وعن السائب بن يزيد قال: كنت نائما في المسجد فحصبني رجل فنظرت فإذا عمر بن الخطاب فقال اذهب فاتني بهذين فجئته بهما فقال: ممن انتما او من اين انتما قالا: من اهل الطائف. قال: لو كنتما من اهل المدينة لاوجعتكما ترفعان اصواتكما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه البخاري وَعَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنْتُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِد فحصبني رجل فَنَظَرت فَإِذا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ فَجِئْتُهُ بِهِمَا فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا قَالَا: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ. قَالَ: لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مسجد میں سویا ہوا تھا تو کسی آدمی نے مجھے کنکری ماری، میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ، میں انہیں ان کے پاس لے آیا، تو انہوں نے فرمایا: تم کس قبیلے سے ہو اور کہاں سے ہو؟ انہوں نے کہا: اہل طائف سے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم اہل مدینہ سے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (470)»
وعن مالك قال: بنى عمر رحبة في ناحية المسجد تسمى البطيحاء وقال من كان يريد ان يلغط او ينشد شعرا او يرفع صوته فليخرج إلى هذه الرحبة. رواه في الموطا وَعَن مَالك قَالَ: بَنَى عُمَرُ رَحَبَةً فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ تُسَمَّى الْبُطَيْحَاءَ وَقَالَ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنَّ يَلْغَطَ أَوْ يُنْشِدَ شِعْرًا أَوْ يَرْفَعَ صَوْتَهُ فَلْيَخْرُجْ إِلَى هَذِهِ الرَّحَبَةِ. رَوَاهُ فِي الْمُوَطَّأِ
امام مالک ؒ بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کے کونے میں بطیحاء نامی ایک صحن تیار کیا اور فرمایا: جو شخص فضول باتیں کرنا چاہے، یا شعر پڑھنا چاہے یا اپنی آواز بلند کرنا چاہے تو وہ اس صحن کی طرف چلا جائے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه مالک في الموطأ (1/ 175 ح 424) ٭ ھذا من البلاغات و أسند عن سالم عن عمر وھو منقطع، و جاء في الإستذکار (2/ 368) و شرح الزرقاني (424) وھم في السند.»
وعن انس: راى النبي صلى الله عليه وسلم نخامة في القبلة فشق ذلك عليه حتى رئي في وجهه فقام فحكه بيده فقال: «إن احدكم إذا قام في صلاته فإنما يناجي ربه او إن ربه بينه وبين القبلة فلا يبزقن احدكم قبل قبلته ولكن عن يساره او تحت قدمه» ثم اخذ طرف ردائه فبصق فيه ثم رد بعضه على بعض فقال: «او يفعل هكذا» . رواه البخاري وَعَن أنس: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي الْقِبْلَةِ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجهه فَقَامَ فحكه بِيَدِهِ فَقَالَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي صلَاته فَإِنَّمَا يُنَاجِي ربه أَو إِن رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ فَلَا يَبْزُقَنَّ أَحَدُكُمْ قِبَلَ قِبْلَتِهِ وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ» ثُمَّ أَخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ فَبَصَقَ فِيهِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فَقَالَ: «أَوْ يفعل هَكَذَا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ (کی طرف دیوار) میں تھوک دیکھا تو یہ آپ پر اس قدر شاق گزرا کہ اس کے اثرات آپ کے چہرے پر نمایاں ہو گئے۔ پس آپ کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے اسے صاف کیا، پھر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، کیونکہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے مابین ہوتا ہے، پس تم میں سے کوئی اپنے قبلہ کی طرف نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا پھر اس میں تھوکا اور اس (کپڑے) کو ایک دوسرے کے ساتھ مل دیا اور فرمایا: ”یا پھر وہ اس طرح کر لے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (405)»
وعن السائب بن خلاد-وهو رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إن رجلا ام قوما فبصق في القبلة ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين فرغ: «لا يصلي لكم» . فاراد بعد ذلك ان يصلي لهم فمنعوه واخبروه بقول رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: نعم وحسبت انه قال: «إنك آذيت الله ورسوله» . رواه ابو داود وَعَن السَّائِب بن خَلاد-وَهُوَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ رَجُلًا أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ: «لَا يُصَلِّي لَكُمْ» . فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِك أَن يُصَلِّي لَهُم فمنعوه وَأَخْبرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: نَعَمْ وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّكَ آذيت الله وَرَسُوله» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: کسی آدمی نے کچھ لوگوں کی امامت کرائی تو اس نے قبلہ رخ تھوک دیا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی قوم سے فرمایا: ”یہ تمہیں نماز نہ پڑھائے۔ “ پھر اس کے بعد اس نے نماز پڑھانا چاہی تو انہوں نے اسے روک دیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سے آگاہ کیا اس شخص نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (میں نے روکا ہے)۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچائی ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (481) [و صححه ابن حبان (334) وله شاھد من حديث ابن عمر رضي الله عنه]»
