وعن ابي هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما الحمد لله على كل حال واعوذ بالله من حال اهل النار» . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب إسنادا وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي وَزِدْنِي عِلْمًا الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادًا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! تو نے مجھے جو علم عطا کیا اس سے مجھے فائدہ پہنچا، اور مجھے ایسا علم عطا فرما جو مجھے فائدہ پہنچائے اور میرے علم میں اضافہ فرما، ہر حال میں اللہ کا شکر ہے اور میں جہنمیوں کے حال سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ “ ترمذی، ابن ماجہ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث سنداً غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3599) و ابن ماجه (251، 3833) ٭ فيه موسي بن عبيدة و محمد بن ثابت: ضعيفان.»
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا انزل عليه الوحي سمع عند وجهه دوي كدوي النحل فانل عليه يوما فمكثنا ساعة فسري عنه فاستقبل القبلة ورفع يديه وقال: «اللهم زدنا ولا تنقصنا واكرمنا ولا تهنا واعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علينا وارضنا وارض عنا» . ثم قال: «انزل علي عشر آيات من اقامهن دخل الجنة» ثم قرا: (قد افلح المؤمنون) حتى ختم عشر آيات. رواه احمد والترمذي وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ سُمِعَ عِنْدَ وَجْهِهِ دوِي كَدَوِيِّ النَّحْل فأنل عَلَيْهِ يَوْمًا فَمَكَثْنَا سَاعَةً فَسُرِّيَ عَنْهُ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَأَكْرِمْنَا وَلَا تُهِنَّا وَأَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا وَأَرْضِنَا وَارْضَ عَنَّا» . ثُمَّ قَالَ: «أُنْزِلَ عَلَيَّ عَشْرُ آيَاتٍ مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ» ثُمَّ قَرَأَ: (قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ) حَتَّى خَتَمَ عَشْرَ آيَاتٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيّ
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرے کے پاس شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی، ایک روز آپ پر وحی نازل ہوئی تو ہم نے تھوڑی دیر انتظار کیا، آپ سے وہ کیفیت جاتی رہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھائے اور یوں دعا کی: ”اے اللہ! ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمیں عزت عطا کرنا، ذلیل نہ کرنا، ہمیں عطا کرنا، محروم نہ رکھنا، ہمیں ترجیح دینا اور ہمارے خلاف کسی کو ترجیح نہ دینا، ہمیں راضی کر اور ہم سے راضی ہو جا۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں، جو ان کی حفاظت و خیال کرے گا جنت میں داخل ہو گا۔ “ پھر آپ نے (قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ) سے دس آیات تلاوت فرمائی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (34/1 ح 223) والترمذي (3173) ٭ يونس بن سليم: مجھول، و قال النسائي في الکبري (1439): ’’ھذا حديث منکر و يونس بن سليم لا نعرفه‘‘ و صححه الحاکم (535/1، 392/4) فتعقبه الذهبي.»
عن عثمان بن حنيف قال: إن رجلا ضرير البصر اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله ان يعافيني فقال: «إن شئت دعوت وإن شئت صبرت فهو خير لك» . قال: فادعه قال: فامره ان يتوضا فيحسن الوضوء ويدعو بهذا الدعاء: «اللهم إني اسالك واتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي ليقضي لي في حاجتي هذه اللهم فشفعه في» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب عَن عثمانَ بنِ حُنَيفٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ» . قَالَ: فَادْعُهُ قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ الْوُضُوءَ وَيَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي لِيَقْضِيَ لِي فِي حَاجَتِي هَذِهِ اللهُمَّ فشفّعْه فيَّ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيب
عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک نابینا شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا، اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے عافیت عطا فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم چاہو تو میں دعا کرتا ہوں اور اگر تم چاہو تو صبر کرو تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ “ اس نے عرض کیا، آپ اللہ سے دعا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ خوب اچھی طرح وضو کرے اور ان الفاظ کے ساتھ دعا کرے: ”اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی، نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، بے شک میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اپنے رب کی طرف توجہ کی تاکہ میری اس حاجت کے بارے میں میرے حق میں فیصلہ کیا جائے، اے اللہ! میرے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔ “ ترمذی۔ اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3578) ٭ ھذا الحديث يدل علي التوسل بدعاء الصالحين الأحياء و لا يدل علي التوسل بالأموات فافھمه فإنه مھم.»
وعن ابي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كان من دعاء داود يقول: «اللهم إني اسالك حبك وحب من يحبك والعمل الذي يبلغني حبك اللهم اجعل حبك احب إلي من نفسي ومالي واهلي ومن الماء البارد» . قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذكر داود يحدث عنه يقول: «كان اعبد البشر» رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَمَالِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ» . قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ دَاوُدَ يُحَدِّثُ عَنْهُ يَقُولُ: «كَانَ أَعْبَدَ الْبَشَرِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”داؤد ؑ کی یہ دعا تھی: ”اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا، اس شخص کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتا ہو اور اس عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے، اے اللہ! تو اپنی محبت، مجھے میری جان، میرے اہل و عیال، مال اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب بنا دے۔ “ ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داؤد ؑ کا ذکر کرتے تو ان کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے: ”وہ تمام انسانوں سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ “ ترمذی۔ اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3490)»
وعن عطاء بن السائب عن ابيه قال: صلى بنا عمار بن ياسر صلاة فاوجز فيها فقال له بعض القوم: لقد خففت واوجزت الصلاة فقال اما علي ذلك لقد دعوت فيها بدعوات سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قام تبعه رجل من القوم هو ابي غير انه كنى عن نفسه فساله عن الدعاء ثم جاء فاخبر به القوم: «اللهم بعلمك الغيب وقدرتك على الخلق احيني ما علمت الحياة خيرا لي وتوفني إذا علمت الوفاة خيرا لي اللهم واسالك خشيتك في الغيب والشهادة واسالك كلمة الحق في الرضى والغضب واسالك القصد في الفقر والغنى واسالك نعيما لا ينفد واسالك قرة عين لا تنقطع واسالك الرضى بعد القضاء واسالك برد العيش بعد الموت واسالك لذة النظر إلى وجهك والشوق إلى لقائك في غير ضراء مضرة ولا فتنة مضلة اللهم زينا بزينة الإيمان واجعلنا هداة مهديين» . رواه النسائي وَعَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ صَلَاةً فَأَوْجَزَ فِيهَا فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: لَقَدْ خَفَّفْتَ وَأَوْجَزْتَ الصَّلَاةَ فَقَالَ أَمَا عَلَيَّ ذَلِكَ لَقَدْ دَعَوْتُ فِيهَا بِدَعَوَاتٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَامَ تَبِعَهُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ هُوَ أَبِي غَيْرَ أَنَّهُ كَنَّى عَنْ نَفْسِهِ فَسَأَلَهُ عَنِ الدُّعَاءِ ثُمَّ جَاءَ فَأَخْبَرَ بِهِ الْقَوْمَ: «اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ وقُدرتِكَ على الخَلقِ أَحْيني مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي اللَّهُمَّ وَأَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَأَسْأَلُكَ كَلِمَةَ الْحَقِّ فِي الرِّضَى وَالْغَضَبِ وَأَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى وَأَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَنْفَدُ وَأَسْأَلُكَ قُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ وَأَسْأَلُكَ الرِّضَى بَعْدَ الْقَضَاءِ وَأَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقِ إِلَى لِقَائِكَ فِي غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ اللَّهُمَّ زِيِّنَا بِزِينَةِ الْإِيمَانِ وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مَهْدِيِّينَ» . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ
عطا بن سائب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو اس میں اختصار کیا تو کچھ لوگوں نے انہیں کہا: آپ نے نماز میں تخفیف اور اختصار کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا، میں نے اس میں کچھ دعائیں کی ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھیں، جب وہ (جانے کے لئے) کھڑے ہوئے تو ان لوگوں میں سے ایک آدمی، وہ میرے والد ہی تھے لیکن انہوں نے اپنا نام چھپائے رکھا، ان کے پیچھے پیچھے گیا اور ان سے دعا کے متعلق دریافت کیا، پھر واپس آ کر اسے لوگوں کو بتایا: ”اے اللہ! اپنے علم غیب اور مخلوق پر اپنی قدرت کے ذریعے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک میرا زندہ رہنا تیرے علم کے مطابق میرے لئے بہتر ہو۔ اور جب تو سمجھے کہ میرا فوت ہونا میرے لئے بہتر ہے تو مجھے فوت کر دینا، اے اللہ! میں غیب و حاضر میں تجھ سے کلمہ حق کا سوال کرتا ہوں، میں فقر و غنی میں تجھ سے میانہ روی کا سوال کرتا ہوں، میں ختم نہ ہونے والی نعمتوں کا تجھ سے سوال کرتا ہوں، میں منقطع نہ ہونے والی آنکھوں کی ٹھنڈک کا تجھ سے سوال کرتا ہوں، میں قضا کے بعد رضا کا تجھ سے سوال کرتا ہوں، میں موت کے بعد خوشگوار زندگی کا تجھ سے سوال کرتا ہوں، میں کسی شدید تکلیف اور گمراہ کن فتنے کے بغیر تیری ملاقات کے شوق اور تیرے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا تجھ سے سوال کرتا ہوں، اے اللہ! زینت ایمان سے ہمیں مزین فرما اور ہمیں ہدایت پر ثابت رہنے والے ہادی بنا۔ “ حسن، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه النسائي (75/3 ح 1307) [و صححه ابن حبان: 509]»
وعن ام سلمة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر صلاة الفجر: «اللهم إني اسالك علما نافعا وعملا متقبلا ورزقا طيبا» . رواه احمد وابن ماجه والبيهقي في الدعوات الكبير وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْفَجْرِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا وَرِزْقًا طَيِّبًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيّ فِي الدَّعوات الْكَبِير
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، مقبول عمل اور حلال رزق کا سوال کرتا ہوں۔ “ صحیح، رواہ احمد و ابن ماجہ و البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (294/6 ح 27056) و ابن ماجه (925) والبيھقي في الدعوات الکبير (76/1 ح 99)»
وعن ابي هريرة قال: دعاء حفظته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لا ادعه: «اللهم اجعلني اعظم شكرك واكثر ذكرك واتبع نصحك واحفظ وصيتك» . رواه الترمذي وَعَن أبي هريرةَ قَالَ: دُعَاءٌ حَفِظْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا أَدَعُهُ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أُعْظِمُ شُكْرَكَ وَأُكْثِرُ ذِكْرَكَ وَأَتَّبِعُ نُصْحَكَ وَأَحْفَظُ وصيتك» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دعا یاد کی جسے میں چھوڑتا نہیں: ”اے اللہ! مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا بہت زیادہ شکر کروں، تیرا بہت زیادہ ذکر کروں، تیری نصیحت کی بہت اتباع کروں اور تیرے احکام کو بہت زیادہ یاد کروں۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2/3604 وقال: صحيح) ٭ فيه أبو فضالة الفرج بن فضالة: ضعيف وأبو سعيد: مجھول وھو غير المقبري الثقة، راجع تقريب التھذيب وغيره»
وعن عبد الله بن عمرو قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اللهم إني اسالك الصحة والعفة والامانة وحسن الخلق والرضى بالقدر» وَعَن عبدِ الله بنِ عَمْروٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ وَالْعِفَّةَ والأمانةَ وحُسنَ الْخلق والرضى بِالْقدرِ»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں تجھ سے صحت، عفت، امانت، حسن اخلاق اور تقدیر پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في الدعوات الکبير (169/1 ح 228. 229) ٭ فيه عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم و شيخه عبد الرحمٰن بن رافع: ضعيفان.»
وعن ام معبد قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اللهم طهر قلبي من النفاق وعملي من الرياء ولساني من الكذب وعيني من الخيانة فإنك تعلم خائنة الاعين وما تخفي الصدور» . رواهما البيهقي في الدعوات الكبير وَعَن أُمِّ مَعْبدٍ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِي مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِي مِنَ الرِّيَاءِ وَلِسَانِي مِنَ الْكَذِبِ وَعَيْنِي مِنَ الْخِيَانَةِ فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ» . رَوَاهُمَا الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعَوَاتِ الْكَبِيرِ
ام معبد رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: ”اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریا سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک کر دے، کیونکہ تو خیانت کرنے والی آنکھوں کو جانتا ہے اور جو کچھ سینے (دل) چھپاتے ہیں (تو اسے بھی جانتا ہے۔ “ امام بیہقی نے دونوں روایتیں الدعوات الکبیر میں روایت کی ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في الدعوات (168/1 ح 227) ٭ فيه فرج بن فضالة عن عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم و ھما ضعيفان.»
وعن انس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد رجلا من المسلمين قد خفت فصار مثل الفرخ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل كنت تدعو الله بشيء او تساله إياه؟» . قال: نعم كنت اقول: اللهم ما كنت معاقبي به في الآخرة فعجله لي في الدنيا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سبحان الله لا تطيقه ولا تستطيعه افلا قلت: اللهم آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار. قال: فدعا الله به فشفاه الله. رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَدْ خَفَتَ فَصَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ كُنْتَ تَدْعُو اللَّهَ بِشَيْءٍ أَوْ تَسْأَلُهُ إِيَّاهُ؟» . قَالَ: نَعَمْ كُنْتُ أَقُولُ: اللَّهُمَّ مَا كُنْتَ مُعَاقِبِي بِهِ فِي الْآخِرَةِ فَعَجِّلْهُ لِي فِي الدُّنْيَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سُبْحَانَ اللَّهِ لَا تُطِيقُهُ وَلَا تَسْتَطِيعُهُ أَفَلَا قُلْتَ: اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. قَالَ: فَدَعَا الله بِهِ فشفاه الله. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسلمان شخص کی عیادت کی، وہ پرندے کے بچے کی طرح کمزور ہو چکا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس کی یہ حالت دیکھ ��ر) اسے فرمایا: ”کیا تم اللہ سے کوئی دعا یا کسی خاص چیز کا سوال کرتے ہو؟“ اس نے عرض کیا، جی ہاں، میں کہا کرتا تھا: اے اللہ! تو نے جو مجھے آخرت میں سزا دینی ہے وہ تو مجھے دنیا میں دے لے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! تم (دنیا میں) اس کی طاقت رکھتے ہو نہ تم (آخرت میں) اس کی استطاعت رکھتے ہو، تم نے ایسے کیوں نہ کہا: اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، اس شخص نے ان کلمات کے ذریعے دعا کی تو اللہ نے اسے شفا عطا کر دی۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2688/23)»