وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يزال قوم يتاخرون عن الصف الاول حتى يؤخرهم الله في النار» . رواه ابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ قَوْمٌ يَتَأَخَّرُونَ عَنِ الصَّفِّ الْأَوَّلِ حَتَّى يُؤَخِّرَهُمُ اللَّهُ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ پہلی صف سے پیچھے ہٹتے رہیں گے حتیٰ کہ اللہ انہیں جہنم میں سب سے آخری طبقے میں ڈال دے گا۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أبو داود (679) ٭ عکرمة بن عمار: لم يصرح بالسماع من يحيي بن أبي کثير و تکلم الجمھور في روايته عنه.»
وعن وابصة بن معبد قال: راى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي خلف الصف وحده فامره ان يعيد الصلاة. رواه احمد والترمذي وابو داود وقال الترمذي هذا حديث حسن وَعَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ قَالَ: رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ فَأَمَرَهُ أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صف کے پیچھے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نماز لوٹانے کا حکم فرمایا۔ احمد، ترمذی، ابوداؤد، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (228/4 ح 18170) والترمذي (230) و أبوداود (682) [و صححه ابن خزيمة (1569) و ابن حبان (401، 403)]»
عن عبد الله بن عباس قال: بت في بيت خالتي ميمونة فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فقمت عن يساره فاخذ بيدي من وراء ظهره فعدلني كذلك من وراء ظهره إلى الشق الايمن عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بِتُّ فِي بَيت خَالَتِي مَيْمُونَةَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِيَدِي مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ فَعَدَلَنِي كَذَلِكَ مِنْ وَرَاءِ ظَهره إِلَى الشق الْأَيْمن
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر رات بسر کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی ان کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پشت کے پیچھے سے مجھے بازو سے پکڑ کر اسی طرح اپنی پشت کے پیچھے سے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (699) و مسلم (181/ 763)»
وعن جابر قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي فجئت حتى قمت عن يساره فاخذ بيدي فادارني حتى اقامني عن يمينه ثم جاء جبار بن صخر فقام عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخذ بيدينا جميعا فدفعنا حتى اقمنا خلفه. رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي حَتَّى أَقَامَنِي عَن يَمِينه ثُمَّ جَاءَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ فَقَامَ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بيدينا جَمِيعًا فدفعنا حَتَّى أَقَمْنَا خَلفه. رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے پھیر کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا، پھر جبار بن صخر آئے تو وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہمارے ہاتھوں سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا حتیٰ کہ آپ نے ہمیں اپنے پیچھے کھڑا کر دیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (3010)»
وعن انس قال: صليت انا ويتيم في بيتنا خلف النبي صلى الله عليه وسلم وام سليم خلفنا. رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأم سليم خلفنا. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اور ایک یتیم نے ہمارے گھر میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور ام سلیم رضی اللہ عنہ (ام انس رضی اللہ عنہ) نے ہمارے پیچھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (لم أجده) ٭ و رواه البخاري (727، 380) و مسلم (266 / 658) من طريق آخر مطولاً.»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (لم أجده) و رواه البخاري
وعنه ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى به وبامه او خالته قال: فاقامني عن يمينه واقام المراة خلفنا. رواه مسلم وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِ وَبِأُمِّهِ أَوْ خَالَتِهِ قَالَ: فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ وَأَقَامَ الْمَرْأَةَ خَلْفَنَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اور میری والدہ یا میری خالہ کو نماز پڑھائی، وہ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی دائیں جانب اور عورت کو اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (269/ 660)»
وعن ابي بكرة انه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو راكع فركع قبل ان يصل إلى الصف ثم مشى إلى الصف. فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: «زادك الله حرصا ولا تعد» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ ثُمَّ مَشَى إِلَى الصَّفِّ. فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تعد» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچے تو آپ رکوع فرما رہے تھے، انہوں نے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، پھر چل کر صف تک پہنچ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تمہاری حرص میں اضافہ فرمائے، آیندہ ایسے نہ کرنا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (783)»
عن سمرة بن جندب قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كنا ثلاثة ان يتقدمنا احدنا. رواه الترمذي عَن سَمُرَة بن جُنْدُب قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كُنَّا ثَلَاثَةً أَنْ يَتَقَدَّمَنَا أَحَدُنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ جب ہم تین ہوں تو ہم میں سے ایک ہماری امامت کرائے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (233 وقال: غريب.) ٭ إسماعيل بن مسلم ضعيف.»
وعن عمار بن ياسر: انه ام الناس بالمدائن وقام على دكان يصلي والناس اسفل منه فتقدم حذيفة فاخذ على يديه فاتبعه عمار حتى انزله حذيفة فلما فرغ عمار من صلاته قال له حذيفة: الم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا ام الرجل القوم فلا يقم في مقام ارفع من مقامهم او نحو ذلك؟» فقال عمار: لذلك اتبعتك حين اخذت على يدي. رواه ابو داود وَعَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ: أَنَّهُ أَمَّ النَّاسَ بِالْمَدَائِنِ وَقَامَ عَلَى دُكَّانٍ يُصَلِّي وَالنَّاسُ أَسْفَلَ مِنْهُ فَتَقَدَّمَ حُذَيْفَةُ فَأَخَذَ عَلَى يَدَيْهِ فَاتَّبَعَهُ عَمَّارٌ حَتَّى أَنْزَلَهُ حُذَيْفَةُ فَلَمَّا فَرَغَ عَمَّارٌ مِنْ صَلَاتِهِ قَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا أَمَّ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فَلَا يَقُمْ فِي مَقَامٍ أَرْفَعَ مِنْ مَقَامِهِمْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ؟» فَقَالَ عَمَّارٌ: لِذَلِكَ اتَّبَعْتُكَ حِينَ أَخَذْتَ عَلَى يَدي. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مدائن میں لوگوں کو امامت کرائی تو وہ جبوترے پر کھڑے ہوئے جبکہ لوگ ان سے نیچے کھڑے تھے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر انہیں ہاتھوں سے پکڑ لیا تو عمار رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلتے گئے حتیٰ کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے انہیں نیچے اتار دیا، جب عمار رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو حذیفہ رض�� اللہ عنہ نے انہیں فرمایا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا؟“ جب آدمی لوگوں کی امامت کرائے تو وہ ان سے بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو۔ “ یا آپ نے اس طرح کی بات فرمائی، تو عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسی لیے تو میں آپ کے پکڑنے پر آپ کے پیچھے چل دیا تھا۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (598) ٭ فيه رجل: مجھول، و أبو خالد: مثله.»
وعن سهل بن سعد الساعدي انه سئل: من اي شيء المنبر؟ فقال: هو من اثل الغابة عمله فلان مولى فلانة لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقام عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حين عمل ووضع فاستقبل القبلة وكبر وقام الناس خلفه فقرا وركع وركع الناس خلفه ثم رفع راسه ثم رجع القهقرى فسجد على الارض ثم عاد إلى المنبر ثم قرا ثم ركع ثم رفع راسه ثم رجع القهقري حتى سجد بالارض. هذا لفظ البخاري وفي المتفق عليه نحوه وقال في آخره: فلما فرغ اقبل على الناس فقال: «ايها الناس إنما صنعت هذا لتاتموا بي ولتعلموا صلاتي» وَعَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّهُ سُئِلَ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ؟ فَقَالَ: هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَكَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرِي حَتَّى سجد بِالْأَرْضِ. هَذَا لفظ البُخَارِيّ وَفِي الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ نَحْوُهُ وَقَالَ فِي آخِرِهِ: فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا بِي وَلِتَعْلَمُوا صَلَاتي»
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ منبر کس چیز سے بنایا گیا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: غابہ کے جھاؤ سے بنا ہوا تھا اور فلاں عورت (عائشہ رضی اللہ عنہ) کے آزاد کردہ غلام نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب اسے بنا کر رکھ دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا، اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے قراءت کی، رکوع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں واپس آئے اور زمین پر سجدہ کیا، پھر منبر پر تشریف لائے، پھر قراءت کی، پھر رکوع کیا پھر سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں واپس آئے حتیٰ کہ زمین پر سجدہ کیا۔ یہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں، جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت بھی اسی طرح ہے، اور اس روایت کے آخر میں ہے: جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری اقتدا کرو اور تم میری نماز سیکھ لو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (917) و مسلم (544)»