حمید بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تہائی قرآن ہے“ یا ”تہائی قرآن کے برابر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3479]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ اُم حمید: اُم کلثوم بنت عقبہ ہیں۔ دیکھئے: [الرازي فى الفضائل 107]، [ابن الضريس فى فضائل القرآن 242]، [الطبراني فى الكبير 74/25، 182]، [أحمد 404/6]، [النسائي فى الكبریٰ 10531]
وضاحت: (تشریح احادیث 3459 سے 3468) ان روایات سے پتہ چلا کہ کوئی شخص اگر تین بار « ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ » پڑھے تو اس کو پورا قرآن پڑھنے کا ثواب ہے، اسی لئے خود پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد اور سوتے وقت معوذتین کے ساتھ اس سورت کو ہمیشہ پڑھا کرتے تھے، اور اس کو تہائی قرآن ایک قول کے مطابق اس لئے کہا گیا کہ قرآن پاک میں تین قسم کے مضامین ہیں: ۱- توحيد . . . ۲- رسالت . . . 3- اعمال اس سورت میں توحید کا بیان ہے اور اس میں توحید کی تینوں اقسام موجود ہیں، اس لئے ثلث قرآن ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن منصور، عن هلال، عن الربيع بن خثيم، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن امراة من الانصار، عن ابي ايوب، قال: اتاها فقال: الا ترين إلى ما جاء به رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: رب خير قد اتانا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما هو؟ قال: قال لنا: "ايعجز احدكم ان يقرا ثلث القرآن في ليلة"؟ قال: فاشفقنا ان يريدنا على امر نعجز عنه، فلم نرجع إليه شيئا حتى قالها ثلاث مرات، ثم قال:"اما يستطيع احدكم ان يقرا (قل هو الله احد، الله الصمد)؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: أَتَاهَا فَقَالَ: أَلَا تَرَيْنَ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: رُبَّ خَيْرٍ قَدْ أَتَانَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا هُوَ؟ قَالَ: قَالَ لَنَا: "أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فِي لَيْلَةٍ"؟ قَالَ: فَأَشْفَقْنَا أَنْ يُرِيدَنَا عَلَى أَمْرٍ نَعْجِزُ عَنْهُ، فَلَمْ نَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَا يَسْتَطِيعُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَد، اللَّهُ الصَّمَدُ)؟".
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، انہوں نے انصار کی ایک خاتون سے روایت کیا کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: تم جانتی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا چیز لے کر آئے ہیں؟ اس خاتون انصاری صحابیہ نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بہت ساری بھلائیاں لے کر تشریف لائے ہیں، تم بتاؤ کیا خبر لائے ہو؟ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہا: ”کیا تم میں سے کوئی ایک رات میں ثلث قرآن پڑھنے سے عاجز رہتا ہے؟“ ہم کو ڈر لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ایساعمل کرانا چاہتے ہیں جس کی ہم قدرت نہیں رکھتے، لہٰذا ہم نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ سوال دہرایا اور فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی کو اتنی طاقت نہیں کہ وہ «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ، اللّٰهُ الصَّمَدُ﴾» سورہ اخلاص پڑھ لے؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إذا كانت الأنصارية صحابية وإلا ففيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 3480]» اس روایت کی سند میں اگر انصاری خاتون صحابیہ ہیں تو صحیح ہے، ورنہ اس میں جہالت ہے۔ اس کو ترمذی نے [الترمذي 2898]، النسائی نے [الكبرىٰ 10517]، اور ابن الضریس نے [فضائل القرآن 254] میں اور ابن عبدالبر نے [تمهيد 255/7] میں روایت کیا ہے، اور اس کے متعدد شواہد صحیحہ موجود ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إذا كانت الأنصارية صحابية وإلا ففيه جهالة
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پچاس بار «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» پڑھے گا اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3481]» اُم کثیر الانصاریہ کون ہیں پتہ نہیں چل سکا، باقی رواة اس روایت کے ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 2900]، [أبويعلی 3365]، [ابن الضريس فى فضائل القرآن 266] و [البيهقي فى شعب الإيمان 2548، 2564] و [تاريخ بغداد 187/6]۔ لیکن ان سب کی اسانید ضعیفہ ہیں، اس لئے یہ حدیث قابلِ عمل نہیں ہو سکتی، اور ثلث قرآن والی احادیث صحیح ہیں۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3468 سے 3470) سورہ الاخلاص ایسی مبارک سورۂ شریفہ ہے جو الله تعالیٰ کی صفاتِ مبارکہ سے بھر پور ہے، اس میں اللہ پاک کا ایک ہونا، بے پرواہ معبود ہونا، ولد سے (اولاد سے) پاک ہونا، کسی سے پیدا نہ ہونا، اس کی ذات کا کوئی ہم سر نہ ہونا یعنی بے مثل ہونا مذکور ہے، اتنی عمده اور مبنی برحقیقت صفات اس سورہ شریفہ میں بڑے اختصار سے ذکر کی گئی ہیں، جو ان صفات کو سمجھے اور محبت رکھے اور اس کو پڑھتا رہے یقیناً الله تعالیٰ بھی اس سے محبت کرے گا، اور اس کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے اس بندے کے گناہ بخش دے، دونوں جہان میں عافیت عنایت کرے، اور اپنی اطاعت کی توفیق بخشے، اور بندے کو یہ چاہیے کہ صرف الله تعالیٰ کی عبادت و بندگی، اطاعت و فرماں برداری صدقِ دل اور اخلاص سے کرے، دل سے اس کو یاد کرے، اس کی محبت، اسماء و صفات سے لگاؤ سارے جہاں سے مقدم رکھے۔ (وحیدی بتصرف)۔ یہ الله تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ بعض آیات اور سورتوں کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور بزبانِ نبوت ان کی فضیلت بیان فرما دی تاکہ عاصی و گنہگار انسان اللہ تعالیٰ کی بے انتہا نعمتوں اور رحمتوں سے اپنا دامن بھرتا رہے اور سعادت دارین اس کو نصیب ہو، عمل تھوڑا سا کرے اور اجر و ثواب اتنا زیادہ کہ تصور میں نہ آئے، الله تعالیٰ سمجھ اور عمل کی ہمیں توفیق بخشے، آمین۔ اور جن آیات اور سورتوں کی فضیلت حدیثِ صحیح سے ثابت نہ ہو اس پر عمل نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ جس آیت یا سورت میں کوئی فضیلت تھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا، جس کی کوئی فضیلت نہیں اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، وابن لهيعة، قالا: سمعنا يزيد بن ابي حبيب، يقول: حدثني ابو عمران، انه سمع عقبة بن عامر، يقول: تعلقت بقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: يا رسول الله، اقرئني سورة هود، وسورة يوسف، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا عقبة، إنك لن تقرا من القرآن سورة احب إلى الله ولا ابلغ عنده من قل اعوذ برب الفلق"، قال يزيد: فلم يكن ابو عمران يدعها، كان لا يزال يقرؤها في صلاة المغرب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، قَالا: سَمِعْنَا يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو عِمْرَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: تَعَلَّقْتُ بِقَدَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقْرِئْنِي سُورَةَ هُود، وَسُورَةَ يُوسُفَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا عُقْبَةُ، إِنَّكَ لَنْ تَقْرَأَ مِنْ الْقُرْآنِ سُورَةً أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ وَلَا أَبْلَغَ عِنْدَهُ مِن قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ"، قَالَ يَزِيدُ: فَلَمْ يَكُنْ أَبُو عِمْرَانَ يَدَعُهَا، كَانَ لَا يَزَالُ يَقْرَؤُهَا فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ.
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے (سواری پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کو پکڑا اور عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! مجھے سورہ ہود اور سورہ یوسف پڑھا دیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عقبہ! تم ہرگز نہ پڑھو گے قرآن کی کوئی سوره جو «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» سے زیادہ الله تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور بلیغ ہو (یعنی سورہ الفلق سب سے زیادہ الله کو محبوب اور بلیغ ہے)۔“ یزید نے کہا: ابوعمران ہمیشہ اس کو مغرب کی نماز میں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3482]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 814]، [النسائي 552]، [أحمد 155/4، 159]، [طبراني فى الكبير 312/17، 862]، [أبويعلی 1734]، [ابن حبان 795]، [الحميدي 874] و [البغوي فى شرح السنة 1213، وغيرهم]
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا ليث، عن ابن عجلان، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، ان عقبة بن عامر، قال:"مشيت مع النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي:"قل يا عقبة"، فقلت: اي شيء اقول؟ قال: فسكت عني، ثم قال:"يا عقبة: قل، فقلت: اي شيء اقول؟ قال: "قل اعوذ برب الفلق، فقراتها حتى جئت على آخرها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك:"ما سال سائل، ولا استعاذ مستعيذ بمثلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ:"مَشَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:"قُلْ يَا عُقْبَةُ"، فَقُلْتُ: أَيَّ شَيْءٍ أَقُولُ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي، ثُمَّ قَالَ:"يَا عُقْبَةُ: قُلْ، فَقُلْتُ: أَيَّ شَيْءٍ أَقُولُ؟ قَالَ: "قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، فَقَرَأْتُهَا حَتَّى جِئْتُ عَلَى آخِرِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:"مَا سَأَلَ سَائِلٌ، وَلَا اسْتَعَاذَ مُسْتَعِيذٌ بِمِثْلِهَا".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عقبہ! کہو“، میں نے عرض کیا: کیا کہوں؟ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ خاموش ہو گئے پھر کچھ دیر بعد فرمایا: ”اے عقبہ! کہو“، میں نے پھر عرض کیا: کیا کہوں؟ فرمایا: ” «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ»“، چنانچہ میں نے پوری سورت آخر تک پڑھی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مانگنے والے نے اس کے مثل نہیں مانگا، اور نہ کسی پناہ چاہنے والے نے اس کے مثل پناہ چاہی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3483]» محمد بن عجلان کی وجہ سے اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 5456]، [البيهقي فى شعب الإيمان 2564]
وضاحت: (تشریح احادیث 3470 سے 3472) یعنی اللہ تعالیٰ سے مانگنے میں اور پناہ طلب کرنے میں سورۃ الفلق بہت عمدہ ہے اور اس جیسی اور کوئی سورت نہیں ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا إسماعيل هو ابن ابي خالد، عن قيس، عن عقبة بن عامر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لقد انزل علي آيات لم ار او لم ير مثلهن، يعني: المعوذتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل هُوَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيَّ آيَاتٌ لَمْ أَرَ أَوْ لَمْ يُرَ مِثْلَهُنَّ، يَعْنِي: الْمُعَوِّذَتَيْنِ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اوپر کچھ ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جن کے مثل کوئی دیکھنے میں نہیں آئیں یعنی معوذتین «﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾» و «﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾»“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3484]» اس حدیث کی سند اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 814]، [نسائي 953، 5456]، [ترمذي 2902، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 3472) مسلم شریف میں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دیکھتے نہیں آج کی رات ایسی آیات نازل ہوئی ہیں کہ ان کے مثل کبھی نہیں دیکھیں، اور وہ « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ » اور « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾(الفلق والناس)» ہیں، اس سے ان دونوں سورتوں کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورتیں پڑھ کر خود اپنے اوپر اور سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف ہوتی تو معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف زیادہ ہوگئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر پر پھیرتی۔ [بخاري: باب المعوذات فى فضائل القرآن] و [مسلم: كتاب السلام، باب رقية المريض بالمعوذات] ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تو جبریل علیہ السلام یہی سورتیں لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے، اور یہ جادو فلاں کنویں میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اسے نکلوایا (جو ایک کنگھی کے دندانوں اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیاره گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سویاں پیوست کی ہوئی تھیں)، جبریل علیہ السلام کے بتانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سورتوں میں سے ایک ایک پڑھتے جاتے اور گرہ کھلتی جاتی اور سوئی نکلتی جاتی، خاتمے تک پہنچتے پہنچتے ساری گرہیں بھی کھل گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح صحیح ہو گئے جیسے کوئی شخص جکڑ بندی سے آزاد ہو جائے۔ [بخاري: كتاب الطب، باب السحر]، [مسلم: كتاب السلام، باب السحر والسنن] واضح رہے دونوں سورتوں میں گیارہ آیات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ رات سوتے وقت سورة الاخلاص اور معوذتین پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھونکتے اور پھر انہیں پورے جسم پر ملتے تھے۔ نیز نمازِ فجر اور مغرب کے بعد تین تین بار ان سورتوں کو پڑھتے تھے، اور نمازِ ظہر، عصر اور عشاء کے بعد ایک ایک بار پڑھتے تھے۔ لیکن نماز کے بعد بدن یا چہرے پر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں ہے۔ ان دونوں سورتوں میں شیطان اور اس کی ذریت، جہنم اور ہر اس چیز سے پناہ ہے جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا نقصان ہو سکتا ہے۔ اتنی معمولی کاوش اور فائدہ کتنا عظیم، لیکن مسلمانوں پر یہ آیات پڑھنا کتنا بھاری ہوتا ہے؟ اگر ان سورتوں کا سنّت کے مطابق مسلمان ورد رکھیں تو بہت کی بلاؤں اور شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے کہا: جس شخص نے کسی رات میں دس آیات پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو موقوف على تميم الداري، [مكتبه الشامله نمبر: 3485]» اس روایت کی سند ضعیف اور موقوف علی سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ ہے۔ آگے اس طرح کے اور آثار بھی آ رہے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو موقوف على تميم الداري
سیدنا تمیم داری اور سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: جس شخص نے کسی رات (قرآن کی) دس آیات پڑھیں تو (اس کا نام) نمازیوں میں لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لإرساله والقاسم أبو عبد الرحمن لم يدرك تميما، [مكتبه الشامله نمبر: 3486]» اس روایت میں ارسال بھی ہے اور القاسم ابوعبدالرحمٰن کا لقا سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اس لئے یہ اثر ضعیف ہے۔ اس کو بیہقی نے [شعب الإيمان 2196] میں اور سعید بن منصور نے [سنن 116/1، 23] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لإرساله والقاسم أبو عبد الرحمن لم يدرك تميما
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جس نے رات میں دس آیات پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3487]» اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 508/10، 10137] و [الحاكم فى المستدرك 2042، واسناده منقطع] اور اس کا شاہد [صحيح ابن خزيمه 1143]، [مستدرك الحاكم 2041]، [عمل اليوم و الليلة لابن السني 702] و [صحيح ابن حبان 2572] میں موجود ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جو رات میں دس آیات کی تلاوت کرے وہ غافلین میں نہ لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3488]» مغیرہ بن عبداللہ الجدلی کا ترجمہ کہیں مذکور نہیں ہے، باقی رجال ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابن الضريس 63] و [ابن منصور 29/1، 24]۔ نیز آگے رقم (3489) پر یہ روایت اور مفصل آ رہی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3473 سے 3477) اس باب کی تمام روایات، آثار و اقوال صحابہ کرام کے ہیں، احتمال ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق