وسئل ان بن مالك عن القنوت. فقال: قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الركوع وفي رواية: قبل الركوع وبعده. رواه ابن ماجه وَسُئِلَ أَن بْنُ مَالِكٍ عَنِ الْقُنُوتِ. فَقَالَ: قَنَتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ الرُّكُوعِ وَفِي رِوَايَةٍ: قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کے بعد قنوت کیا، اور ایک روایت میں ہے: رکوع سے پہلے بھی اور بعد بھی۔ حسن، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه ابن ماجه (1183) بلفظ مختلف [و أصله عند البخاري (1001) ومسلم (677)]»
عن زيد بن ثابت: ان النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير فصلى فيها ليالي حتى اجتمع عليه ناس ثم فقدوا صوته ليلة وظنوا انه قد نام فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم. فقال: ما زال بكم الذي رايت من صنيعكم حتى خشيت ان يكتب عليكم ولو كتب عليكم ما قمتم به. فصلوا ايها الناس في بيوتكم فإن افضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة) عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَيْهِ نَاسٌ ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً وَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ. فَقَالَ: مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ. فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْء فِي بَيته إِلَّا الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة)
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں چٹائی کا ایک حجرہ بنا لیا، اور آپ نے چند راتیں اس میں نماز پڑھی، حتیٰ کہ لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہو گئے، پھر ایک رات انہوں نے آپ کی آواز محسوس نہ کی اور انہوں نے گمان کیا کہ آپ سو چکے ہیں، کچھ لوگ کھانسنے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ تم کرتے رہے میں نے اسے دیکھا یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ اسے تم پر فرض نہ کر دیا جائے، اور اگر تم پر فرض کر دی جاتی تو تم اس کا اہتمام نہ کر سکتے، لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو، کیونکہ فرض نماز کے علاوہ آدمی کا گھر نماز پڑھنا افضل ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (731) و مسلم (213/ 781)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: (كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرغب في قيام رمضان من غير ان يامرهم فيه بعزيمة فيقول: «من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه. فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والمر على ذلك ثم كان الامر على ذلك في خلافة ابي بكر وصدرا من خلافة عمر على ذلك» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: (كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْغَبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ: «مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والمر عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عمر على ذَلِك» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی قطعی حکم دیے بغیر قیام رمضان کی ترغیب دیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو معاملہ اسی طرح تھا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں معاملہ اسی طرح تھا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (174 / 759)»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا قضى احدكم الصلاة في مسجده فليجعل لبيته نصيبا من صلاته فإن الله جاعل في بيته من صلاته خيرا» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ فِي مَسْجده فليجعل لبيته نَصِيبا من صلَاته فَإِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صِلَاتِهِ خيرا» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں نماز ادا کرے تو وہ اس کا کچھ حصہ نفل وغیرہ اپنے گھر میں بھی ادا کرے، کیونکہ اللہ اس کی نماز کی وجہ سے اس کے گھر میں خیر و برکت فرمائے گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (778/210)»
