(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا ابو الاشهب: جعفر بن حيان، عن الحسن: ان عبيد الله بن زياد عاد معقل بن يسار في مرضه الذي مات فيه، فقال له معقل: إني محدثك بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لو علمت ان بي حياة ما حدثتك، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "ما من عبد يسترعيه الله رعية، يموت يوم يموت، وهو غاش لرعيته، إلا حرم الله عليه الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ: جَعْفَرُ بْنُ حَيَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ: أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ عَادَ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ بِي حَيَاةً مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ، وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ".
عبید الله بن زیاد سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے اس بیماری میں آئے جس میں ان کی وفات ہوئی تو سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ابھی میری زندگی باقی ہے تو میں بیان نہ کرتا، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کوئی بندہ ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کے حقوق میں خیانت کرتا ہو تو الله تعالیٰ جنت کو اس پر حرام کر دے گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري في الأحكام، [مكتبه الشامله نمبر: 2838]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7151]، [مسلم 142]، [ابن حبان 4495]
وضاحت: (تشریح حدیث 2830) سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اصحاب الشجرہ میں سے ہیں، اور عبیداللہ بن زیاد ظالم و سفاک حکمراں تھا جس کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حاکم بنایا تھا، اور سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے مرتے وقت یہ حدیث ان سے بیان کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ حدیث اس حاکم کو فائدہ نہ د ے گی، یا ہو سکتا ہے لوگ یہ حدیث سن کر عبیداللہ کی اطاعت نہ کریں اور فتنہ برپا ہو، یا وہ انہیں ایذا پہنچائے۔ پھر انہوں نے خیال کیا کہ حدیث کا چھپانا بہتر نہیں اور نیک بات کو بتلا دینا ضروری ہے چاہے وہ مانے یا نہ مانے۔ حقوق میں خیانت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حاکم کے لئے اپنی رعیت کے دین اور دنیا دونوں کی اصلاح ضروری ہے، پھر اگر اس نے لوگوں کا دین خراب کیا اور حدودِ شرعیہ کو ترک کیا، یا ان کی جان اور مال پر ناحق زیادتی کی، یا اور کسی قسم کی نا انصافی کی، یا ان کی حق تلفی کی تو اس نے اپنے فرضِ منصبی میں خیانت کی، اب وہ جہنمی ہوا، اگر اس کو حلال جانتا تھا تو ہمیشہ کے لئے جنّت سے محروم ہوا، ورنہ اوّل وہلہ میں جب سارے دوسرے جنتی جنت میں جائیں گے وہ جنت میں جانے سے محروم رہے گا۔ (نووی)۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أخرجه البخاري في الأحكام
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن المبارك، اخبرنا الوليد بن مسلم، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، قال: اخبرني زريق بن حيان مولى بني فزارة، انه سمع مسلم بن قرظة الاشجعي يقول: سمعت عوف بن مالك الاشجعي يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "خيار ائمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم، وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار ائمتكم، الذين تبغضونهم ويبغضونكم، وتلعنونهم ويلعنونكم". قلنا: افلا ننابذهم يا رسول الله عند ذلك؟ قال:"لا، ما اقاموا فيكم الصلاة، الا من ولي عليه وال فرآه ياتي شيئا من معصية الله، فليكره ما ياتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة". قال ابن جابر: فقلت: آلله يا ابا المقدام! آلله، اسمعت هذا من مسلم بن قرظة؟ فاستقبل القبلة، وجثا على ركبتيه , فقال: آلله لسمعت هذا من مسلم بن قرظة , يقول: سمعت عمي عوف بن مالك , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زُرَيْقُ بْنُ حَيَّانَ مَوْلَى بَنِي فَزَارَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُسْلِمَ بْنَ قَرَظَةَ الْأَشْجَعِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ، الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ". قُلْنَا: أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ:"لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ، أَلَا مَنْ وُلِّيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ". قَالَ ابْنُ جَابِرٍ: فَقُلْتُ: آللَّهِ يَا أَبَا الْمِقْدَامِ! آللَّهِ، أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ؟ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ , فَقَالَ: آللَّهِ لَسَمِعْتُ هَذَا مِنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمِّي عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ.
