مشكوة المصابيح
كتاب المناسك
كتاب المناسك
حج کے افعال دیر سے یا جلدی کرنے میں کوئی گناہ نہیں
حدیث نمبر: 2655
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ. فَقَالَ: «اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ» فَجَاءَ آخَرُ فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. فَقَالَ: «ارْمِ وَلَا حَرَجَ» . فَمَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ: «افْعَلْ وَلَا حرج» وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. قَالَ: «ارْمِ وَلَا حَرَجَ» وأتاهُ آخرُ فَقَالَ: أفَضتُ إِلى البيتِ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. قَالَ: «ارْمِ وَلَا حَرَجَ»
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی خاطر منیٰ میں وقوف فرمایا، لوگ آپ کے پاس آتے اور مسائل دریافت کرتے، ایک آدمی آپ کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا: میں نے لاعلمی میں قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ “ پھر ایک اور آدمی آیا تو اس نے عرض کیا: میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے لا علمی میں قربانی کر لی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(اب) کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں۔ “ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس چیز کی بھی تقدیم و تاخیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا: ”اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ “ بخاری، مسلم۔ اور مسلم کی روایت میں ہے: ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے سر مونڈ لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں۔ “ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے عرض کیا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے طواف افاضہ کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکریاں مار لو، کوئی حرج نہیں۔ “ متفق علیہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (83) و مسلم (1306/327، 1306/333)»
قال الشيخ الألباني: مُتَّفق عَلَيْهِ
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه