عن عبد الله بن عمرو بن العاص: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف في حجة الوداع بمنى للناس يسالونه فجاءه رجل فقال: لم اشعر فحلقت قبل ان اذبح. فقال: «اذبح ولا حرج» فجاء آخر فقال: لم اشعر فنحرت قبل ان ارمي. فقال: «ارم ولا حرج» . فما سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن شيء قدم ولا اخر إلا قال: «افعل ولا حرج» وفي رواية لمسلم: اتاه رجل فقال: حلقت قبل ان ارمي. قال: «ارم ولا حرج» واتاه آخر فقال: افضت إلى البيت قبل ان ارمي. قال: «ارم ولا حرج» عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ. فَقَالَ: «اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ» فَجَاءَ آخَرُ فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. فَقَالَ: «ارْمِ وَلَا حَرَجَ» . فَمَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ: «افْعَلْ وَلَا حرج» وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. قَالَ: «ارْمِ وَلَا حَرَجَ» وأتاهُ آخرُ فَقَالَ: أفَضتُ إِلى البيتِ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. قَالَ: «ارْمِ وَلَا حَرَجَ»
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی خاطر منیٰ میں وقوف فرمایا، لوگ آپ کے پاس آتے اور مسائل دریافت کرتے، ایک آدمی آپ کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا: میں نے لاعلمی میں قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ “ پھر ایک اور آدمی آیا تو اس نے عرض کیا: میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے لا علمی میں قربانی کر لی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(اب) کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں۔ “ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس چیز کی بھی تقدیم و تاخیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا: ”اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ “ بخاری، مسلم۔ اور مسلم کی روایت میں ہے: ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے سر مونڈ لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں۔ “ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے عرض کیا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے طواف افاضہ کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (83) و مسلم (1306/327، 1306/333)»
وعن ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يسال يوم النحر بمنى فيقول: «لا حرج» فساله رجل فقال: رميت بعد ما امسيت. فقال: «لا حرج» . رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ يَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًى فَيَقُولُ: «لَا حرَجَ» فَسَأَلَهُ رجل فَقَالَ: رميت بعد مَا أمسَيتُ. فَقَالَ: «لَا حرَجَ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، قربانی کے دن منیٰ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسائل دریافت کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی فرما رہے تھے: ”کوئی حرج نہیں۔ “ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو اس نے عرض کیا: میں نے غروبِ آفتاب کے بعد کنکریاں ماری ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1723)»
عن علي قال: اتاه رجل فقال: يا رسول الله إني افضت قبل ان احلق فقال: «احلق او قصر ولا حرج» . وجاء آخر فقال: ذبحت قبل ان ارمي. قال: «ارم ولا حرج» . رواه الترمذي عَن عَليّ قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ فَقَالَ: «احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ» . وَجَاءَ آخَرُ فَقَالَ: ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. قَالَ: «ارْمِ وَلَا حرج» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا: ”اللہ کے رسول! میں نے سر منڈانے سے پہلے طواف افاضہ کر لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اب سر منڈا لو یا بال کترا لو، کوئی حرج نہیں۔ “ پھر ایک دوسرا آدمی آیا تو اس نے عرض کیا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (885 وقال: حسن صحيح) [و أبو داود (1922، 1935) و ابن ماجه (3010)] ٭ سفيان الثوري مدلس و عنعن.»
