وعن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: المسالة ان ترفع يديك حذو منكبيك او نحوهما والاستغفار ان تشير باصبع واحدة والابتهال ان تمد يديك جميعا وفي رواية قال: والابتهال هكذا ورفع يديه وجعل ظهورهما مما يلي وجهه. رواه ابو داو وَعَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: الْمَسْأَلَةُ أَنْ تَرْفَعَ يَدَيْكَ حَذْوَ مَنْكِبَيْكَ أَوْ نَحْوِهِمَا وَالِاسْتِغْفَارُ أَنْ تُشِيرَ بِأُصْبُعٍ وَاحِدَةٍ وَالِابْتِهَالُ أَنْ تَمُدَّ يَدَيْكَ جَمِيعًا وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: والابتهالُ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَجَعَلَ ظُهُورَهُمَا مِمَّا يَلِي وَجْهَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُ
عکرمہ ؒ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، دعا (کا ادب) یہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ کندھوں یا تقریباً کندھوں کے برابر اٹھاؤ، طلبِ مغفرت (کا ادب) یہ ہے کہ تم ایک انگلی (انگشت شہادت) کے ساتھ اشارہ کرو اور تضرع عاجزی یہ ہے تم اپنے دونوں ہاتھ دراز کر دو۔ اور ایک روایت میں ہے، فرمایا: تضرع و عاجزی اس طرح ہے اور انہوں نے اپنے ہاتھ اس قدر بلند کیے اور ہاتھوں کی پشت کو اپنے چہرے کی طرف کیا۔ حسن، رواہ ابوداؤد (۱۴۸۹، ۱۴۹۰)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (1489. 1490)»