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بہترین حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے حق میں دعائے خیر کرو وہ تمہارے حق میں دعائے خیر کریں، اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں جن کو تم نا پسند کرو اور وہ تمہیں نا پسند کریں، تم ان پر لعنت کرو، وہ تم پرلعنت کریں۔“ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان کی بیعت توڑ کر ان کے خلاف بغاوت نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں، لیکن جب کوئی کسی حاکم کو گناہ کا کام کرتے دیکھے تو اس کو برا جانے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔“ اس حدیث کے راوی عبدالرحمٰن بن جابر نے کہا: میں نے زریق بن حیان سے کہا: اے ابوالمقدام! تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے یہ حدیث مسلم بن قرظہ سے سنی؟ زُرَیق یہ سن کر اپنے گھٹنوں کے بل جھکے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے کہا: بے شک قسم الله کی میں نے یہ حدیث مسلم بن قرظہ سے سنی، وہ کہتے تھے میرے چچا سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے تھے میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2839]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1855، مثله] و [ابن حبان 4589]، [طبراني 62/18، 115، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2831) اس حدیث میں دونوں قسم کے حکمرانوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے، ایک وہ حکمراں جو عوام کے خیر خواہ اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنے والے ہیں، یہ بہترین حکمراں ہیں، عوام ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور یہ عوام کے لئے دعائیں کرتے ہیں، اور دوسرے بدترین وہ حکمراں ہیں جن کو صرف اپنے اقتدار اور مفادات سے غرض ہوتی ہے، عوام کو عدل و انصاف مہیا کرنے اور ان کی مشکلات حل کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، سب لوگ ان پر لعنت بھیجتے ہیں اور وہ عوام کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس میں دراصل حکمرانوں کو عدل و انصاف کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، کیونکہ عند اللہ و عند الناس محبوب بننے کا یہی طریقہ ہے۔ اور ظالم حکمراں بھی جب تک کفرِ صریح کا ارتکاب نہ کریں، اور شعائرِ اسلام خصوصاً نماز کی پابندی کریں ان کے خلاف خروج بغاوت کی اجازت نہیں، جیسا کہ اس حدیث میں مذکور ہے اور صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا، اور امیر و حاکم، عام مسلمانوں کے ساتھ جماعت کے ساتھ ر ہے، نہ بغاوت کی نہ حکم سے سرتابی کی۔ ایک مرتبہ سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس کچھ نوجوان آئے اور حکمرانوں پر بڑی نکتہ چینی کرتے رہے، بلکہ بعض نے سخت لہجہ و اسلوب اختیار کیا اور بغاوت پر اتر آنے کی بات کہی، تو شیخ محترم (رحمہ اللہ) نے بکمالِ شفقت و حکمت ان سے کہا: ان میں بہت خرابیاں سہی لیکن کیا تم صریح کفر کا مرتکب کسی کو پاتے ہو؟ سب خاموش ہو گئے اور یہ فتنہ اس وقت دب گیا۔ اللہ تعالیٰ آج کے نوجوانوں کو بصیرت اور سمجھ عطا کرے، آمین۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صور کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک سنکھ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2840]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4742]، [ترمذي 3244]، [ابن حبان 7312]، [موارد الظمآن 2570]
وضاحت: (تشریح حدیث 2832) قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا جس سے سارے جان دار مر جائیں گے، اور پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے سارے لوگ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک مرنے والے سب زندہ ہو جائیں گے اور حشر میں الله تعالیٰ کے سامنے سب کا حساب و کتاب ہوگا۔ قرآن پاک میں بھی اس کا تذکرہ ہے: « ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ﴾[الزمر: 68] » ترجمہ: ”اور صور پھونک دیا جائے گا، پس آسمانوں اور زمینوں والے سب بے ہوش ہو کر گر جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے۔ “
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا الحكم بن نافع، حدثنا شعيب، عن الزهري، قال: سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن، قال: سمعت ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:"يقبض الله الارض ويطوي السموات بيمينه، ثم يقول: انا الملك، اين ملوك الارض؟".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:"يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ وَيَطْوِي السَّمَوَاتِ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ”(قیامت کے دن) الله تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: آج صرف میں بادشاہ ہوں دنیا کے بادشاہ (آج) کہاں ہیں؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2841]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4812]، [مسلم 2787]، [أبويعلی 5850]
(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا محمد بن الفضل، حدثنا الصعق بن حزن، عن علي بن الحكم، عن عثمان بن عمير، عن ابي وائل، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: قيل له: ما المقام المحمود؟، قال:"ذاك يوم ينزل الله تعالى على كرسيه يئط كما يئط الرحل الجديد من تضايقه به، وهو كسعة ما بين السماء والارض، ويجاء بكم حفاة، عراة، غرلا، فيكون اول من يكسى إبراهيم، يقول الله تعالى: اكسوا خليلي، فيؤتى بريطتين بيضاوين من رياط الجنة، ثم اكسى على إثره، ثم اقوم عن يمين الله مقاما يغبطني الاولون والآخرون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الصَّعْقُ بْنُ حَزْنٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قِيلَ لَهُ: مَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ؟، قَالَ:"ذَاكَ يَوْمٌ يَنْزِلُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى كُرْسِيِّهِ يَئِطُّ كَمَا يَئِطُّ الرَّحْلُ الْجَدِيدُ مِنْ تَضَايُقِهِ بِهِ، وَهُوَ كَسَعَةِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَيُجَاءُ بِكُمْ حُفَاةً، عُرَاةً، غُرْلًا، فَيَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: اكْسُوا خَلِيلِي، فَيُؤْتَى بِرَيْطَتَيْنِ بَيْضَاوَيْنِ مِنْ رِيَاطِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أُكْسَى عَلَى إِثْرِهِ، ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ اللَّهِ مَقَامًا يَغْبِطُنِي الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مقامِ محمود سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوگا اور وہ اس طرح آواز نکالے گی جیسے نئے کجاوے (پالان) پر بیٹھنے سے آواز ہوتی ہے، یہ اس کی تنگی کی وجہ سے ہوگی حالانکہ اس کرسی کی وسعت زمین و آسمان کے درمیان جتنی ہوگی، اور اس دن تم کو ننگے پیر ننگے بدن غیر مختون لایا جائے گا، اور سب سے پہلے جن کو کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، الله تعالیٰ فرمائے گا: میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ، چنانچہ جنت کے دو باریک کپڑے لائے جائیں گے، پھر ان کے بعد مجھے کپڑا پہنایا جائے گا، پھر میں الله (جل جلالہ) کے داہنے جانب کھڑا ہو جاؤں گا اور یہی وہ مقام (محمود) ہے جس پر مجھ سے اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا عثمان بن عمير قال أحمد والبخاري: منكر الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 2842]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ عثمان بن عمیر کو امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے۔ دیکھئے: [طبراني 99/10، 10018]، [أبونعيم فى الحلية 239/6] و [البخاري تعليقًا فى الكبير 137/4]، [أبوالشيخ فى العظمة 227] و [الحاكم 364/2، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 2833 سے 2835) اس حدیث کے طرفِ اوّل اور «يُجَاءُ بِكُمْ حُفَاةً عُرَاةً» کے شواہد موجود ہیں (جیسا کہ آگے 2837 نمبر پر آ رہا ہے) جس سے اللہ تعالیٰ کا کرسی پر بیٹھنا ثابت ہوا، قرآن پاک میں بھی ہے: « ﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾[البقرة: 255] » اور کرسی سے بعض علماء نے عرش، بعض نے موضع قدمین (جل جلالہ) مراد لیا ہے، لیکن محدثین و سلف صالحین نے ان صفاتِ باری تعالیٰ کو جس طرح وارد ہوئیں ان پر بلا تمثیل و تکیف کے ایمان کو واجب کیا ہے، اس کی تاویل کرنے سے منع کیا ہے اور یہ ہی صحیح مسلک ہے، اس لئے کرسی اور اس پر بیٹھنے پر ایمان رکھنا لازمی ہے۔ الله تعالیٰ سب کو ایمان کی حقیقت سمجھنے کی توفیق بخشے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا عثمان بن عمير قال أحمد والبخاري: منكر الحديث
(حديث قدسي) حدثنا ابو اليمان: الحكم بن نافع، عن شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري , اخبرني سعيد بن المسيب، وعطاء بن يزيد الليثي، ان ابا هريرة اخبرهما: ان الناس , قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: هل نرى ربنا يوم القيامة؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "هل تمارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب؟"، قالوا: لا، يا رسول الله، قال:"فهل تمارون في الشمس ليس دونها سحاب؟"، قالوا: لا، قال:"فإنكم ترونه كذلك".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ: الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ , أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُمَا: أَنَّ النَّاسَ , قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلْ تُمَارُونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ؟"، قَالُوا: لَا، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"فَهَلْ تُمَارُونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ:"فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں چودہویں کا چاند دیکھنے میں جب کہ اس کے نزدیک کہیں بادل نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں کوئی شبہ ہوتا ہے جبکہ اس کے نزدیک کہیں بادل نہ ہو؟“ عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً تم رب العزت کو اسی طرح دیکھو گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2843]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 806]، [مسلم 182]، [أبويعلی 6360]، [ابن حبان 7429]، [الحميدي 1212]
وضاحت: (تشریح حدیث 2835) یعنی جس طرح چاند و سورج کو دیکھتے ہو اسی طرح اپنے رب کو دیکھو گے، اور اس رویت میں کوئی شک و شبہ نہ ہوگا۔ اس حدیث سے ربِ کائنات کا قیامت کے دن دیدار ثابت ہوا جس سے اہل جنّت کو جنت اور جنت کی نعمتیں دینے کے بعد مشرف کیا جائے گا۔ دیکھئے: تفسیرِ آیت: « ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ﴾[يونس: 26] »
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، قال: حدثنا المغيرة بن النعمان، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث، عن ابن عباس، قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"يا ايها الناس، إنكم محشورون إلى الله تعالى حفاة عراة غرلا، ثم قرا: كما بدانا اول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين سورة الانبياء آية 104".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، ثُمَّ قَرَأَ: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”لوگو! بیشک تم حشر میں ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بن ختنہ اٹھائے جاؤ گے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ . . . . . .﴾»(الأنبياء: 104/21) ترجمہ: جیسا کہ ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا ہم ایسے ہی لوٹائیں گے (یعنی دوبارہ اٹھائیں گے) یہ ہماری طرف سے ایک وعده ہے جس کو ہم پورا کر کے رہیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2844]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3349]، [مسلم 2860]، [ترمذي 3167]، [نسائي 2081]، [أبويعلی 2396]، [ابن حبان 7317]، [الحميدي 489]
وضاحت: (تشریح حدیث 2836) اس حدیث میں حشر کا ثبوت، اور جیسے انسان پیدا ہوئے ویسے ہی اٹھائے جانے، اور قیامت کے دن کی ہولناکی کا ذکر ہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے: اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا: یا رسول الله! ایسی برہنہ حالت میں عورت مرد ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہونگے؟ فرمایا: ”اے عائشہ! اس وقت کا معاملہ بڑا ہولناک ہے، اس لئے وہاں کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کی فرصت کہاں ہوگی؟“ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی ہولناکی و شدت میں ہمیں اپنی رحمت کے سایہ تلے جگہ دے، آمین۔