عن اسامة بن شريك قال: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجا فكان الناس ياتونه فمن قائل: يا رسول الله سعيت قبل ان اطوف او اخرت شيئا او قدمت شيئا فكان يقول: «لا حرج إلا على رجل اقترض عرض مسلم وهو ظالم فذلك الذي حرج وهلك» . رواه ابو داود عَن أُسامةَ بنِ شرِيكٍ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا فَكَانَ النَّاسُ يَأْتُونَهُ فَمِنْ قَائِلٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَعَيْتُ قَبْلَ أَنْ أَطُوفَ أَوْ أَخَّرْتُ شَيْئًا أَوْ قَدَّمْتُ شَيْئًا فَكَانَ يَقُولُ: «لَا حَرَجَ إِلَّا عَلَى رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ مُسْلِمٍ وَهُوَ ظَالِمٌ فَذَلِكَ الَّذِي حَرِجَ وهَلِك» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں حج کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے اور مسائل دریافت کرتے تھے، کسی نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے طواف کرنے سے پہلے سعی کر لی، یا میں نے ایک چیز کو مؤخر کر لیا یا میں نے کوئی چیز مقدم کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: ”اس شخص کے سوا جس نے کسی مسلمان کی عزت کو خراب کیا، کوئی حرج نہیں، ایسا شخص ظالم ہے اور ایسا شخص ہی حرج، گناہ اور ہلاکت کا شکار ہوا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2015)»
عن ابي بكرة رضي الله عنه قال: خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر قال: «إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والارض السنة اثنا عشر شهرا منها اربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان» وقال: «اي شهر هذا؟» قلنا: الله ورسوله اعلم فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه فقال: «اليس ذا الحجة؟» قلنا: بلى. قال: «اي بلد هذا؟» قلنا: الله ورسوله اعلم فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه قال: «اليس البلدة؟» قلنا: بلى قال «فاي يوم هذا؟» قلنا: الله ورسوله اعلم فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه. قال: «اليس يوم النحر؟» قلنا: بلى. قال: «فإن دماءكم واموالكم واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقون ربكم فيسالكم عن اعمالكم الا فلا ترجعوا بعدي ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض الا هل بلغت؟» قالوا: نعم. قال: «اللهم اشهد فليبلغ الشاهد الغائب فرب مبلغ اوعى من سامع» عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَ: «إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ» وَقَالَ: «أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟» قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ فَقَالَ: «أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟» قُلْنَا: بَلَى. قَالَ: «أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟» قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ قَالَ: «أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟» قُلْنَا: بَلَى قَالَ «فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟» قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ. قَالَ: «أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟» قُلْنَا: بَلَى. قَالَ: «فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ أَلَا فَلَا تَرْجِعُوا بِعْدِي ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟» قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: «اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ»
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطاب فرمایا تو فرمایا: ”زمانہ (سال) گھوم گھما کر اسی صورت پر آ گیا ہے جیسے اس دن تھا، جس روز اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان تخلیق فرمائے تھے، سال بارہ ماہ کا ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تو متواتر ہیں اور رجب مضر جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے خاموشی اختیار کر لی حتی کہ ہم نے خیال کیا آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟“ ہم نے عرض کیا، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ خاموش رہے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ بلدہ (یعنی مکہ) نہیں؟“ ہم نے عرض کیا، جی ہاں، ایسے ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا دن ہے؟”ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟“ ہم نے عرض کیا، جی ہاں، ایسے ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر اس ماہ میں، اس شہر میں اور اس دن کی حرمت کی طرح تم پر حرام ہیں، تم عنقریب اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو، وہ تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے سوال کرے گا، سن لو! تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو، سن لو! کیا میں نے تم تک (دین) پہنچا دیا؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! گواہ رہنا، جو یہاں موجود ہیں وہ غیر موجود تک پہنچا دیں، بسا اوقات جس کو بات پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1741) و مسلم (29. 1679/31)»
وعن وبرة قال: سالت ابن عمر: متى ارمي الجمار؟ قال: إذا رمى إمامك فارمه فاعدت عليه المسالة. فقال: كنا نتحين فإذا زالت الشمس رمينا. رواه البخاري وَعَن وَبرةَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ: مَتَى أَرْمِي الْجِمَارَ؟ قَالَ: إِذَا رَمَى إِمَامُكَ فَارْمِهِ فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ. فَقَالَ: كُنَّا نَتَحَيَّنُ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ رمينَا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
وبرہ ؒ بیان کرتے ہیں، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: میں کس وقت کنکریاں ماروں؟ انہوں نے فرمایا: جب تمہارا امام کنکریاں مارے تو تم بھی کنکریاں مارو۔ میں نے دوبارہ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: ہم انتظار کرتے رہتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تو ہم کنکریاں مارتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1746)»
وعن سالم عن ابن عمر: انه كان يرمي جمرة الدنيا بسبع حصيات يكبر على إثر كل حصاة ثم يتقدم حتى يسهل فيقوم مستقبل القبلة طويلا ويدعو ويرفع يديه ثم يرمي الوسطى بسبع حصيات يكبر كلما رمى بحصاة ثم ياخذ بذات الشمال فيسهل ويقوم مستقبل القبلة ثم يدعو ويرفع يديه ويقوم طويلا ثم يرمي جمرة ذات العقبة من بطن الوادي بسبع حصيات يكبر عند كل حصاة ولا يقف عندها ثم ينصرف فيقول: هكذا رايت النبي صلى الله عليه وسلم يفعله. رواه البخاري وَعَن سالمٍ عَن ابنِ عمر: أَنَّهُ كَانَ يَرْمِي جَمْرَةَ الدُّنْيَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكبِّرُ على إِثْرَ كُلِّ حَصَاةٍ ثُمَّ يَتَقَدَّمُ حَتَّى يُسْهِلَ فَيَقُومُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ طَوِيلًا وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ثُمَّ يَرْمِي الْوُسْطَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ ثُمَّ يَأْخُذُ بِذَاتِ الشِّمَالِ فَيُسْهِلُ وَيَقُومُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ ثُمَّ يَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ وَيَقُومُ طَوِيلًا ثُمَّ يَرْمِي جَمْرَةَ ذَاتِ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ عِنْدَ كُلِّ حَصَاةٍ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَقُولُ: هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَله. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سالم ؒ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ جمرہ دنیا (مسجد خفیف کے قریب والے جمرہ کو) سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے بعد اللہ اکبر کہتے تھے، پھر آگے بڑھتے حتی کہ نرم زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دیر تک ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے، پھر بائیں جانب ہو کر نرم زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعائیں کرتے رہتے، پھر درمیان والے جمرے کو سات کنکریاں مارتے جب کنکری مارتے تو اللہ اکبر کہتے تھے پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبی کو سات کنکریاں مارتے، آپ ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے، آپ اس کے پاس نہ ٹھہرتے پھر واپس آ جاتے اور فرماتے: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1751. 1752)»
وعن ابن عمر قال: استاذن العباس بن عبد المطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيت بمكة ليالي منى من اجل سقايته فاذن له وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ لَيَالِيَ منى من أجلِ سِقايتِهِ فَأذن لَهُ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے پانی پلانے کی وجہ سے، منیٰ کی راتیں مکہ میں گزارنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1634) و مسلم (1315/346)»
وعن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء إلى السقاية فاستسقى. فقال العباس: يا فضل اذهب إلى امك فات رسول الله صلى الله عليه وسلم بشراب من عندها فقال: «اسقني» فقال: يا رسول الله إنهم يجعلون ايديهم فيه قال: «اسقني» . فشرب منه ثم اتى زمزم وهم يسقون ويعملون فيها. فقال: «اعملوا فإنكم على عمل صالح» . ثم قال: «لولا ان تغلبوا لنزلت حتى اضع الحبل على هذه» . واشار إلى عاتقه. رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ إِلَى السِّقَايَةِ فَاسْتَسْقَى. فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا فَضْلُ اذْهَبْ إِلَى أُمِّكَ فَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ مِنْ عِنْدِهَا فَقَالَ: «اسْقِنِي» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُمْ يَجْعَلُونَ أَيْدِيَهُمْ فِيهِ قَالَ: «اسْقِنِي» . فَشرب مِنْهُ ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ وَهُمْ يَسْقُونَ وَيَعْمَلُونَ فِيهَا. فَقَالَ: «اعْمَلُوا فَإِنَّكُمْ عَلَى عَمَلٍ صَالِحٍ» . ثُمَّ قَالَ: «لَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا لَنَزَلْتُ حَتَّى أَضَعَ الْحَبْلَ عَلَى هَذِهِ» . وَأَشَارَ إِلَى عَاتِقِهِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی پینے کی جگہ پر تشریف لائے تو آپ نے پانی طلب کیا تو عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فضل! اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور ان کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پانی لے کر آؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے (یہیں سے) پلاؤ۔ “ انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسول! لوگ اپنے ہاتھ اس میں ڈالتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے (یہیں سے) پلاؤ۔ “ آپ نے اسی میں سے نوش فرمایا، پھر آپ زم زم پر تشریف لائے تو لوگ وہاں پانی پلا رہے تھے اور خوب محنت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کام کرتے رہو، کیونکہ تم ایک نیک کام میں مشغول ہو۔ “ پھر فرمایا: ”اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جائیں تو میں بھی اپنی سواری سے اتر آتا حتی کہ میں رسی اس پر رکھ لیتا۔ “ آپ نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1635)»
وعن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الظهر والعصر والمغرب والعشاء ثم رقد رقدة بالمحصب ثم ركب إلى البيت فطاف به. رواه البخاري وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعَشَاءَ ثُمَّ رَقَدَ رَقْدَةً بِالْمُحَصَّبِ ثُمَّ رَكِبَ إِلَى الْبَيْتِ فَطَافَ بِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی نمازیں پڑھیں، پھر آپ وادی محصب میں تھوڑی دیر سوئے، پھر آپ سواری پر بیت اللہ تشریف لائے اور اس کا طواف (وداع) کیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1756)»