وعن معاذ بن جبل قال: احتبس عنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة عن صلاة الصبح حتى كدنا نتراءى عين الشمس فخرج سريعا فثوب بالصلاة فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وتجوز في صلاته فلما سلم دعا بصوته فقال لنا على مصافكم كما انتم ثم انفتل إلينا ثم قال اما إني ساحدثكم ما حبسني عنكم الغداة إني قمت من الليل فتوضات وصليت ما قدر لي فنعست في صلاتي حتى استثقلت فإذا انا بربي تبارك وتعالى في احسن صورة فقال يا محمد قلت لبيك رب قال فيم يختصم الملا الاعلى قلت لا ادري رب قالها ثلاثا قال فرايته وضع كفه بين كتفي حتى وجدت برد انامله بين ثديي فتجلى لي كل شيء وعرفت فقال يا محمد قلت لبيك رب قال فيم يختصم الملا الاعلى قلت في الكفارات قال ما هن قلت مشي الاقدام إلى الجماعات والجلوس في المساجد بعد الصلوات وإسباغ الوضوء حين الكريهات قال ثم فيم؟ قلت: في الدرجات. قال: وما هن؟ إطعام الطعام ولين الكلام والصلاة والناس نيام. ثم قال: سل قل اللهم إني اسالك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وان تغفر لي وترحمني وإذا اردت فتنة قوم فتوفني غير مفتون اسالك حبك وحب من يحبك وحب عمل يقربني إلى حبك. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنها حق فادرسوها ثم تعلموها» . رواه احمد والترمذي وقال: هذا حديث حسن صحيح وسالت محمد ابن إسماعيل عن هذا الحديث فقال: هذا حديث صحيح وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: احْتَبَسَ عَنَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاة عَن صَلَاة الصُّبْح حَتَّى كدنا نتراءى عين الشَّمْس فَخرج سَرِيعا فثوب بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصَوْتِهِ فَقَالَ لَنَا عَلَى مَصَافِّكُمْ كَمَا أَنْتُمْ ثُمَّ انْفَتَلَ إِلَيْنَا ثُمَّ قَالَ أَمَا إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمُ الْغَدَاةَ إِنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَوَضَّأْتُ وَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتَّى اسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ قَالَ فِيمَ يخْتَصم الْمَلأ الْأَعْلَى قلت لَا أَدْرِي رب قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأ الْأَعْلَى قلت فِي الْكَفَّارَات قَالَ مَا هُنَّ قُلْتُ مَشْيُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَالْجُلُوسُ فِي الْمَسَاجِد بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَإِسْبَاغُ الْوَضُوءِ حِينَ الْكَرِيهَاتِ قَالَ ثُمَّ فِيمَ؟ قُلْتُ: فِي الدَّرَجَاتِ. قَالَ: وَمَا هن؟ إطْعَام الطَّعَام ولين الْكَلَام وَالصَّلَاة وَالنَّاس نيام. ثمَّ قَالَ: سل قل اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً قوم فتوفني غير مفتون أَسأَلك حَبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَحْبُكُ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حبك. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا ثُمَّ تَعَلَّمُوهَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَأَلْتُ مُحَمَّد ابْن إِسْمَاعِيل عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ: هَذَا حَدِيث صَحِيح
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز فجر پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے، قریب تھا کہ ہم سورج طلوع ہونے کا مشاہدہ کر لیتے، پھر آپ بہت تیزی سے تشریف لائے چنانچہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختصار کے ساتھ نماز پڑھائی، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو با آواز بلند فرمایا: ”اپنی جگہوں پر ایسے ہی بیٹھے رہو۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”میں ابھی تمہیں بتاتا ہوں کہ میں تمہیں نماز پڑھانے کے لیے کیوں نہیں آیا، میں رات کو بیدار ہوا، وضو کیا اور جس قدر مقدر میں تھا میں نے نماز پڑھی، مجھے نماز میں اونگھ آنے لگی حتیٰ کہ وہ مجھ پر غالب آ گئی، تب میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو بہترین صورت میں دیکھا چنانچہ اس نے فرمایا: محمد! میں نے عرض کیا: میرے رب! حاضر ہوں، فرمایا: فرشتے کس چیز کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا۔ “ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ ایسے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اسے دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی انگلیوں کے پوروں کی ٹھنڈک اپنے قلب و صدر میں محسوس کی، اور میرے سامنے ہر چیز واضح ہو گئی اور میں نے پہچان لی، پھر رب تعالیٰ نے فرمایا: محمد! میں نے عرض کیا، میرے رب! میں حاضر ہوں، فرمایا: مقرب فرشتے کس چیز کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا، گناہ مٹا دینے والے اعمال کے بارے میں، فرمایا: وہ کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا: با جماعت نماز پڑھنے لے لیے چل کر جانا، نماز کے بعد مساجد میں بیٹھے رہنا، ناگواری کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا، فرمایا: پھر وہ کس چیز کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: درجات کے بارے میں، فرمایا: وہ کیا ہیں؟ میں نے عر�� کیا: کھانا کھلانا، نرمی سے بات کرنا اور جب لوگ سو رہے ہوں نماز (تہجد) پڑھنا۔ فرمایا: کچھ مانگ لیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے عرض کیا: اے اللہ! تجھ سے نیک اعمال بجا لانے، برے کام چھوڑ دینے اور مساکین سے محبت کرنے کی توفیق مانگتا ہوں، اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، اور جب تو کسی قوم کو فتنے سے دوچار کرنا چاہے تو مجھے اس میں مبتلا کیے بغیر فوت کر دینا، میں تجھ سے، تیری محبت، تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت اور ایسے عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (خواب) حق ہے، پس اسے یاد کرو اور پھر اسے دوسروں کو بتاؤ۔ “ احمد، ترمذی۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاریؒ) سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (5 / 243 ح 22465) والترمذي (3235) [و نقل عن البخاري أنه صححه.]»
