حدثنا جدي، نا حبان، انا عبد الله عن يونس، ومالك نحوه.حَدَّثَنَا جَدِّي، نا حِبَّانُ، أنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ، وَمَالِكٍ نَحْوَهُ.
دوسری سند سے یہی حدیث بیان ہوئی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5478، 5488، 5496، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1930، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5879، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 504، 505، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4271، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4759، 4796، 5798، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2855، 2856، 2861، 3839، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1464، 1560، 1796، 1797، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2541، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2831، 3207، 3211، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2749، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 132، 133، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4801، 4802، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18008 صحیح بخاري، الذبائح والصید: 28، باب أکل کل ذي ناب من السباع: 9/540، صحیح مسلم، الصید: 13/82 رقم: 13، 14، جامع ترمذي، الصید، باب کراهیة کل ذي ناب وکل ذي فحلب: 5/53، موطا: 340، تحریم کل ذی ناب: 3/90، سنن دارمي، الأضاحي: 18، باب ما لا یؤکل من السباع: 2/12، مسند احمد: 4/193، 194، 195، معاني الأثار، الصید والزبائح والأطعمة: 4/190، 206۔»
عن سفيان بن عيينة، عن سهيل بن ابي صالح، عن عبد الله بن يزيد السعدي، قال: سالت سعيد بن المسيب، عن الضبع؟ فقال: إن اكلها لا يصلح، وهل ياكلها احد؟ قلت: إن ناسا من قومي ليتحملونها فياكلونها، فقال: إن اكلها لا يصلح. فقال شيخ عنده: إن شئت حدثتك، ما سمعت ابا الدرداء، يقول: سمعته يقول:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن كل نهبة، وعن كل خطفة، وعن كل مجثمة، وعن كل ذي ناب من السباع"، فقال سعيد بن المسيب: صدقت.عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ السَّعْدِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنِ الضَّبُعِ؟ فَقَالَ: إِنَّ أَكْلَهَا لا يَصْلُحُ، وَهَلْ يَأْكُلُهَا أَحَدٌ؟ قُلْتُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ قَوْمِي لَيَتَحَمَّلُونَهَا فَيَأْكُلُونَهَا، فَقَالَ: إِنَّ أَكْلَهَا لا يَصْلُحُ. فَقَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ: إِنْ شِئْتَ حدَّثْتُكَ، مَا سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ كُلِّ نُهْبَةٍ، وَعَنْ كُلِّ خَطْفَةٍ، وَعَنْ كُلِّ مُجَثَّمَةٍ، وَعَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ"، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: صَدَقْتَ.
یزید بن عبد اللہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے بجو کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ بے شک اس کا کھانا درست نہیں ہے اور کیا کوئی اسے کھاتا ہے؟ میں نے کہا کہ بے شک میری قوم کے کچھ لوگ اسے اٹھالاتے اور کھاتے ہیں تو فرمایا کہ یقینا اس کا کھانا درست نہیں ہے۔ ایک شیخ نے،جو ان کے پاس تھے، فرمایا: اگر تم چاہو تومیں تجھے وہ بیان کرتا ہوں، جومیں نے ابو درداء رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: وہ کہتے ہیں کہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: ہر ایک ڈاکے سے، ہر ایک چھینا جھپٹی سے اور ہر نشانہ بنا کر مارے گئے جانور سے اور درندوں میں سے ہر ایک کچلی والے سے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہاکہ آپ نے سچ کہا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 1473، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22120، 28160، والحميدي فى «مسنده» برقم: 401، والبزار فى «مسنده» برقم: 4091، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8687، 8688 مسند أحمد: 275/2، مجمع الزوائد، هیثمي: 4/39، جامع ترمذي: 5/501، سنن سعید بن منصور: 7/49۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیرہ‘‘ کہا ہے۔»
انا شعبة، عن هشام بن زيد، عن انس، قال: " راوا ارنبا، فطلبوها فلغبوا، فادركتها فذهبت بها إلى ابي طلحة فذبحها، وبعثني بوركها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبلها".أنا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " رَأَوْا أَرْنَبًا، فَطَلَبُوهَا فَلَغَبُوا، فَأَدْرَكْتُهَا فَذَهَبْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ فَذَبَحَهَا، وَبَعَثَنِي بِوَرِكِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَهَا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک خرگوش دیکھا اور اس کی تلاش میں نکلے اور تھک گئے، پس میں نے اسے پا لیا اور اسے لے کر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے اسے ذبح کیا اور مجھے اس کی ران کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری، الهبة، باب قبول هدیة الصید: 5/154، الذبائح، باب الأدب: 9/544، صحیح مسلم، الصید والذبائح: 13/104 رقم: 53، جامع ترمذي، الأطعمة: 2، باب أکل الأرنب: 5/490، سنن ابي داؤد، الأطعمة: 27،باب أکل الأرنب: 10/264، سنن ابن ماجة، الصید: 17،باب الأرنب رقم: 3243، مسند طیالسي: 1/342، سنن دارمي، الصید: 7، باب أکل الأرنب: 2/19، مسند احمد (الفتح الرباني)15/163، 17/72، تلخیص الحبیر، ابن حجر: 4/152، مستدرك حاکم، الأطعمة: 4/112، سنن الکبریٰ بیهقي: 320۔»
انا المسعودي، قال: انبانا عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الحية فاسقة، والعقرب فاسقة، والفارة فاسقة، والغراب فاسق"، قال: فقال إنسان للقاسم بن محمد: ايؤكل الغراب؟ فقال: من ياكله بعد قول النبي صلى الله عليه وسلم فاسق.أنا الْمَسْعُودِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْحَيَّةُ فَاسِقَةٌ، وَالْعَقْرَبُ فَاسِقَةٌ، وَالْفَأْرَةُ فَاسِقَةٌ، وَالْغُرَابُ فَاسِقٌ"، قَالَ: فَقَالَ إِنْسَانٌ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ: أَيُؤْكَلُ الْغُرَابُ؟ فَقَالَ: مَنْ يَأْكُلُهُ بَعْدَ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسِقٌ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپ فاسق ہے اور بجو فاسق ہے اور چوہیا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے۔ کہا کہ ایک انسان نے قاسم بن محمدسے کہا کہ کیا کوا کھایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد وہ فاسق ہے۔ اسے کون کھائے گا؟
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 3249، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19425، وأحمد فى «مسنده» برقم: 26392، 26652 سنن ابن ماجة: 3249، سنن أبي داؤد: 3249، مسند أحمد: 6/209، 238، معاني الآثار،طحاوی،کتاب الحج: 2/166، سنن الکبریٰ بیهقي: 9/316، تلخیص الجیر،ابن حجر: 2/274، نصب الرایة،زیلعي: 3/131، 3/136۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
انا يونس، عن الزهري، اخبرني ابو امامة بن سهل بن حنيف الانصاري، ان ابن عباس اخبره، ان خالد بن الوليد الذي يقال له: سيف الله اخبره، انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وهي خالته وخالة ابن عباس، فوجد عندها ضبا محنوذا قدمت به اختها حفيدة بنت الحارث من نجد، فقدمت الضب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان قلما يقدم إليه الطعام حتى يحدث به ويسمى له، فاهوى رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى الضب، فقالت امراة من النسوة الحضور: اخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قدمتن له، قلن: هو الضب يا رسول الله، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده عن الضب، فقال خالد بن الوليد: احرام الضب يا رسول الله؟ قال:" لا، ولكن لم يكن بارض قومي، فاجدني اعافه"، قال خالد: فاجتررته فاكلته، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إلي فلم ينهني.أنا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ: سَيْفُ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَيْدَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا يُقَدَّمُ إِلَيْهِ الطَّعَامُ حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ وَيُسَمَّى لَهُ، فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى الضَّبِّ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ الْحُضُورِ: أَخْبِرنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ، قُلْنَ: هُوَ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لا، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ"، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيَّ فَلَمْ يَنْهَنِي.
سیدنا خالد بن ولید سیف اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں اور خالد رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہا کی خالہ ہیں، آپ نے ان کے ہاں بھنا ہوا ساہنہ پایا جسے ان کی بہن حفیدہ بنت حارث نجد سے لے کر آئی تھیں، انہوں نے وہ ساہنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم ہی اپنا ہاتھ کھانے کی طر ف بڑھاتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے بیان کیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا نام لیا جاتا، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ساہنے کی طرف بڑھایا تو وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو، جو تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیا ہے،ا نہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ساہنہ ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنے سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا ساہنہ حرام ہے اے اللہ کے رسول!؟ فرمایا کہ نہیں، لیکن وہ میری قوم کی سرزمین پر ہوتا نہیں، اور میری طبیعت اس سے انکار کرتی ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پس میں نے اسے کھینچ لیا اور کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے منع نہیں فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2575، 5389، 5391، 5400، 5402، 5537، 7358، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1945، 1946، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1766، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5221، 5223، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4321، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3730، 3793، 3794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3455، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2060، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3241، 3322، 3426، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19472، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1929، والحميدي فى «مسنده» برقم: 488، 493، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 8754 صحیح بخاري: 5537، صحیح مسلم، الصید والذبائح: 13/98، 99، 100، رقم: 43، 44، 45، سنن ابي داؤد،ا لأطعمة: 8، باب أکل الضب رقم: 369، موطا: الکتاب الجامع: 4/369، مسند أحمد (الفتح الرباني)17/67، سنن دارمي: 8، أکل الضب: 2/10، سنن الکبریٰ بیهقي: 9/323، معانی الآثار، طحاوي: 4/102، مشکل الأثار، طحاوي: 4/281، طبقات ابن سعد: 1/296، مجمع الزوائد، هیثمي: 4/38، تلخیص الحبیر، ابن حجر: 4/102۔»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کا بچہ، جو ان کے پاس تھا گم پایا، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ بے شک وہ مر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کا چمڑہ کیوں نہ لے لیا اور اس سے فائدہ اٹھاتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابي داؤد، کتاب اللباس: 40، باب إهاب المیتة: 4120، صحیح ابن حبان: 2/416، سنن الکبریٰ بیهقي: 9/323، الناسخ والمنسوخ، حازمي: 38۔ محدث البانی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
عن اسامة بن زيد، حدثني عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول عام الفتح وهو بمكة: " إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة ولحم الخنزير"، فقيل: يا رسول الله، ارايت شحوم الميتة، فإنه يدهن بها السفن، ويدهن بها الجلود، ويستصبح بها الناس؟ فقال:" الا هي حرام، قاتل الله اليهود، إن الله لما حرم عليهم الشحوم جملوها، ثم باعوها واكلوا اثمانها".عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ: " إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ، فَإِنَّهُ يُدْهَنُ بِهَا السُّفُنُ، وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟ فَقَالَ:" أَلا هِيَ حَرَامٌ، قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِمُ الشُّحُومَ جَمَلُوهَا، ثُمَّ بَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے فتح والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے: بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابوں، مردار اور خنزیر کے گوشت کی تجارت سے منع فرمایا ہے۔ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مردار کی چربیوں کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے؟ کیوں کہ بے شک ان سے مشکیزے کو تیل لگایا جاتا ہے اور ان سے چمڑوں کو تیل لگایا جاتا ہے اوران سے لوگ چراغ جلاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ حرام ہے، اللہ یہودیوں کو غارت کرے، بے شک جب اللہ نے ان پر چربیوں کو حرام کیا تو انہوں نے انہیں پگھلایا، پھر انہیں بیچا اور ان کی قیمت کھا گئے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2236، 4296، 4633، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1581، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4263،والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4568، 6220، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3486، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1297، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2167، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11161، 11162، 19691، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14696 صحیح بخاری،البیوع،باب بیع المیتة والأصنام: 4/336، صحیح مسلم، المساقاة: 11/5، 6، باب تحریم الخمر، رقم: 71، التلخیص الحبیر: 3/4، سنن ابن ماجة: 2167۔»
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پرداغنے اورچہرے پر مارنے سے منع کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2116، 2117، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2551، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5620، 5626، 5627، 5628، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2564، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1710، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10443، 13382، 13383، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14381 صحیح مسلم، اللباس والزینة: 14/96، باب النهي عن ضرب الحیوان و وسمه رقم: 106، 107، جامع ترمذي، الجهاد: 3، باب کراهة التحریش بین البهائم والضرب والوسم في الوجه: 5/367، مسند أحمد: 3/318، 378، صحیح ابن حبان: (الموارد)، الأدب: 48، باب وسم الدواب: 491۔»