وعن ابي هريرة قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ما لقيت من عقرب لدغتني البارحة قال: اما لو قلت حين امسيت: اعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق لم تضرك. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَقِيتُ مِنْ عَقْرَبٍ لَدَغَتْنِي الْبَارِحَةَ قَالَ: أَمَا لَوْ قُلْتَ حِينَ أَمْسَيْتَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خلق لم تَضُرك. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا تو اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! گزشتہ رات بچھو کے کاٹنے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سن لو! اگر تم نے شام کے وقت یوں کہا ہوتا: ”میں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعے، اس چیز کے شر سے، جو اس نے پیدا فرمائی، پناہ چاہتا ہوں تو وہ تمہیں نقصان نہ پہنچاتا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2709/55)»
وعنه ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا كان في سفر واسحر يقول: «سمع سامع يحمد الله وحسن بلائه علينا وربنا صاحبنا وافضل علينا عائذا بالله من النار» . رواه مسلم وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا كَانَ فِي سَفَرٍ وَأَسْحَرَ يَقُولُ: «سمع سامع يحمد الله وَحسن بلائه علينا وربنا صَاحِبْنَا وَأَفْضِلْ عَلَيْنَا عَائِذًا بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور سحری کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”سننے والے نے سن لیا کہ ہم نے اللہ کی حمد بیان کی، اس کی نعمتیں ہم پر اچھی ہیں، ہمارے رب! ہماری اعانت فرما، اور ہم پر مزید احسانات فرما، ہم جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2718/68)»
وعن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قفل من غزو او حج او عمرة يكبر على كل شرف من الارض ثلاث تكبيرات ثم يقول: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدق الله وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده» وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوٍ أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الْأَرْضِ ثَلَاثَ تَكْبِيرَاتٍ ثُمَّ يَقُولُ: «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كلِّ شيءٍ قديرٌ آيِبونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ»
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس تشریف لاتے تو آپ ہر بلند جگہ پر تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر فرماتے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، واپس لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عب��دت کرنے والے، سجدہ کرنے والے، اپنے رب کی حمد بیان کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست دی۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1797) و مسلم (1344/428)»
وعن عبد الله بن ابي اوفى قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاحزاب على المشركين فقال: «اللهم منزل الكتاب سريع الحساب اللهم اهزم الاحزاب اللهم اهزمهم وزلزلهم» وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ عَلَى الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اللَّهُمَّ اهْزِمِ الأحزابَ اللهُمَّ اهزمهم وزلزلهم»
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقع پر مشرکین کے خلاف دعا کی تو عرض کیا: ”اے اللہ! کتاب اتارنے والے، جلد حساب لینے والے، اے اللہ! لشکروں کو شکست دے، اے اللہ! انہیں خوب شکست دے اور انہیں ہلا کر رکھ دے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2933) و مسلم (1742/21)»
وعن عبد الله بن يسر قال: نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابي فقربنا إليه طعاما ووطبة فاكل منها ثم اتي بتمر فكان ياكله ويلقي النوى بين اصبعيه ويجمع السبابة والوسطى وفي رواية: فجعل يلقي النوى على ظهر اصبعيه السبابة والوسطى ثم اتي بشراب فشربه فقال ابي واخذ بلجام دابته: ادع الله لنا فقال: «اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم» . رواه مسلم وَعَن عبد الله بن يسر قَالَ: نَزَلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي فَقَرَّبْنَا إِلَيْهِ طَعَامًا وَوَطْبَةً فَأَكَلَ مِنْهَا ثُمَّ أُتِيَ بِتَمْرٍ فَكَانَ يَأْكُلُهُ وَيُلْقِي النَّوَى بَيْنَ أُصْبُعَيْهِ وَيَجْمَعُ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى وَفِي رِوَايَةٍ: فَجَعَلَ يُلْقِي النَّوَى عَلَى ظَهْرِ أُصْبُعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى ثُمَّ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ فَقَالَ أَبِي وَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِهِ: ادْعُ اللَّهَ لَنَا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ واغفرْ لَهُم وارحمهم» . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے والد کے پاس تشریف لائے تو ہم نے کھانا اور کھجور، گھی اور پنیر سے تیار کردہ حلوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اس سے تناول فرمایا، پھر کھجوریں پیش کی گئیں تو آپ انہیں کھاتے اور گٹھلیاں اپنی دو انگلیوں کے درمیان پھینکتے جاتے، آپ انگشت شہادت اور درمیانی انگلی اکٹھی کرتے تھے، اور ایک دوسری روایت میں ہے، آپ گٹھلیاں اپنی دونوں انگلیوں، انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی پشت پر پھینک رہے تھے، پھر پانی پیش کیا گیا تو آپ نے اسے نوش فرمایا، پھر میرے والد نے آپ کی سواری کی لگام پکڑتے ہوئے عرض کیا: ہمارے لئے اللہ سے دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! تو نے جو کچھ انہیں عطا کیا ہے اس میں برکت فرما، ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2042/146)»
عن طلحة بن عبيد الله ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا راى الهلال قال: «اللهم اهله علينا بالامن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله» . رواه الترمذي. وقال: هذا حديث حسن غريب عَن طلحةَ بنِ عبيدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چاند دیکھتے تو آپ یہ دعا پڑھتے تھے: ”اے اللہ! تو اسے امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3451) ٭ سليمان بن سفيان المديني: ضعيف، و بلال بن يحيي بن طلحة: لين و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن عمر بن الخطاب وابي هريرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من رجل راى مبتلى فقال: الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاك به وفضلني على كثير ممن خلق تفضيلا إلا لم يصبه ذلك البلاء كائنا ما كان. رواه الترمذي وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ رَجُلٍ رَأَى مُبْتَلًى فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا إِلَّا لَمْ يُصِبْهُ ذَلِكَ الْبَلَاءُ كَائِنا مَا كانَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مصیبت زدہ شخص کو دیکھ کر یہ دعا پڑھتا ہے: ”ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے اس چیز سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا کیا ہے، اور اس نے مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر بہت زیادہ فضیلت دی۔ “ تو اسے وہ مصیبت و بیماری نہیں پہنچے گی خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3431 وقال: غريب) وسنده ضعيف، فيه عمرو بن دينار قھرمان آل الزبير ضعيف و روي البزار (البحر الزخار 12/ 185 ح 5838) بسند حسن و الطبراني (الأوسط: 5320) عن ابن عمر قال قال رسول الله ﷺ: ’’من رأي مصابًا فقال: الحمد للّٰه الذي عافاني مما ابتلاک به و فضلني علي کثير ممن خلق تفضيلا، لم يصبه ذلک البلاء أبدًا.‘‘ و حسنه ابن القطان الفاسي في أحکام النظر (ص 421)»
ورواه ابن ماجه عن ابن عمر. وقال الترمذي هذا حديث غريب وعمرو بن دينار الراوي ليس بالقوي وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنِ ابْنِ عُمَرَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ الرَّاوِي لَيْسَ بِالْقَوِيّ
ابن ماجہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور عمرو بن دینار راوی قوی نہیں۔ حسن، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه ابن ماجه (3892)»
وعن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من دخل السوق فقال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو على كل شيء قدير كتب الله له الف الف حسنة ومحا عنه الف الف سيئة ورفع له الف الف درجة وبنى له بيتا في الجنة. رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب وفي شرح السنة: «من قال في سوق جامع يباع فيه» بدل «من دخل السوق» وَعَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ دَخَلَ السُّوقَ فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفَ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفَ سَيِّئَةٍ وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفَ دَرَجَةٍ وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي شَرْحِ السُّنَّةِ: «مَنْ قَالَ فِي سُوقٍ جَامِعٍ يباعُ فِيهِ» بدل «من دخل السُّوق»
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت اور حمد ہے، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، ہر قسم کی خیرو بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ تو اللہ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھ لیتا ہے، اس کی دس لاکھ خطائیں معاف کر دیتا ہے، اس کے دس لاکھ درجات بلند کر دیتا ہے اور اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔ “ ترمذی، ابن ماجہ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اور شرح السنہ میں ”جو شخص بازار میں جائے“ کے الفاظ کے بجائے ”جس نے کسی بڑے تجارتی مرکز میں یہ دعا پڑھی۔ “ کے الفاظ ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3428) و ابن ماجه (2235) والبغوي في شرح السنة (132/5 ح 1338) ٭ فيه عمرو بن دينار قھرمان آل الزبير: ضعيف و للحديث شواھد ضعيفة و أخطأ من صححه بتلک الشواھد الضعيفة.»
وعن معاذ بن جبل قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو يقول: اللهم إني اسالك تمام النعمة فقال: «اي شيء تمام النعمة؟» قال: دعوة ارجو بها خيرا فقال: «إن من تمام النعمة دخول الجنة والفوز من النار» . وسمع رجلا يقول: يا ذا الجلال والإكرام فقال: «قد استجيب لك فسل» . وسمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا وهو يقول: اللهم إني اسالك الصبر فقال: «سالت الله البلاء فاساله العافية» . رواه الترمذي وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو يَقُولُ: اللهُمَّ إِني أسألكَ تمامَ النعمةِ فَقَالَ: «أيُّ شَيْءٍ تَمَامُ النِّعْمَةِ؟» قَالَ: دَعْوَةٌ أَرْجُو بِهَا خَيْرًا فَقَالَ: «إِنَّ مِنْ تَمَامِ النِّعْمَةِ دُخُولَ الْجَنَّةِ وَالْفَوْزَ مِنَ النَّارِ» . وَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ فَقَالَ: «قَدِ اسْتُجِيبَ لَكَ فَسَلْ» . وَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ فَقَالَ: «سَأَلْتَ اللَّهَ الْبَلَاءَ فَاسْأَلْهُ الْعَافِيَةَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو ان الفاظ کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنا: ”اے اللہ! میں تجھ سے اتمام نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ “ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کون سی چیز اتمام نعمت ہے؟“ اس نے کہا: دعا جس کے ذریعے میں خیر (مال کثیر) کی امید کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اتمام نعمت تو جنت میں داخلہ اور جہنم سے خلاصی ہے۔ “ اور آپ نے کسی دوسرے آدمی کو دعا کرتے ہوئے سنا: ”اے جلال و اکرام والے!“ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری دعا قبول ہو گئی، اب سوال کرو۔ “ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو دعا کرتے ہوئے سنا: ”اے اللہ! میں تجھ سے صبر کا سوال کرتا ہوں۔ “ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اللہ سے مصیبت مانگی ہے، اس سے عافیت کا سوال کرو۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3527)»