سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
77. باب في الطَّاعَةِ وَلُزُومِ الْجَمَاعَةِ:
77. امیر کی اطاعت اور لزوم جماعت کا بیان
حدیث نمبر: 2832
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن المبارك، اخبرنا الوليد بن مسلم، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، قال: اخبرني زريق بن حيان مولى بني فزارة، انه سمع مسلم بن قرظة الاشجعي يقول: سمعت عوف بن مالك الاشجعي يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "خيار ائمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم، وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار ائمتكم، الذين تبغضونهم ويبغضونكم، وتلعنونهم ويلعنونكم". قلنا: افلا ننابذهم يا رسول الله عند ذلك؟ قال:"لا، ما اقاموا فيكم الصلاة، الا من ولي عليه وال فرآه ياتي شيئا من معصية الله، فليكره ما ياتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة". قال ابن جابر: فقلت: آلله يا ابا المقدام! آلله، اسمعت هذا من مسلم بن قرظة؟ فاستقبل القبلة، وجثا على ركبتيه , فقال: آلله لسمعت هذا من مسلم بن قرظة , يقول: سمعت عمي عوف بن مالك , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زُرَيْقُ بْنُ حَيَّانَ مَوْلَى بَنِي فَزَارَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُسْلِمَ بْنَ قَرَظَةَ الْأَشْجَعِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ، الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ". قُلْنَا: أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ:"لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ، أَلَا مَنْ وُلِّيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ". قَالَ ابْنُ جَابِرٍ: فَقُلْتُ: آللَّهِ يَا أَبَا الْمِقْدَامِ! آللَّهِ، أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ؟ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ , فَقَالَ: آللَّهِ لَسَمِعْتُ هَذَا مِنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمِّي عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ.
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بہترین حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے حق میں دعائے خیر کرو وہ تمہارے حق میں دعائے خیر کریں، اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں جن کو تم نا پسند کرو اور وہ تمہیں نا پسند کریں، تم ان پر لعنت کرو، وہ تم پرلعنت کریں۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان کی بیعت توڑ کر ان کے خلاف بغاوت نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں، لیکن جب کوئی کسی حاکم کو گناہ کا کام کرتے دیکھے تو اس کو برا جانے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔ اس حدیث کے راوی عبدالرحمٰن بن جابر نے کہا: میں نے زریق بن حیان سے کہا: اے ابوالمقدام! تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے یہ حدیث مسلم بن قرظہ سے سنی؟ زُرَیق یہ سن کر اپنے گھٹنوں کے بل جھکے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے کہا: بے شک قسم الله کی میں نے یہ حدیث مسلم بن قرظہ سے سنی، وہ کہتے تھے میرے چچا سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے تھے میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2831)
اس حدیث میں دونوں قسم کے حکمرانوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے، ایک وہ حکمراں جو عوام کے خیر خواہ اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنے والے ہیں، یہ بہترین حکمراں ہیں، عوام ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور یہ عوام کے لئے دعائیں کرتے ہیں، اور دوسرے بدترین وہ حکمراں ہیں جن کو صرف اپنے اقتدار اور مفادات سے غرض ہوتی ہے، عوام کو عدل و انصاف مہیا کرنے اور ان کی مشکلات حل کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، سب لوگ ان پر لعنت بھیجتے ہیں اور وہ عوام کو برا بھلا کہتے ہیں۔
اس میں دراصل حکمرانوں کو عدل و انصاف کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، کیونکہ عند اللہ و عند الناس محبوب بننے کا یہی طریقہ ہے۔
اور ظالم حکمراں بھی جب تک کفرِ صریح کا ارتکاب نہ کریں، اور شعائرِ اسلام خصوصاً نماز کی پابندی کریں ان کے خلاف خروج بغاوت کی اجازت نہیں، جیسا کہ اس حدیث میں مذکور ہے اور صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا، اور امیر و حاکم، عام مسلمانوں کے ساتھ جماعت کے ساتھ ر ہے، نہ بغاوت کی نہ حکم سے سرتابی کی۔
ایک مرتبہ سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس کچھ نوجوان آئے اور حکمرانوں پر بڑی نکتہ چینی کرتے رہے، بلکہ بعض نے سخت لہجہ و اسلوب اختیار کیا اور بغاوت پر اتر آنے کی بات کہی، تو شیخ محترم (رحمہ اللہ) نے بکمالِ شفقت و حکمت ان سے کہا: ان میں بہت خرابیاں سہی لیکن کیا تم صریح کفر کا مرتکب کسی کو پاتے ہو؟ سب خاموش ہو گئے اور یہ فتنہ اس وقت دب گیا۔
اللہ تعالیٰ آج کے نوجوانوں کو بصیرت اور سمجھ عطا کرے، آمین۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2839]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1855، مثله] و [ابن حبان 4589]، [طبراني 62/18، 115، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.