عن ابي ذر قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان فلم يقم بنا شيئا من الشهر حتى بقي سبع فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل فلما كانت السادسة لم يقم بنا فلما كانت الخامسة قام بنا حتى ذهب شطر الليل فقلت: يارسول الله لو نفلتنا قيام هذه الليلة. قال فقال: «إن الرجل إذا صلى مع الإمام حتى ينصرف حسب له قيام الليلة» . قال: فلما كانت الرابعة لم يقم فلما كانت الثالثة جمع اهله ونساءه والناس فقام بنا حتى خشينا ان يفوتنا الفلاح. قال قلت: وما الفلاح؟ قال: السحور. ثم لم يقم بنا بقية الشهر. رواه ابو داود والترمذي والنسائي وروى ابن ماجه نحوه إلا ان الترمذي لم يذكر: ثم لم يقم بنا بقية الشهر عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذهب شطر اللَّيْل فَقلت: يارسول الله لَو نفلتنا قيام هَذِه اللَّيْلَة. قَالَ فَقَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى ينْصَرف حسب لَهُ قيام اللَّيْلَة» . قَالَ: فَلَمَّا كَانَت الرَّابِعَة لم يقم فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ. قَالَ قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السَّحُورُ. ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَرَوَى ابْنُ مَاجَهْ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّ التِّرْمِذِيَّ لَمْ يَذْكُرْ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّة الشَّهْر
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے، آپ نے اس ماہ میں ہمیں تراویح نہ پڑھائی حتیٰ کہ سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمیں تراویح پڑھائی حتیٰ کہ تہائی رات بیت گئی، جب چھٹی رات ہوئی تو آپ نے ہمیں تراویح نہ پڑھائی، جب پانچویں رات ہوئی تو آپ نے ہمیں تراویح پڑھائی حتیٰ کہ نصف شب بیت گئی۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کاش کہ آپ اس رات کے قیام کو بڑھا دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے حتیٰ کہ وہ فارغ ہوتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ “ جب چوتھی رات آئی تو آپ نے ہمیں نماز تراویح نہ پڑھائی حتیٰ کہ تہائی رات باقی رہ گئی۔ جب تیسری رات آئی تو آپ نے اپنے اہل و عیال اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمیں نماز تراویح پڑھائی، (اور اتنا لمبا قیام فرمایا) حتیٰ کہ ہمیں اپنی سحری فوت ہو جانے کا اندیشہ ہوا (راوی کہتے ہیں) میں نے کہا: ”فلاح“ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: سحری، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہینے کے باقی ایام میں ہمیں تراویح نہ پڑھائی۔ ابوداؤد، ترمذی، نسائی، اور ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا، البتہ امام ترمذی نے ”آپ نے مہینے کے باقی ایام میں ہمیں تراویح نہیں پڑھائی“ کا ذکر نہیں کیا۔ صحیح۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «و إسناده صحيح، رواه أبو داود (1375) و الترمذي (806 وقال: حسن صحيح.) و النسائي (83/3، 84 ح 1365) و ابن ماجه (1327) [و صححه ابن خزيمة (2206) و ابن حبان (919)]»
وعن عائشة قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فإذا هو بالبقيع فقال اكنت تخافين ان يحيف الله عليك ورسوله؟ قلت: يا رسول الله إني ظننت انك اتيت بعض نسائك فقال: إن الله تعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا فيغفر لاكثر من عدد شعر غنم كلب رواه الترمذي وابن ماجه وزاد رزين: «م ن استحق النار» وقال الترمذي: سمعت محمدا يعني البخاري يضعف هذا الحديث وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَزَادَ رَزِينٌ: «مِ َّنِ اسْتَحَقَّ النَّارَ» وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: سَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَعْنِي البُخَارِيّ يضعف هَذَا الحَدِيث
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (بستر پر) نہ پایا، آپ اچانک بقیع (قبرستان) تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے۔ “ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور وہ (اس رات) کلب قبیلے کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ “ ضعیف۔ ترمذی، ابن ماجہ، اور رزین نے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ”اللہ ایسے لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے جو جہنم کے مستحق تھے۔ “ اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا: میں نے محمد یعنی امام بخاری ؒ کو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (739 و أعله) و ابن ماجه (1389) و رزين (لم أجده) ٭ حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن زيد بن ثابت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة المرء في بيته افضل من صلاته في مسجدي هذا إلا المكتوبة» . رواه ابو داود والترمذي وَعَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ فِي مَسْجِدِي هَذَا إِلَّا الْمَكْتُوبَة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نماز کے علاوہ آدمی کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا میری اس مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ “ متفق علیہ، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه أبو داود (1044) والترمذي (450 وقال: حسن) [والبخاري (731) و مسلم (781)]»