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إذا دخل المسجد قال: «اعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم» قال: «فإذا قال ذلك قال الشيطان حفظ مني سائر اليوم» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذا دخل الْمَسْجِد قَالَ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» قَالَ: «فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ قَالَ الشَّيْطَان حفظ مني سَائِر الْيَوْم» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا کیا کرتے: ”میں شیطان مردود سے اللہ عظیم، اس کی ذات کریم اور اس کی قدیم بادشاہت و قدرت کے ذریعے پناہ چاہتا ہوں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پس جب کوئی شخص یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے، یہ اب سارا دن مجھ سے محفوظ رہے گا۔ “ صحیح، ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (466)»
وعن عطاء بن يسار قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور انبيائهم مساجد» . رواه مالك مرسلا وَعَن عَطاء بْنِ يَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «اللَّهُمَّ لَا تجْعَل قَبْرِي وثنا يعبد اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائهمْ مَسَاجِد» . رَوَاهُ مَالك مُرْسلا
عطا بن یسار ؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے، اللہ ان لوگوں پر سخت ناراض ہو جنہوں نے انبیا علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ “ امام مالک نے اسے مرسل روایت کیا۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه مالک (1/ 172 ح 415) ٭ ھذا مرسل و له شواھد عند أحمد (2/ 246) وغيره.»
(وعن معاذ بن جبل قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يستحب الصلاة في الحيطان. قال بعض رواته يعني البساتين رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث الحسن بن ابي جعفر وقد ضعفه يحيى ابن سعيد وغيره (وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ الصَّلَاةَ فِي الْحِيطَانِ. قَالَ بَعْضُ رُوَاتِهِ يَعْنِي الْبَسَاتِينَ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بن أبي جَعْفَر وَقد ضعفه يحيى ابْن سعيد وَغَيره
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باغات میں (نفل) نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ “ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حسن بن ابی جعفر کے واسطہ سے جانتے ہیں، جبکہ یحیی بن سعید وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (334) ٭ الحسن بن أبي جعفر: ضعيف.»
وعن انس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الرجل في بيته بصلاة وصلاته في مسجد القبائل بخمس وعشرين صلاة وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخسمائة صلاة وصلاته في المسجد الاقصى بخمسين الف صلاة وصلاته في مسجدي بخمسين الف صلاة وصلاته في المسجد الحرام بمائة الف صلاة» . رواه ابن ماجه وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يجمع فِيهِ بخسمائة صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ وَصلَاته فِي الْمَسْجِد الْحَرَام بِمِائَة ألف صَلَاة» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی اپنے گھر میں پڑھی ہوئی نماز (ثواب کے لحاظ سے) ایک نماز ہے، اس کی اس مسجد میں نماز، جس میں مختلف قبیلے نماز پڑھتے ہیں، پچیس نمازوں کی طرح ہے، اور جس مسجد میں جمعہ ہوتا ہو، اس میں اس کی نماز پانچ سو نمازوں کی طرح ہے، مسجد اقصیٰ میں اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کی طرح ہے، اس کی میری مسجد میں پڑھی گئی نماز پچاس ہزار نمازوں کی طرح ہے اور مسجد حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کی طرح ہے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (1413) ٭ أبو الخطاب الدمشقي: مجھول.»
وعن ابي ذر قال: قلت: يا رسول الله اي مسجد وضع في الارض اول؟ قال: «المسجد الحرام» قال: قلت: ثم اي؟ قال: «ثم المسجد الاقصى» . قلت: كم بينهما؟ قال: «اربعون عاما ثم الارض لك مسجد فحيثما ادركتك الصلاة فصل» وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ: «الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ» قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيْ؟ قَالَ: «ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى» . قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: «أَرْبَعُونَ عَامًا ثُمَّ الْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ فَحَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فصل»
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد حرام۔ “ راوی کہتے ہیں، میں نے عرض کیا، پھر کون سی مسجد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد اقصیٰ۔ “ میں نے عرض کیا: ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس سال، پھر ساری زمین تیرے لیے مسجد ہے، جہاں نماز کا وقت ہو جائے نماز پڑھ لو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3366) و مسلم (2/ 520)»