عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن بہت سی تاریکیوں اور اندھیروں کا باعث ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2558]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2447]، [مسلم 2579]، [ابن حبان 5176]، [موارد الظمآن 1580]
وضاحت: (تشریح حدیث 2551) اس حدیث میں ظلم سے بچنے کا حکم ہے، اور خبردار کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں جو ظلم کرے گا وہ قیامت کے روز بہت سے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے گا، اور یہ ظلم اپنی تمام اقسام پر مشتمل ہے، یعنی ظلم جان پر ہو، مال میں ہو، کسی کی عزت آبرو پر ہو، حقوق الله میں ہو، یا حقوق العباد میں ہو، ہر نوع ظلم ہے اور حرام ہے۔ (مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک الله تعالىٰ (کبھی) اس دین کی تائید و حمایت فاجر شخص سے کرا لیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2559]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3062]، [مسلم 111]، [ابن حبان 4519]، [ابوعوانه 46/1، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2552) اس سے معلوم ہوا کہ ضروری نہیں نیک و صالح اور عالم و فاضل ہی سے دین کی تائید و نصرت ہو، بلکہ عام آدمی بھی اسلام کے لئے باعثِ خیر و برکت ہو سکتا ہے، اور اس کی تازہ مثال کمپیوٹر اور انٹرنیٹ، موبائیل وغیرہ ہیں، جو ایک طرف شر و فساد پھیلاتے ہیں، دوسری طرف ان میں قرآن و حدیث کے سارے علوم بھرے پڑے ہیں جو راہِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، الله تعالیٰ عام مسلمانوں کو اس سے استفادے کی توفیق بخشے۔ آمین۔ واللہ اعلم۔
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں خطیب کی صورت میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”سنو! تم سے پہلے اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور اس ملت کے لوگ قریب ہے کہ تہتر فرتے ہو جائیں، ان میں سے (72) بہتر جہنم میں جائیں گے اور صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا:حراز اہلِ یمن میں ایک قبیلہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2560]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4597]، [أحمد 102/4]، [الشريعة للآجري، ص: 27]، [طبراني: 376/19، 884، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2553) یہ جماعت حقہ اور طائفئہ منصورہ ہے جو جنّت میں جائے گی، اس کا ذکر دوسری صحیح روایت میں ہے: جو اللہ کی کتاب پر اور رسول اللہ کی سنّت پر قائم رہے گی، افراط و تفریط سے دور رہے گی، اور وہ اہل الحدیث ہیں۔ ان شاء اللہ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: اگر وہ اہل الحدیث نہیں تو مجھے علم نہیں کہ وہ کون سا گروہ ہے؟ اس کی تفصیل (2469) کے ضمن میں گذر چکی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے امیر سے ناپسندیدہ چیز دیکھی اسے چاہیے کہ صبر کرے، اس لئے کہ جو کوئی بھی جماعت سے بالشت بھر بھی جدائی اختیار کرے گا اور اسی حال میں مرے گا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2561]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7054]، [مسلم 1849]، [طبراني 161/2، 12759]
وضاحت: (تشریح حدیث 2554) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امیر کی اطاعت ضروری اور جماعت کے ساتھ رہنا واجب ہے۔ مسلمانوں کے درمیان تفریق ڈالنا حرام ہے۔ ابن حبان اور احمد رحمہما اللہ کی روایت میں ہے: گو یہ حاکم و امیر تمہارا مال کھائے، تمہاری پیٹھ پر کوڑے برسائے، جب بھی صبر کرو۔ جب علانیہ کفر کرے اسی وقت اس کو معزول کرنا، یا اس کی اطاعت سے کنارہ کشی، یا اس کے خلاف خروج کرنا درست ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب تک وہ امیر یا حاکم تم کو صاف اور صریح گناہ کا حکم نہ دے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو حاکم اللہ کی نافرمانی کرے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ بہرحال جب تک کفرِ صریح کا ارتکاب نہ ہو امیر و حاکم پر خروج اور اس کی مخالفت جائز نہیں۔ سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس کچھ جوشیلے نوجوان حاضر ہوئے اور کہا کہ امراء و حکام بڑے بے عمل ہیں، برائیاں بڑھ رہی ہیں، ہمیں ان امراء و حکام کے خلاف نکل پڑنا چاہیے۔ شیخ رحمہ اللہ نے بڑی مقانت و سنجیدگی سے فرمایا: کیا تم ان امراء و حکام کے اندر کفیر صریح پاتے ہو؟ کہنے لگے: نہیں، شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: تو پھر خاموش رہو، خلفشار نہ پھیلاؤ۔
ایاس بن سلمہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ہمارے اوپر اسلحہ تان لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2562]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7053]، [مسلم 99]، [أبوعوانه 58/1]، [طبراني 16/7، 6344]، [أحمد 46/4]، [أبويعلی 7261، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2555) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے پر اصلحہ اٹھانا، یا نکالنا جائز نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: جو شخص مسلمان پر ناحق ہتھیار اٹھا دے اور اسے حلال نہ جانے تو گنہگار ہے، اور جو حلال جانے تو وہ کافر ہے، اور یہ حدیث حلال جاننے والے پر محمول ہے، یا اس سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، عن شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، قال: كان محمد بن جبير بن مطعم يحدث عن معاوية انه قال وهو عنده في وفد من قريش: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "إن هذا الامر في قريش، لا يعاديهم احد إلا كبه الله على وجهه، ما اقاموا الدين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ".
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: محمد بن جبیر بن مطعم حدیث بیان کرتے تھے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس وقت محمد قریش کے وفد میں ان کے پاس تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے کہ: ”یہ خلافت قریش میں رہے گی اور جو بھی ان سے دشمنی کرے گا، الله تعالیٰ اس کو سر نگوں اوندھا کر دے گا جب تک وہ (قریش) دین پر قائم رہیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2563]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3500]، [أحمد 94/4]، [طبراني 338/9، 780]، [البيهقي 141/8] و [دلائل النبوة 521/5]
وضاحت: (تشریح حدیث 2556) قریش کے لوگ جب دین اور شریعت کو چھوڑ دیں گے تو ان میں سے خلافت و حکومت جاتی رہے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسی پیشین گوئی کی تھی ویسا ہی ہوا۔ پانچ چھ سو برس تک خلافت بنو امیہ اور بنو عباسیہ قائم رہی جو قریشی تھے، جب انہوں نے شریعت پر چلنا چھوڑ دیا تو ان کی خلافت چھن گئی، اس وقت سے آج تک پھر قریش کو خلافت اور سرداری نہیں ملی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش اور انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم اور غفار و اشجع ان تمام قبائل کا مولی اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2564]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3504]، [مسلم 2520]، [أبويعلی 867]، [أحمد 291/2، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ارايتم إن كان اسلم، وغفار خيرا من الحليفين اسد وغطفان، اترونهم خسروا؟". قالوا: نعم. قال:"فإنهم خير منهم". قال:"افرايتم إن كانت مزينة، وجهينة خيرا من تميم وعامر بن صعصعة ومد بها صوته اترونهم خسروا؟". قالوا: نعم. قال:"فإنهم خير منهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ أَسْلَمُ، وَغِفَارٌ خَيْرًا مِنَ الْحَلِيفَيْنِ أَسَدٍ وَغَطَفَانَ، أَتُرَوْنَهُمْ خَسِرُوا؟". قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ:"فَإِنَّهُمْ خَيْرٌ مِنْهُمْ". قَالَ:"أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَتْ مُزَيْنَةُ، وَجُهَيْنَةُ خَيْرًا مِنْ تَمِيمٍ وَعَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ أَتُرَوْنَهُمْ خَسِرُوا؟". قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ:"فَإِنَّهُمْ خَيْرٌ مِنْهُمْ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ اگر (قبیلہ) اسلم و غفار دونوں حلیف اسد و غطفان سے بہتر ہوں تو کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ آخر الذکر ٹوٹے و خسارے میں رہے؟“(یعنی اسد و غطفان کے لوگ)، صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ (اسلم و غفار) ان سے بہتر ہیں۔“ پھر فرمایا: ”بتاؤ اگر مزینہ و جہینہ بنوتمیم و بنوعامر بن صعصعہ سے بہتر ہوں“ تو آپ کی آواز بلند ہوگئی، ”کیا یہ آخر الذکر خسارے میں ہوں گے؟“ عرض کیا: یقیناً برباد ہوں گے، فرمایا: ”یہ ان سے بہتر ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2565]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3515]، [مسلم 2522]، [ابن حبان 7390، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 2557 سے 2559) دورِ جاہلیت میں جہینہ، مزینہ، اسلم اور غفار کے قبیلے بنوتمیم، بنوغطفان اور بنوعامر بن صعصعہ وغیرہ قبیلوں کے مقابلے میں کم درجہ سمجھے جاتے تھے، پھر جب اسلام آیا تو پہلے چاروں قبیلوں نے اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی کی اس لئے شرف و فضیلت میں بنوتمیم وغیرہ قبائل سے یہ لوگ بڑھ گئے۔ اس حدیث سے ان قبائل کی فضیلت و منزلت ثابت ہوئی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبیلہ غفار اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2566]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3514]، [مسلم 2514]، [ابن حبان 7133]
وضاحت: (تشریح حدیث 2559) اس حدیث میں قبیلہ غفار اور قبیلہ اسلم کی فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام سے بطورِ نیک فال لی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ”غفار الله تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اسلم اللہ تعالیٰ ان کو سلامت رکھے اور قبیلہ عصیہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2567]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3513]، [مسلم 2518]، [ترمذي 3941]، [ابن حبان 7289]، [شرح السنة للبغوي 3851، 3852]
وضاحت: (تشریح حدیث 2560) قبیلہ غفار کے لوگ زمانۂ جاہلیت میں حاجیوں کا مال چراتے، چوری کرتے تھے، اسلام لانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو معاف کر دیا، اور قبیلہ عصیہ والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کر کے غداری کی اور بئر معونہ والوں کو شہید کر دیا تھا۔ اسلم، غفار، مزینہ، جہینہ اور اشجع بڑے قبائل تھے، ان کے اسلام لانے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے قبیلے خود بخود مشرف بالاسلام ہوئے اس لئے بھی ان کی فضیلت بڑھ جاتی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه