالدَّرَاهِمِ فَآخُذُ مَكَانَهَا الدَّنَانِيرَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ والدارمي
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مقام نقیع پر اونٹوں کو دیناروں کے بدلے بیچا کرتا تھا اور ان کی جگہ درہم وصول کرتا تھا، اور کبھی درہموں میں بیچتا اور ان کی جگہ دینار وصول کرتا تھا، میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم اسی روز کی قیمت وصول کرو، اور جب تم دونوں جدا ہو تو تمہارے درمیان لین دین باقی نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و الدارمی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (1242) و أبو داود (3354) والنسائي (281/7. 282 ح 4586) والدارمي (259/2 ح 2584)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیع کا بیان
حدیث نمبر: 2872
اعراب
وعن العداء بن خالد بن هوذة اخرج كتابا: هذا ما اشترى العداء بن خالد بن هوذة من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم اشترى منه عبدا او امة لا داء ولا غائلة ولا خبثة بيع المسلم المسلم. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريبوَعَنِ الْعَدَّاءِ بْنِ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ أَخْرَجَ كِتَابًا: هَذَا مَا اشْتَرَى الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْترى مِنْهُ عبدا أَو أمة لَا دَاءَ وَلَا غَائِلَةَ وَلَا خِبْثَةَ بَيْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
عدّاء بن خالد بن ہوذہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے ایک تحریر نکالی، (جس کی عبارت یوں تھی) یہ تحریر اس چیز سے متعلق ہے جو عداء بن خالد بن ہوذہ نے اللہ کے رسول، محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے غلام یا لونڈی خریدی، اس میں کوئی بیماری ہے نہ اسے کوئی بُری عادت ہے اور نہ کوئی اخلاقی برائی، اور یہ مسلمان کی مسلمان سے بیع ہے۔ ترمذی۔ اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ حسن، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه الترمذي (1216)»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
--. نیلام کرنا جائز ہے
حدیث نمبر: 2873
اعراب
وعن انس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم باع حلسا وقدحا فقال: «من يشتري هذا الحلس والقدح؟» فقال رجل: آخذهما بدرهم. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من يزيد على درهم؟» فاعطاه رجل درهمين فباعهما منه. رواه الترمذي وابو داود وابن ماجه وَعَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا فَقَالَ: «مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الحلس والقدح؟» فَقَالَ رجل: آخذهما بِدِرْهَمٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟» فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ فَبَاعَهُمَا مِنْهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کمبل اور پیالہ بیچنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: اس کمبل اور پیالے کو کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا، میں ان دونوں کو ایک درہم میں خریدتا ہوں، تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ چنانچہ ایک آدمی نے دو درہم کے عوض انہیں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے خرید لیا۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (1218 وقال: حسن) و أبو داود (1641) وابن ماجه (2198)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. عیب دار چیز دھوکے سے بیچنے والے کے لیے عذاب کا وعدہ
حدیث نمبر: 2874
اعراب
عن واثلة بن الاسقع قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من باع عيبا لم ينبه لم يزل في مقت الله او لم تزل الملائكة تلعنه» . رواه ابن ماجه عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «من بَاعَ عَيْبا لَمْ يُنَبِّهْ لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ اللَّهِ أَوْ لَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کوئی عیب و نقص والی چیز بیچتا ہے اور اس کے متعلق بتاتا نہیں تو وہ اللہ کی ناراضی میں رہتا ہے یا فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (2247)
٭ بقية مدلس و عنعن و له علة أخري.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. پھلدار درخت بیچنے کا مسئلہ
حدیث نمبر: 2875
اعراب
عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ابتاع نخلا بعد ان تؤبر فثمرتها للبائع إلا ان يشترط المبتاع ومن ابتاع عبدا وله مال فماله للبائع إلا ان يشترط المبتاع» . رواه مسلم وروى البخاري المعنى الاول وحده عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَمَنِ ابْتَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ» . رَوَاهُ مُسلم وروى البُخَارِيّ الْمَعْنى الأول وَحده
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص تابیر (پیوند) کے بعد کھجور کا درخت خریدے تو اگر خریدار شرط قائم نہ کرے تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے، اور جو شخص کوئی غلام بیچے اور اس کا کچھ مال ہو تو وہ مال بیچنے والے کا ہے، اِلاّ یہ کہ خریدار اس کی شرط قائم کر لے۔ مسلم، اور امام بخاری ؒ نے صرف پہلا حصہ ہی بیان کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1543/80) و البخاري (2379)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. مشروط خرید و فروخت کا بیان
حدیث نمبر: 2876
اعراب
وعن جابر: انه كان يسير على جمل له قد اعيي فمر النبي صلى الله عليه وسلم به فضربه فسار سيرا ليس يسير مثله ثم قال: «بعنيه بوقية» قال: فبعته فاستثنيت حملانه إلى اهلي فلما قدمت المدينة اتيته بالجمل ونقدني ثمنه وفي رواية فاعطاني ثمنه ورده علي. متفق عليه. وفي رواية للبخاري انه قال لبلال: «اقضه وزده» فاعطاه وزاده قيراطا وَعَنْ جَابِرٍ: أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قد أعيي فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ فَضَرَبَهُ فَسَارَ سَيْرًا لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ ثُمَّ قَالَ: «بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ» قَالَ: فَبِعْتُهُ فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ وَفِي رِوَايَةٍ فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِبِلَالٍ: «اقْضِهِ وَزِدْهُ» فَأَعْطَاهُ وَزَادَهُ قِيرَاطًا
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک ذاتی اونٹ پر سفر کر رہے تھے جو کہ تھک چکا تھا، اسی اثنا میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس سے گزرے تو آپ نے اسے مارا تو وہ یوں چلنے لگا کہ وہ پہلے کبھی ایسے نہیں چلتا تھا، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے ایک اوقیہ کے بدلے میں مجھے بیچ دو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، میں نے اسے بیچ دیا البتہ میں نے اپنے اہل و عیال تک پہنچنے کی مہلت لے لی، جب میں مدینہ پہنچا تو میں اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کی قیمت مجھے ادا کر دی۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: میں حاضر ہوا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی اور وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ بخاری، مسلم۔ اور صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اسے قیمت ادا کر دو اور زیادہ بھی دو۔ انہوں نے مجھے قیمت بھی ادا کی اور ایک قراط مزید عطا کیا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2718، 2967) و مسلم (109. 715/111)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. ولاء کا حق آزاد کرنے والے کو ہے
حدیث نمبر: 2877
اعراب
وعن عائشة قالت: جاءت بريرة فقالت: إني كاتبت على تسع اواق في كل عام وقية فاعينيني فقالت عائشة: إن احب اهلك ان اعدها لهم عدة واحدة واعتقك فعلت ويكون ولاؤك لي فذهبت إلى اهلها فابوا إلا ان يكون الولاء لهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خذيها واعتقيها» ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس فحمد الله واثنى عليه ثم قال: «اما ابعد فما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط فقضاء الله احق وشرط الله اوثق وإنما الولاء لمن اعتق» وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ فَقَالَتْ: إِنِّي كَاتَبْتُ عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ وُقِيَّةٌ فَأَعِينِينِي فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عُدَّةً وَاحِدَةً وَأُعْتِقَكِ فَعَلْتُ وَيَكُونُ وَلَاؤُكِ لِي فَذَهَبَتْ إِلَى أَهْلِهَا فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذِيهَا وَأَعْتِقِيهَا» ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا أبعد فَمَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتَ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ فَقَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، بریرہ رضی اللہ عنہ آئیں تو انہوں نے کہا: میں نے نو اوقیہ پر (آزادی حاصل کرنے کے لیے) کتابت کی ہے۔ اور ہر سال ایک اوقیہ دینا ہے، لہذا آپ رضی اللہ عنہ میری مدد فرمائیں، عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تمہارے مالک پسند کریں تو میں یہ رقم ایک ہی مرتبہ ادا کر دیتی ہوں، اور تمہیں آزاد کرا دیتی ہوں، لیکن تمہاری ولا (وراثت) میری ہو گی، وہ اپنے مالکوں کے پاس گئیں تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ولا ان کے لیے ہو گی، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے خرید کر آزاد کر دو۔ پھر آپ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: اما بعد! لوگوں کو کیا ہوا کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، اور جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو، خواہ وہ سو شرطیں ہوں، تو وہ باطل ہیں، اللہ کی قضا زیادہ حق رکھتی ہے، اور اللہ کی شرط زیادہ معتبر ہے، اور ولا آزاد کرنے والے کا حق ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2168) و مسلم (1504/6)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. ولاء کی خرید و فروخت
حدیث نمبر: 2878
اعراب
وعن ابن عمر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الولاء وعن هبته وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَن بيع الْوَلَاء وَعَن هِبته
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ولا کو فروخت کرنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2535) و مسلم (1506/16)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    8    9    10    11    12    13    14    15    16    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.