عن عبد الرحمن بن عبد القاري قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ليلة في رمضان إلى المسجد فإذا الناس اوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط فقال عمر: إني ارى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان امثل ثم عزم فجمعهم على ابي بن كعب ثم خرجت معه ليلة اخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم. قال عمر رضي الله عنه: نعم البدعة هذه والتي تنامون عنها افضل من التي تقومون. يريد آخر الليل وكان الناس يقومون اوله. رواه البخاري عَن عبد الرَّحْمَن بن عبد الْقَارِي قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ لَيْلَةً فِي رَمَضَان إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عمر: إِنِّي أرى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْب ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاة قارئهم. قَالَ عمر رَضِي الله عَنهُ: نعم الْبِدْعَةُ هَذِهِ وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي تَقُومُونَ. يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يقومُونَ أَوله. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبدالرحمٰن بن عبدالقاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ایک رات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد (نبوی) میں گیا تو وہاں لوگ متفرق طور پر ایک ایک، دو دو اور کہیں چند افراد کی جماعت کی صورت میں نماز تراویح پڑھ رہے تھے، یہ صورت دیکھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں انہیں ایک امام کی اقتدا پر اکٹھا کر دوں تو وہ بہتر ہو گا، پھر انہوں نے پختہ عزم کیا اور انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا پر جمع کر دیا، راوی بیان کرتے ہیں: میں کسی اور رات پھر ان کے ساتھ آیا تو لوگ اپنے قاری کی امامت میں نماز پڑھ رہے تھے، (یہ دیکھ کر) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ نئی بات (با جماعت تراویح) بہت اچھی ہے۔ اور وہ نماز جس سے تم سو جاتے ہو وہ اس نماز کے پڑھنے سے افضل ہے، (راوی کہتا ہے) اس سے عمر رضی اللہ عنہ کی مراد رات کا آخری حصہ ہے، جبکہ لوگ اول رات میں نماز پڑھتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2010)»
وعن السائب بن يزيد قال: امر عمر ابي بن كعب وتميما الداري ان يقوما للناس في رمضان بإحدى عشرة ركعة فكان القارئ يقرا بالمئين حتى كنا نعتمد على العصا من طول القيام فما كنا ننصرف إلا في فروع الفجر. رواه مالك وَعَن السَّائِب بن يزِيد قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً فَكَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعَصَا مِنْ طُولِ الْقِيَامِ فَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ. رَوَاهُ مَالك
سائب بن یزید ؒ بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے ابی ّ بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھائیں، قاری (ایک رکعت) میں دو سو آیت تلاوت کرتا تھا حتیٰ کہ ہم لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے تھے، اور ہم طلوع فجر سے تھوڑا سا پہلے فارغ ہوتے تھے۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (115/1ح 249) [و من طريقه النسائي في الکبري (3/ 113 ح 4687)]»
وعن الاعرج قال: ما ادركنا الناس إلا وهم يلعنون الكفرة في رمضان قال: وكان القارئ يقرا سورة البقرة في ثمان ركعات وإذا قام بها في ثنتي عشرة ركعة راى الناس انه قد خفف. رواه مالك وَعَن الْأَعْرَج قَالَ: مَا أَدْرَكْنَا النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ يَلْعَنُونَ الْكَفَرَةَ فِي رَمَضَانَ قَالَ: وَكَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ فِي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَإِذَا قَامَ بِهَا فِي ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً رَأَى النَّاسُ أَنه قد خفف. رَوَاهُ مَالك
اعرج ؒ بیان کرتے ہیں ہم نے رمضان میں ہر شخص کو کافروں پر لعنت کرتے ہوئے پایا، اور قاری آٹھ رکعتوں میں سورۂ بقرہ پڑھتے تھے، اور جب اسے بارہ رکعتوں میں پڑھتے تو پھر لوگ اسے تخفیف سمجھتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه مالک (115/1 ح 251) دون قوله: ’’مخافة فوت السحور‘‘.»