(حديث قدسي) اخبرنا محمد بن يزيد البزاز، عن يونس بن بكير، قال: اخبرني ابن إسحاق، قال: اخبرني سعيد بن يسار، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "إذا جمع الله العباد في صعيد واحد، نادى مناد: ليلحق كل قوم بما كانوا يعبدون، فيلحق كل قوم بما كانوا يعبدون، ويبقى الناس على حالهم، فياتيهم، فيقول: ما بال الناس ذهبوا وانتم هاهنا؟، فيقولون: ننتظر إلهنا، فيقول: هل تعرفونه؟ فيقولون: إذا تعرف إلينا، عرفناه، فيكشف لهم عن ساقه فيقعون سجودا، فذلك قول الله تعالى: يوم يكشف عن ساق ويدعون إلى السجود فلا يستطيعون سورة القلم آية 42 ويبقى كل منافق فلا يستطيع ان يسجد، ثم يقودهم إلى الجنة".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْبَزَّازُ، عَنْ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ إِسْحَاق، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ يَسَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْعِبَادَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، نَادَى مُنَادٍ: لِيَلْحَقْ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، فَيَلْحَقُ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، وَيَبْقَى النَّاسُ عَلَى حَالِهِمْ، فَيَأْتِيهِمْ، فَيَقُولُ: مَا بَالُ النَّاسِ ذَهَبُوا وَأَنْتُمْ هَاهُنَا؟، فَيَقُولُونَ: نَنْتَظِرُ إِلَهَنَا، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَهُ؟ فَيَقُولُونَ: إِذَا تَعَرَّفَ إِلَيْنَا، عَرَفْنَاهُ، فَيَكْشِفُ لَهُمْ عَنْ سَاقِهِ فَيَقَعُونَ سُجُودًا، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلا يَسْتَطِيعُونَ سورة القلم آية 42 وَيَبْقَى كُلُّ مُنَافِقٍ فَلَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُودُهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”الله تعالیٰ بندوں کو جب ایک سرزمین پر جمع کرے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا: ہر قوم جس کی عبادت کرتی تھی اسی کے پیچھے لگ جائے، چنانچہ لوگ جس کی پوجا کرتے تھے (دنیا میں) اس کے پیچھے لگ جائیں گے، اور کچھ لوگ اسی حال میں باقی رہ جائیں گے (یعنی کسی کے پیچھے نہیں جائیں گے) اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا: کیا بات ہے اور سب لوگ چلے گئے اور تم یہیں پر ہو؟ وہ کہیں گے: ہم اپنے معبود کا انتظار کر رہے ہیں، الله تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے: اگر تم ہمیں پہچان بتاؤ تو اپنے رب کو پہچان لیں گے، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے لئے اپنی پنڈلی کھولے گا اور وہ سجدے میں گر پڑیں گے۔“ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی ہے: «﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ . . . . . .﴾»(القلم: 42/68) ترجمہ: جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر منافق کھڑا رہ جائے گا اور سجدہ نہ کر سکے گا، پھر مومنین کو جنت کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2845]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6573، 7437]، [مسلم 182]، [ترمذي 2557]، [أبويعلی 6360]، [ابن حبان 7429]، [الحميدي 1212]
وضاحت: (تشریح حدیث 2837) اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا ثابت ہوتا ہے، حشر و جمع، رؤیت و دیدارِ الٰہی، پنڈلی کا ثبوت، اور صرف ایمان والوں کا سجدہ کرنا ثابت ہوا۔ بخاری شریف میں بہت صراحت سے ہے کہ منافقین سجدہ نہ کر سکیں گے۔ الله تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں جہاں میں صرف اپنے لئے سجدے کی ہمیں توفیق بخشے، آمین۔ پنڈلی کا ہونا اور کھولا جانا اس پر ایمان لازم ہے، اور اس کی تأویل و تمثیل جائز نہیں، نہ اس سلسلے میں غور و خوض کرنا چاہیے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث قدسي) حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا عبد الرحمن بن زياد، حدثنا دخين الحجري، عن عقبة بن عامر الجهني، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "إذا جمع الله الاولين والآخرين فقضى بينهم وفرغ من القضاء، قال المؤمنون: قد قضى بيننا ربنا، فمن يشفع لنا إلى ربنا؟ فيقولون: انطلقوا إلى آدم، فإن الله خلقه بيده، وكلمه، فياتونه، فيقولون: قم فاشفع لنا إلى ربنا. فيقول آدم: عليكم بنوح، فياتون نوحا، فيدلهم على إبراهيم، فياتون إبراهيم، فيدلهم على موسى، فياتون موسى، فيدلهم على عيسى، فياتون عيسى، فيقول: ادلكم على النبي الامي. قال: فياتوني فياذن الله عز وجل لي ان اقوم إليه، فيثور مجلسي اطيب ريح شمها احد قط، حتى آتي ربي فيشفعني ويجعل لي نورا من شعر راسي إلى ظفر قدمي، فيقول الكافرون عند ذلك لإبليس: قد وجد المؤمنون من يشفع لهم، فقم انت فاشفع لنا إلى ربك، فإنك انت اضللتنا. قال: فيقوم، فيثور مجلسه انتن ريح شمها احد قط، ثم يعظم لجهنم، فيقول عند ذلك: وقال الشيطان لما قضي الامر إن الله وعدكم وعد الحق ووعدتكم فاخلفتكم سورة إبراهيم آية 22" إلى آخر الآية.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا دُخَيْنٌ الْحَجْرِيُّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فَقَضَى بَيْنَهُمْ وَفَرَغَ مِنَ الْقَضَاءِ، قَالَ الْمُؤْمِنُونَ: قَدْ قَضَى بَيْنَنَا رَبُّنَا، فَمَنْ يَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّنَا؟ فَيَقُولُونَ: انْطَلِقُوا إِلَى آدَمَ، فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَهُ بِيَدِهِ، وَكَلَّمَهُ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُونَ: قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا. فَيَقُولُ آدَمُ: عَلَيْكُمْ بِنُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَدُلُّهُمْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَدُلُّهُمْ عَلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَدُلُّهُمْ عَلَى عِيسَى، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُ: أَدُلُّكُمْ عَلَى النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ. قَالَ: فَيَأْتُونِي فَيَأْذَنُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِي أَنْ أَقُومَ إِلَيْهِ، فَيَثُورُ مَجْلِسِي أَطْيَبَ رِيحٍ شَمَّهَا أَحَدٌ قَطُّ، حَتَّى آتِيَ رَبِّي فَيُشَفِّعَنِي وَيَجْعَلَ لِي نُورًا مِنْ شَعْرِ رَأْسِي إِلَى ظُفْرِ قَدَمِي، فَيَقُولُ الْكَافِرُونَ عِنْدَ ذَلِكَ لِإِبْلِيسَ: قَدْ وَجَدَ الْمُؤْمِنُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَهُمْ، فَقُمْ أَنْتَ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَإِنَّكَ أَنْتَ أَضْلَلْتَنَا. قَالَ: فَيَقُومُ، فَيَثُورُ مَجْلِسُهُ أَنْتَنَ رِيحٍ شَمَّهَا أَحَدٌ قَطُّ، ثُمَّ يَعْظُمُ لِجَهَنَّمَ، فَيَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ: وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ سورة إبراهيم آية 22" إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب الله تعالىٰ (قیامت کے دن) اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کر کے ان کے درمیان فیصلے کرے گا اور فیصلوں سے فارغ ہوگا تو ایمان والے لوگ کہیں گے: ہمارے درمیان ہمارے رب سے ہماری شفارس کون کرے گا؟ چلو آدم (علیہ السلام) کے پاس چلتے ہیں کیونکہ الله تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا اور ان سے کلام بھی کیا، چنانچہ وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے، آدم (علیہ السلام) کہیں گے: تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، وہ ان کی ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف رہنمائی کریں گے، لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ انہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف رہنمائی کریں گے، لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ انہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیج دیں گے، وہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: میں تمہیں نبی امی کا پتہ دیتا ہوں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ میرے پاس آئیں گے، اللہ تعالیٰ مجھے اپنے پاس کھڑے ہونے کی اجازت دے گا تو (میرے کھڑے ہونے پر) میری جگہ سے ایسی اچھی خوشبو پھوٹ پڑے گی جو (شاید