وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه في الدعاء حتى يرى بياض إبطيه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ حَتَّى يُرى بياضُ إبطَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دورانِ دعا اپنے ہاتھ اس قدر بلند فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ صحیح، رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر (۱ / ۱۳۸ ح ۱۸۲) و مسلم و احمد (۳ /۲۵۹)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه البيھقي في الدعوات الکبير (138/1 ح 182) [و مسلم (895) و أحمد (259/3)]»
وعن سهل بن سعد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: كان يجعل اصبعيه حذاء منكبيه ويدعو وَعَن سهل بن سَعْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ يَجْعَل أصبعيه حذاء مَنْكِبَيْه وَيَدْعُو
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں کے برابر کیا کرتے تھے اور دعا فرماتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر (۱ / ۱۴۰ ح ۱۸۵) و صححہ الحاکم (۱ / ۵۳۵، ۵۳۶ ح ۱۹۶۴) و ابوداؤد (۱۱۰۵)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه البيھقي في الدعوات الکبير (1/ 140 ح 185) [وصححه الحاکم (1/ 535. 536 ح 1964) ووافقه الذهبي و أصله عند أبي داود (1105) بلفظ آخر وسنده حسن] تنبيه: اسناده ضعيف، عبدالرحمٰن بن معاوية بن الحويرث مختلف فيه، ضعفه الجمھور وھو الراجح، وانظر انوار الصحيفه، ص 186»
وعن السائب بن يزيد عن ابيه ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دعا فرفع يديه مسح وجهه بيديه روى البيهقي الاحاديث الثلاثة في «الدعوات الكبير» وَعَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا فَرفع يَدَيْهِ مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ رَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَة فِي «الدَّعْوَات الْكَبِير»
سائب بن یزید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کیا کرتے تھے تو آپ ہاتھ اٹھاتے اور پھر اپنے ہاتھ چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ امام بیہقی نے تینوں احادیث ”الدعوات الکبیر“ میں روایت کی ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر (۱ / ۱۳۹، ۱۴۰ ح ۱۸۱) و ابوداؤد (۱۴۹۲)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في الدعوات الکبير (139/1. 140 ح 181) [من حديث أبي داود وھذا في سننه (1492)] ٭ فيه حفص بن ھاشم: مجھول.»
وعن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: المسالة ان ترفع يديك حذو منكبيك او نحوهما والاستغفار ان تشير باصبع واحدة والابتهال ان تمد يديك جميعا وفي رواية قال: والابتهال هكذا ورفع يديه وجعل ظهورهما مما يلي وجهه. رواه ابو داو وَعَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: الْمَسْأَلَةُ أَنْ تَرْفَعَ يَدَيْكَ حَذْوَ مَنْكِبَيْكَ أَوْ نَحْوِهِمَا وَالِاسْتِغْفَارُ أَنْ تُشِيرَ بِأُصْبُعٍ وَاحِدَةٍ وَالِابْتِهَالُ أَنْ تَمُدَّ يَدَيْكَ جَمِيعًا وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: والابتهالُ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَجَعَلَ ظُهُورَهُمَا مِمَّا يَلِي وَجْهَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُ
عکرمہ ؒ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، دعا (کا ادب) یہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ کندھوں یا تقریباً کندھوں کے برابر اٹھاؤ، طلبِ مغفرت (کا ادب) یہ ہے کہ تم ایک انگلی (انگشت شہادت) کے ساتھ اشارہ کرو اور تضرع عاجزی یہ ہے تم اپنے دونوں ہاتھ دراز کر دو۔ اور ایک روایت میں ہے، فرمایا: تضرع و عاجزی اس طرح ہے اور انہوں نے اپنے ہاتھ اس قدر بلند کیے اور ہاتھوں کی پشت کو اپنے چہرے کی طرف کیا۔ حسن، رواہ ابوداؤد (۱۴۸۹، ۱۴۹۰)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (1489. 1490)»
وعن ابن عمر انه يقول: إن رفعكم ايديكم بدعة ما زاد رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا يعني إلى الصدر رواه احمد وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ يَقُولُ: إِنَّ رَفْعَكُمْ أَيْدِيَكُمْ بِدْعَةٌ مَا زَادَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا يَعْنِي إِلَى الصَّدْر رَوَاهُ أَحْمد
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے: تمہارا (دعا کے لیے) ہاتھ اٹھانا بدعت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (یعنی) سینے سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد (۲ / ۶۱ ح ۵۲۶۴)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (61/2 ح 5264) ٭ فيه بشر بن حرب الندبي: ضعيف ضعفه الجمھور.»
