وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة ورمضان إلى رمضان مكفرات لما بينهن إذا اجتنبت الكبائر» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ لَمَّا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِر» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب کبیرہ گناہوں سے بچا جائے تو پانچ نمازیں، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ہونے والے صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (16/ 233)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ارايتم لو ان نهرا بباب احدكم يغتسل فيه كل يوم خمسا هل يبقى من درنه شيء؟ قالوا: لا يبقى من درنه شيء. قال: فذلك مثل الصلوات الخمس يمحو الله بهن الخطايا وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ؟ قَالُوا: لَا يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ. قَالَ: فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر ہو اور وہ ہر روز اس میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہوتو کیا اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہ جائے گی؟“ صحابہ نے عرض کیا، اس کے جسم پر کوئی میل باقی نہیں رہے گی، آپ نے فرمایا: ”یہی پانچ نماز وں کی مثال ہے، اللہ ان کے ذریعے خطائیں مٹا دیتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (528) و مسلم (283/ 667)»
وعن ابن مسعود قال: إن رجلا اصاب من امراة قبلة فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره فانزل الله تعالى: (واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات) فقال الرجل: يا رسول الله الي هذا؟ قال: «لجميع امتي كلهم» . وفي رواية: «لمن عمل بها من امتي» وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنِ امْرَأَةٍ قُبْلَةً فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْل إِن الْحَسَنَات يذْهبن السَّيِّئَات) فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِي هَذَا؟ قَالَ: «لِجَمِيعِ أُمَّتِي كُلِّهِمْ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کسی آدمی نے کسی عورت کا بوسہ لے لیا پھر اس نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”دن کے دونوں اطراف اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کریں، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ “ اس آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! یہ میرے لیے خاص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری ساری امت کے لیے ہے۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”جس نے میری امت میں سے اس پر عمل کیا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (526) و مسلم (42 / 2763)»
وعن انس قال: جاء رجل فقال يا رسول الله إني اصبت حدا فاقمه علي قال ولم يساله عنه قال وحضرت الصلاة فصلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة قام إليه الرجل فقال يا رسول الله إني اصبت حدا فاقم في كتاب الله قال اليس قد صليت معنا قال نعم قال فإن الله قد غفر لك ذنبك او قال حدك وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فأقمه عَليّ قَالَ وَلم يسْأَله عَنهُ قَالَ وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاة قَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فأقم فِي كتاب الله قَالَ أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ أَو قَالَ حدك
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی آیا، اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں موجب حد والا عمل کر بیٹھا ہوں، لہذا آپ مجھ پر حد قائم فرمائیں، راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اس (عمل) کے متعلق کچھ دریافت نہ کیا، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا کر چکے تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا، اللہ کے رسول! میں (نے ایسا کام کیا ہے کہ) حد کو پہنچ چکا ہوں، لہذا آپ میرے متعلق اللہ کا حکم نافذ فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟“ اس نے عرض کیا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نےتمہارے گناہ یا تمہاری حد کو معاف فرما دیا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6833) و مسلم (2764/44)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم اي الاعمال احب إلى الله قال: «الصلاة لوقتها» قلت ثم اي قال: «بر الوالدين» قلت ثم اي قال: «الجهاد في سبيل الله» قال حدثني بهن ولو استزدته لزادني وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَي الْأَعْمَال أحب إِلَى الله قَالَ: «الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا» قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ: «بِرُّ الْوَالِدَيْنِ» قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ: «الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» قَالَ حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ استزدته لزادني
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وقت پر نماز ادا کرنا۔ “ میں نے عرض کیا، پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”والدین سے اچھا سلوک کرنا۔ “ میں نے عرض کیا، پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، آپ نے مجھے یہ باتیں بتائیں، اگر میں مزید دریافت کرتا تو آپ مجھے اور زیادہ بتاتے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (527) و مسلم (139/ 85)»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ ترك الصَّلَاة» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(مومن) بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز کا ترک کرنا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (134/ 82)»
عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خمس صلوات افترضهن الله تعالى من احسن وضوءهن وصلاهن لوقتهن واتم ركوعهن خشوعهن كان له على الله عهد ان يغفر له ومن لم يفعل فليس له على الله عهد إن شاء غفر له وإن شاء عذبه» . رواه احمد وابو داود وروى مالك والنسائي نحوه عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لوقتهن وَأتم ركوعهن خشوعهن كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَرَوَى مَالك وَالنَّسَائِيّ نَحوه
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس شخص نے ان کے لیے اچھی طرح وضو کیا، انہیں ان کے وقت پر ادا کیا، اور ان کے رکوع و خشوع کو مکمل کیا تو اللہ کا اس کے لیے عہد ہے کہ وہ اسے معاف فرما دے گا اور جس نے ایسے نہ کیا تو اس سے اللہ کا کوئی عہد نہیں، اگر وہ چاہے تو اسے معاف فرما دے، اور اگر چاہے تو اسے سزا دے۔ “ احمد، ابوداؤد۔ جبکہ مالک اور امام نسائی نے بھی اس کی مانند روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 317 ح 23080) و أبوداود (1420) و مالک (1/ 123 ح 267) والنسائي (1/ 230 ح 462) [و ابن ماجه (1401) و صححه ابن حبان (252، 253)]»
وعن ابي امامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلوا خمسكم وصوموا شهركم وادوا زكاة اموالكم واطيعوا ذا امركم تدخلوا جنة ربكم» . رواه احمد والترمذي وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلُّوا خَمْسَكُمْ وَصُومُوا شَهْرَكُمْ وَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ تدْخلُوا جنَّة ربكُم» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی پانچ (فرض) نمازیں پڑھو، اپنے ماہ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکو ۃ دو، اور امیر کی اطاعت کرو تو اس طرح تم اپنے رب کی جت میں داخل ہو جاؤ گے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (251/5 ح 22514) والترمذي (616 وقال: حسن صحيح) [و صححه الحاکم علٰي شرط مسلم 1/ 9 ووافقه الذھبي.]»
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم ابناء عشر سنين وفرقوا بينهم في المضاجع» . رواه ابو داود وكذا رواه في شرح السنة عنه وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِين وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَكَذَا رَوَاهُ فِي شرح السّنة عَنهُ
عمرو بن شعیب ؒ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز کے متعلق حکم دو، اور جب وہ دس برس کے ہو جائیں (اور وہ اس میں کوتاہی کریں) تو انہیں اس پر سزا دو، اور ان کے بستر الگ کر دو۔ “ ابوداؤد، اور شرح السنہ میں بھی اس طرح روایت کیا ہے۔ صحیح۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (495) والبغوي في شرح السنة (406/2 ح 505)»