عبد اللہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ بے شک سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آدمی اللہ کے لیے عمل کرتا ہے، لوگ اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مومن کی جلدی آنے والی خوشخبری ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2642، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 366، 367، 5768، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4225، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21776، 21797، 21877، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 456، والبزار فى «مسنده» برقم: 3955، 3956، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31098 صحیح مسلم: 166،مسند احمد: 5/156، 157، 168، سنن ابن ماجة:4225، صحیح ابن حبان: 1/353۔»
عن شعبة، عن حميد الطويل، عن انس بن مالك، قال: كان يعجبنا ان يجيء الرجل من اهل البادية يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتاه اعرابي، فقال: يا رسول الله، متى قيام الساعة؟ فاقيمت الصلاة، فنهض فصلى، فلما فرغ من صلاته، قال:" اين السائل عن الساعة؟"، قال: انا يا رسول الله، قال:" وما اعددت لها؟"، قال: ما اعددت لها من كبير صلاة ولا صيام، إلا اني احب الله ورسوله، فقال: " المرء مع من احب"، قال: فما رايت المسلمين فرحوا بشيء بعد الإسلام فرحهم به.عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ يُعْجِبُنَا أَنَّ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى قِيَامُ السَّاعَةِ؟ فَأُقِيمَتِ الصَّلاةُ، فَنَهَضَ فَصَلَّى، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلاتِهِ، قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟"، قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟"، قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَبِيرِ صَلاةٍ وَلا صِيَامٍ، إِلا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ"، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ الْمُسْلِمِينَ فَرِحُوا بِشَيْءٍ بَعْدَ الإِسْلامِ فَرَحَهُمْ بِهِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (صحابہ رضی اللہ عنہم (کو یہ بات اچھی لگتی تھی کہ دیہات والوں سے کوئی آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب آئے گی؟ نماز کی اقامت کہہ دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز پڑھائی، پھر جب اپنی نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا کہ قیامت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟“ اس نے کہا: میں ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مزید کہا کہ میں نے اس کے لیے بہت زیادہ نمازیں اورروزے تیار نہیں کیے، البتہ بے شک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔“ کہا کہ میں نے مسلمانوں کو اسلام لانے کے بعد کسی چیز پر اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا مسرور وہ اس بات پر ہوئے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3688، 6167، 6171، 7153، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2639، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1796، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 8، 105، 563، 564، 565، 2988، 2991، 7348، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5842، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5127، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2385، 2386، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5918، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12195، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2245، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1224، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2758، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 475، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2278، 7465، 8556، 9154، 9403، والطبراني فى «الصغير» برقم: 154، 1133، 1190 صحیح مسلم: 187، طبراني صغیر: 1/58، 2/130،150، الزهد، ابن مبارك: 250،260، صحیح ابن حبان: 1/107، 175، 471، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 6/339، 7/309، تاریخ بغداد، خطیب بغدادي: 2/16، 4/259، مشکل الآثار، طحاوی: 1/198، الأدب المفرد، بخاري: 1/441، مسند احمد (الفتح الرباني)2/37،المقاصد الحسنة، سخاوي: 379۔»
عن يحيى بن عبيد الله، قال: سمعت ابي، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما تواد اثنان في الإسلام، فيفرق بينهما إلا بذنب يحدثه احدهما".عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا تَوَادَّ اثْنَانِ فِي الإِسْلامِ، فَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا إِلا بِذَنْبٍ يُحْدِثُهُ أَحَدُهُمَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو بھی دو آدمی اسلام میں باہم محبت کرتے ہیں، پھر ان میں پھوٹ ڈال دی جاتی ہے تو ایسا لازماً اس گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک جس کا ارتکاب کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 251، مسند احمد: 5/71، 2/68، الأدب المفرد، بخاري: 1/491، صحیح الترغیب والترهیب، حدیث: 3495۔»
عن الحسن بن عمرو الفقيمي، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: يا ايها الناس، تراحموا، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم باذني، يقول: " المسلمون كالرجل الواحد، إذا اشتكى عضو من اعضائه، تداعى له سائر جسده".عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَيْمِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، تَرَاحَمُوا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ، يَقُولُ: " الْمُسْلِمُونَ كَالرَّجُلِ الْوَاحِدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ مِنْ أَعْضَائِهِ، تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اے لوگو! ایک دوسرے پر رحم کیا کرو، کیوں کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کانوں سے فرماتے ہوئے سنا: مسلمان ایک آدمی کی طرح ہیں، جب اس کے اعضاء میں سے کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا باقی سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 52، 2051، 6011، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1599، 2586، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 233، 297، 721، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4465، 5726، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5200، 5997، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3329، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1205، 1205 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2573، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6523، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18638، والحميدي فى «مسنده» برقم: 943، 944، 945، 947، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2264، 2472، 7729، 9003، والطبراني فى «الصغير» برقم: 382 صحیح مسلم:67»
عن عيينة بن عبد الرحمن الغطفاني، عن ابيه، عن ابي بكرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من ذنب اجدر ان يعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنيا، مع ما يدخر له في الآخرة من البغي، وقطيعة الرحم".عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْغَطَفَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يُدَّخَرُ لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ، وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ظلم و سرکشی اور قطع تعلقی سے بڑھ کر کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اس کے مرتکب کی سزا جلد دنیا میں ہی دے دی جائے اور ساتھ آخرت میں بھی ذخیرہ کر دی جائے۔“
تخریج الحدیث: «سنن أبي داؤد: 4902، سنن ابن ماجة: 4211، مسند احمد: 5/36،38، الأدب المفرد، بخاري: 2/50 (268(۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
عن يحيى بن عبيد الله، قال: سمعت ابي، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دخل عبد الجنة بغصن من شوك كان على ظهر المسلمين، فاماطه عنه".عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلَ عَبْدٌ الْجَنَّةَ بِغُصْنٍ مِنْ شَوْكٍ كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْمُسْلِمِينَ، فَأَمَاطَهُ عَنْهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کانٹے دار درخت کی ایک ٹہنی کی وجہ سے جو مسلمانوں کے راستے میں تھی ایک بندہ جنت میں داخل ہو گیا، جسے اس نے راستے سے ہٹا دیا تھا۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 9246۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔»
عن بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ويل لمن يحدث فيكذب ليضحك به القوم، ويل له، ويل له، ويل له".عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " وَيْلٌ لِمَنْ يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ".
بہز اپنے باپ حکیم سے اور وہ اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جوبات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے، تاکہ اس کے ساتھ لوگوں کو ہنسائے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔“
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي: 2315، سنن دارمي: 2/206، الزهد، ابن مبارك: 254، مسند احمد: 5/3، تاریخ بغداد: 3/265، 4/4، 7/134۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»
عن يحيى بن عبيد الله، قال: سمعت ابي، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن العبد ليقول الكلمة لا يقولها إلا ليضحك الناس، يهوي بها ابعد ما بين السماء والارض، وإنه ليزل عن لسانه اشد مما يزل عن قدميه".عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْعَبْدَ لَيَقُولُ الْكَلِمَةَ لا يَقُولُهَا إِلا لِيُضْحِكَ النَّاسَ، يَهْوِي بِهَا أَبْعَدَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، وَإِنَّهُ لَيَزِلُّ عَنْ لِسَانِهِ أَشَدَّ مِمَّا يَزِلُّ عَنْ قَدَمَيْهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بندہ بات کہتا ہے، وہ صرف اس لیے بولتا ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو ہنسائے، وہ اس (بات(کی وجہ سے آسما ن اور زمین کے درمیان (خلا(سے زیادہ دور (جہنم میں (گر جاتا ہے اور بے شک وہ اپنے پاؤں کے پھسلنے سے زیادہ سخت اپنی زبان سے پھسلتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6477، 6478، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2988، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1810، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5706، 5707، 5708، 5716، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8867، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11773، 11774، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2314، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3970، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16761، 16762، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7335، 8073، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6235، والبزار فى «مسنده» برقم: 8447 الزهد، ابن مبارك: 255، صحیح مسلم: 18/117 (49، 50)، مسند احمد: 2/402، 433۔»
عن يحيى بن عبيد الله، قال: سمعت ابي، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كفى بالمرء جرما ان يحدث بكل ما سمع".عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَفَى بِالْمَرْءِ جُرْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے مجرم ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات یبان کر دے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى "مقدمة صحيحه"، 6، 7، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6766، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 351، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8383، 8715، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6384، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2954 الزهد، ابن مبارك: 255، مقدمة صحیح مسلم: 1/73، 740 (5)، مستدرك حاکم: 1/112، المقاصد الحسنة، سخاوي: 318، سنن أبي داؤد: 4992۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
انا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اجتمع الاولون والآخرون، فيقال: هذه غدرة فلان بن فلان".أنا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اجْتَمَعَ الأَوَّلُونَ وَالآخِرُونَ، فَيُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلانِ بْنِ فُلانٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پہلے اور بعد والے جمع ہوں گے تو کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کا دھوکہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6177، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1735، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7342، 7343، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8683، 8684، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2756، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1581، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16728، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4738، والبزار فى «مسنده» برقم: 5698، 5699، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 34091، 34092، والطبراني فى «الكبير» برقم: 13864، 13865، 13978، 14061، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2643، 3389، والطبراني فى «الصغير» برقم: 333 الزهد، ابن مبارك: 255، صحیح مسلم: 12/32، 43، مسند احمد (الفتح الرباني): 24/116، مسند طیالسي: 2/60، معجم کبیر طبراني: 1/120، المقاصد الحسنة، سخاوي: 337۔»