وعن ابي بن كعب قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذكر احدا فدعا له بدا بنفسه رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن غريب صحيح وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَهُ بَدَأَ بِنَفْسِهِ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيح
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کو یاد فرماتے تو اس کے لیے دعا فرماتے اور پہلے اپنے لیے کرتے۔ ترمذی۔ اور فرمایا: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی (۳۳۸۵) و ابوداؤد (۳۹۸۴)
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (3385) [و أبو داود (3984) و أصله عند مسلم في صحيحه (2380) مطولاً]»
وعن ابي سعيد الخدري ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا اعطاه الله بها إحدى ثلاث: إما ان يعجل له دعوته وإما ان يدخرها له في الآخرة وإما ان يصرف عنه من السوء مثلها قالوا: إذن نكثر قال: «الله اكثر» . رواه احمد وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ يُعَجِّلَ لَهُ دَعْوَتَهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عنهُ من السُّوءِ مثلَها قَالُوا: إِذنْ نُكثرُ قَالَ: «الله أَكثر» . رَوَاهُ أَحْمد
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی نہ ہو تو اللہ اس وجہ سے تین چیزوں میں سے کوئی ایک اسے عطا فرما دیتا ہے: یا تو اس کی دعا فوراً قبول فرما لیتا ہے یا اسے اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر لیتا ہے یا ��ھر اس کی مثل تکلیف اس سے دور فرما دیتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، تب تو ہم زیادہ دعائیں کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ (دعائیں قبول کرنے میں) بہت زیادہ ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد (۳ / ۱۸ ح ۱۱۱۵۰) و عبد بن حمید (۹۳۷) و البخاری فی الادب المفرد (۷۱۰) و صححہ الحاکم (۱ / ۴۶۳)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (18/3 ح 11150) [و عبد بن حميد (937) و البخاري في الأدب المفرد (710) و صححه الحاکم (463/1) ووافقه الذهبي]»
وعن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال خمس دعوات يستجاب لهن: دعوة المظلوم حتى ينتصر ودعوة الحاج حتى يصدر ودعوة المجاهد حتى يقعد ودعوة المريض حتى يبرا ودعوة الاخ لاخيه بظهر الغيب. ثم قال: «واسرع هذه الدعوات إجابة دعوة الاخ لاخيه بظهر الغيب» . رواه البيهقي في الدعوات الكبير وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسُ دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ: دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ حَتَّى يَنْتَصِرَ وَدَعْوَةُ الْحَاجِّ حَتَّى يَصْدُرَ وَدَعْوَةُ الْمُجَاهِدِ حَتَّى يَقْعُدَ وَدَعْوَةُ الْمَرِيضِ حَتَّى يَبْرَأَ وَدَعْوَةُ الْأَخِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ. ثُمَّ قَالَ: «وَأَسْرَعُ هَذِهِ الدَّعْوَات إِجَابَة دَعْوَة الْأَخ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعَوَاتِ الْكَبِيرِ
ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ دعائیں ہیں جو قبول کی جاتی ہیں: مظلوم کی دعا حتی کہ وہ انتقام لے لے، حاجی کی دعا حتیٰ کہ وہ واپس آ جائے، مجاہد کی دعا حتیٰ کہ وہ (جہاد سے) فارغ ہو جائے۔ مریض کی دعا حتیٰ کہ وہ صحت یاب ہو جائے اور بھائی کی دعا جو وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں کرتا ہے۔ “ پھر فرمایا: ”ان دعاؤں میں بھائی کی غائبانہ دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر (لم اجدہ و رواہ فی شعب الایمان: ۱۱۲۵، نسخۃ محققۃ: ۱۰۸۷)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في الدعوات الکبير (لم أجده و رواه في شعب الإيمان: 1125، نسخة محققة: 1087) ٭ فيه عبد الرحمٰن بن زيد (کذا) و لعله عبد الرحيم بن زيد العمي کذاب، رواه عن أبيه عن سعيد بن جبير عن ابن عباس به و فيه يونس بن أفلح لم أجد من وثقه و زيد العمي ضعيف مشھور.»
عن ابي هريرة وابي سعيد رضي الله عنهما قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يقعد قوم يذكرون الله إلا حفتهم الملائكة وغشيتهم الرحمة ونزلت عليهم السكينة وذكرهم الله فيمن عنده» . رواه مسلم عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فَيْمَنْ عِنْدَهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب کچھ لوگ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے ہاں فرشتوں کے پاس اس کا تذکرہ فرماتا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (39/ 2700)»
وعن ابي هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في طريق مكة فمر على جبل يقال له: جمدان فقال: «سيروا هذا جمدان سبق المفردون» . قالوا: وما المفردون؟ يا رسول الله قال: «الذاكرون الله كثيرا والذاكرات» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ فَمَرَّ عَلَى جَبَلٍ يُقَالُ لَهُ: جُمْدَانُ فَقَالَ: «سِيرُوا هَذَا جُمْدَانُ سَبَقَ الْمُفَرِّدُونَ» . قَالُوا: وَمَا الْمُفَرِّدُونَ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «الذَّاكِرُونَ الله كثيرا وَالذَّاكِرَات» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کی شاہ راہ پر محو سفر تھے، آپ جُمدان نامی پہاڑ کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”چلتے جاؤ یہ جمدان ہے۔ “ پھر فرمایا: ”مفردون سبقت لے گئے۔ “ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مفردون کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1676/4)»