وعن جابر قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم عيد خالف الطريق. رواه البخاري وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيق. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ جب عید کا دن ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (عید گاہ آتے جاتے) راستہ تبدیل کیا کرتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (986)»
وعن البراء قال: خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر فقال: «إن اول ما نبدا به في يومنا هذا ان نصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد اصاب سنتنا ومن ذبح قبل ان نصلي فإنما هو شاة لحم عجله لاهله ليس من النسك في شيء» وَعَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ: «إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ نُصَلِّيَ فَإِنَّمَا هُوَ شَاةُ لَحْمٍ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ»
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، قربانی کے دن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطاب کیا تو فرمایا: ”آج کے دن ہم پہلے نماز پڑھیں گے پھر واپس جا کر قربانی کریں گے۔ جس نے ایسے کیا تو اس نے سنت کے مطابق کیا، اور جس نے ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کر لی تو وہ گوشت کی بکری ہے (محض گوشت کھانے کے لیے ذبح کی گئی ہے) اس نے اپنے اہل و عیال کے لیے جلدی ذبح کر لی، اس میں قربانی کا کوئی ثواب نہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (968) و مسلم (1961/7)»
وعن جندب بن عبد الله البجلي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ذبح قبل الصلاة فليذبح مكانها اخرى ومن لم يذبح حتى صلينا فليذبح على اسم الله» وَعَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيَذْبَحْ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ على اسْم الله»
جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کر لے تو وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے، اور جو شخص نماز عید کے بعد ذبح کرے تو اسے اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5500) و مسلم (1960/1)»
وعن البراء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ذبح قبل الصلاة فإنما يذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه واصاب سنة المسلمين» وَعَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا يَذْبَحُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسلمين»
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے نماز عید سے پہلے ذبح کر لیا تو اس نے محض اپنی ذات کی خاطر ذبح کیا، اور جس نے نماز عید کے بعد ذبح کیا تو اس کی قربانی مکمل ہوئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کے مطابق کی۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5546) و مسلم (1961/4)»
وعن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يذبح وينحر بالمصلى. رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْبَحُ وَيَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گائے اور اونٹ عید گاہ میں ذبح کیا کرتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (982)»
عن انس قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما فقال: «ما هذان اليومان؟» قالوا: كنا نلعب فيهما في الجاهلية فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد ابدلكم الله بهما خيرا منهما: يوم الاضحى ويوم الفطر. رواه ابو داود عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَقَالَ: «مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟» قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان (اہل مدینہ) کے دو دن تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا: ”یہ دو دن کیا ہیں؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم دور جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے ان کے بدلے میں تمہیں دو بہترین دن عید الاضحی اور عید الفطر کے عطا فرما دیے ہیں۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1134) [والنسائي (179/3. 180 ح 1557) و صححه الحاکم علٰي شرط مسلم (1/ 294) ووافقه الذهبي.]»
وعن بريدة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم ولا يطعم يوم الاضحى حتى يصلي. رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وَعَن بُرَيْدَة قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يُصَلِّيَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه والدارمي
بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر کے روز کچھ کھا کر عید گاہ جایا کرتے تھے اور عید الاضحی کے روز نماز عید پڑھنے کے بعد کچھ کھایا کرتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (542 و قال: غريب) و ابن ماجه (1756) والدارمي (375/1 ح 1608) [و صححه ابن حبان (593) و ابن خزيمة (1426) والحاکم (1/ 294) ووافقه الذهبي.]»
وعن كثير بن عبد الله عن ابيه عن جده ان النبي صلى الله عليه وسلم كبر في العيدين في الاولى سبعا قبل القراءة وفي الآخرة خمسا قبل القراءة. رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وَعَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ فِي الْأُولَى سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَفِي الْآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه والدارمي
کثیر بن عبداللہ اپنے باپ سے اور وہ (کثیر) کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز عیدین میں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (536 وقال: حسن) و ابن ماجه (1279) والدارمي (لم أجده) [و رواه الدارمي 376/1 ح 1614 من حديث عمار بن سعد المؤذن به و سنده ضعيف.] ٭ السند ضعيف جدًا، کثير بن عبد الله: متروک متھم وللحديث شواھد کثيرة عند أبي داود (1151) وغيره وھو بھا حسن.»
وعن جعفر بن محمد مرسلا ان النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر وعمر كبروا في العيدين والاستسقاء سبعا وخمسا وصلوا قبل الخطبة وجهروا بالقراءة. رواه الشافعي وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ مُرْسَلًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَبَّرُوا فِي الْعِيدَيْنِ وَالِاسْتِسْقَاءِ سَبْعًا وَخَمْسًا وَصَلَّوْا قبل الْخطْبَة وجهروا بِالْقِرَاءَةِ. رَوَاهُ الشَّافِعِي
جعفر بن محمد ؒ مرسل روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے نماز عیدین اور نماز استسقاء میں سات اور (دوسری رکعت میں) پانچ تکبیریں کہیں، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی اور بلند آواز سے قراءت کی۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الشافعي في مسنده (ص 76 ح 336) والأم (236/1) ٭ فيه إبراھيم بن محمد الأسلمي: متروک (تقدم:529)»
وعن سعيد بن العاص قال: سالت ابا موسى وحذيفة: كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الاضحى والفطر؟ فقال ابو موسى: كان يكبر اربعا تكبيره على الجنازه. فقال حذيفة: صدق. رواه ابو داود وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا مُوسَى وَحُذَيْفَةَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى: كَانَ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا تَكْبِيرَهُ على الجنازه. فَقَالَ حُذَيْفَة: صدق. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سعید بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر کی نمازوں میں کیسے تکبیر کہا کرتے تھے؟ تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نماز جنازہ کی تکبیروں کی طرح چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہوں نے سچ فرمایا۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1153) ٭ أبو عائشة مجھول، لم أجد من وثقه.»