ہی پہلے) کسی نے سونگھی ہو، میں اپنے رب کے پاس پہنچوں گا اور وہ میری شفاعت قبول کرے گا اور میرے اندر سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک نور (ہی نور) بھر دے گا، اس وقت کافر ابلیس سے کہیں گے: ایمان والوں کو تو ایسی شخصیت مل گئی جو ان کے لئے سفارش کرے، تو بھی اٹھ اور ہمارے لئے اپنے رب کے پاس سفارش کر کیونکہ تو نے ہی ہم کو گمراہ کیا تھا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چنانچہ وہ کھڑا ہوگا اور اس کی جگہ سے اتنی زیادہ بدبو چھوٹے گی جو شاید ہی کسی نے پہلے سونگھی ہو، پھر اس کو جہنم کی طرف ہنکا دیا جائے گا، اس وقت شیطان کہے گا: «﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ . . . . . .﴾»“(ابراہیم: 22/14)، ترجمہ: جب فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا کہ: الله تعالیٰ نے تو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری بات مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں نہ تم فریاد رسی کر سکتے ہو (یعنی نہ میں تمہاری سفارش کر سکتا ہوں اور نہ تم میری سفارش کر کے جہنم سے مجھے نجات دلا سکتے ہو) .... الخ۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الرحمن بن زياد بن أنعم قال الحافظ: " والحق فيه أنه ضعيف لكثرة روايته المنكرات "، [مكتبه الشامله نمبر: 2846]» عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [طبراني 320/17، 887]، [نعيم بن حماد فى زوائده على زهد ابن المبارك 374] و [ابن كثير و السيوطي فى تفسير آية المذكورة ابراهيم 22/14]۔ لیکن حدیث شفاعۃ معروف ومشہور صحیح اسانید سے مروی ہے اور کچھ مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7510]، [مسلم 193، وغيرهما] اس حدیث میں شفاعت کا وقت اور شیطان کا اپنے پیروکاروں سے مکالمے کا وقت محل نظر ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2838) اس روایت میں «ثُمَّ يُعْطَمَ لِجَهَّمَ» کا لفظ ہے، بعض سنن دارمی کے نسخوں میں «يَعْظُمُ نَحِيْبُهُمْ» ہے، یعنی ان کا رونا پیٹنا بڑھ جائے گا، بعض میں «يومهم» بعض میں «يومنهم» اور بعض جگہ «يوردهم» کا لفظ آیا ہے، مفہوم سب کا وہی ہے جو اوپر تحریر کیا گیا، بلکہ «يعطه» عربی لغت میں مستعمل نہیں، ہاں لغت میں «اعتطه الرجل» آیا ہے، یعنی جب ہلاکت و بربادی میں پڑ جائے تو یہ لفظ «اعتظم» کا استعمال ہوتا ہے۔ اس حدیث شریف سے بہت سارے مسائل معلوم ہوئے: میدانِ حشر میں جمع ہونا، الله تعالیٰ کا فیصلہ کرنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و سرخروئی، جہاں سارے انبیاء و رسل شفاعت سے گریز کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الله تعالیٰ شفاعت کی اجازت عطا کرے گا: « ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾ » رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مؤمنین کے لئے شفارش کریں گے یا پھر جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اس کے لئے شفارش کریں گے، اور یہ شفاعت جہنمیوں کے جہنم رسید ہونے کے بعد ہوگی، سر سے پیر تک نور سے بھر دینے سے ان لوگوں پر رد ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہتے ہیں، کیونکہ نور کے اندر نور بھرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اس حدیث میں شیطان لعین کی اپنے پیروکاروں سے معذرت اور اللہ کے سامنے سفارش سے عاجز ہونے کا مکالمہ و تصدیق ہے جو قرآن پاک میں مذکور ہے۔ اس حدیث سے بھی الله تعالیٰ کے کلام کرنے کی تصدیق ہوتی ہے جس کا بعض فرقے انکار کرتے ہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں ایمانِ کامل اور شفاعتِ سید الکونین نصیب فرمائے، آمین یارب العالمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الرحمن بن زياد بن أنعم قال الحافظ: " والحق فيه أنه ضعيف لكثرة روايته المنكرات "
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے، میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو میں اپنی دعا کو چھپا رکھوں قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2847]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6304]، [مسلم 198]، [ابن حبان 6461]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه