(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا ابان، حدثنا يحيى، عن ابي سلمة، عن عبادة بن الصامت، قال: قلت: يا نبي الله، قول الله: لهم البشرى في الحياة الدنيا سورة يونس آية 64، فقال:"سالتني عن شيء ما سالني عنه احد قبلك او احد من امتي، قال: هي الرؤيا الصالحة، يراها المسلم او ترى له".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَوْلُ اللَّهِ: لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة يونس آية 64، فَقَالَ:"سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ أَوْ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، قَالَ: هِيَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اللہ کے اس فرمان «لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا» یعنی ان کے لئے خوش خبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت کی زندگی میں، کا مطلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ایسی بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے یا میری امت میں سے کسی نے نہیں پوچھی“، فرمایا: ”اس سے مراد اچھا خواب ہے جو مسلمان خود دیکھے یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص دیکھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إذا كان أبو سلمة سمعه من عبادة قال ابن خراش: لم يسمع أبو سلمة من عبادة بن الصامت، [مكتبه الشامله نمبر: 2182]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2276]، [ابن ماجه 3898]، [أحمد 315/5، 321، 325]، [الحاكم 391/4]، [أبويعلی 417، 2387]، [ابن حبان 1896]، [الحميدي 495]
وضاحت: (تشریح حدیث 2172) عہدِ نبوت میں وحیٔ الٰہی سے غیب کی خبر اور باتیں معلوم ہوتی تھیں، خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی قیامت تک نہیں آئے گا، اب مومنِ صالح کے خواب ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آگاہی عطا فرماتا ہے، اور جو شخص سچا امانت دار ہو اس کے خواب بھی سچے ہوتے ہیں، جھوٹے فریبی لوگوں کے خواب کا اعتبار نہیں، اسی طرح بدہضمی، برے خیالات سے جو خواب نظر آتے ہیں ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إذا كان أبو سلمة سمعه من عبادة قال ابن خراش: لم يسمع أبو سلمة من عبادة بن الصامت
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2183]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6987]، [مسلم 2264]، [أبوداؤد 5018]، [ترمذي 2271]، [أبويعلی 3237، 3430]، [ابن حبان 6043]
وضاحت: (تشریح حدیث 2173) اس حدیث میں مومن کے خواب کی حقانیت کا اشارہ ہے، جو لوگ خواب کو محض وہم و گمان تصور کرتے ہیں، گویا اس حدیث کا وہ انکار کرتے ہیں۔ نبیوں کے خواب سچے ہوتے تھے، خواب کی حقیقت اور بعض خوابوں کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ ان چھیالیس حصوں کا علم اللہ ہی کو ہے، ممکن ہے الله تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان سے آگاہ فرما دیا ہو، ان حصوں کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات ہیں، اور ان سے اچھے خواب کی فضیلت مراد ہے۔
سیدہ ام کرز الکعبیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”نبوت ختم ہوئی (یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا) لیکن خوشخبری دینے والے خواب باقی رہیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2184]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 3896]، [ابن حبان 6047]، [الحميدي 351]
وضاحت: (تشریح حدیث 2174) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ بعض خواب سچے ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اطمینان و خوشی بہم پہنچاتا ہے۔ یہ حدیث صحیح اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان برحق ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي الاحوص، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من رآني في المنام، فقد رآني، فإن الشيطان لا يتمثل مثلي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ، فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ مِثْلِي".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے (بیشک) مجھ کو ہی دیکھا اس لئے کہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2185]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6994]، [ترمذي 2276]، [ابن ماجه 3900]، [أبويعلی 5250]، [الحميدي 395]
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے حق (سچ) د یکھا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2186]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6996]، [مسلم 2267]، [أبوداؤد 5023]، [أحمد 306/5]
وضاحت: (تشریح احادیث 2175 سے 2177) خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا ہو جانا بڑی خوش نصیبی ہے، اور یہ سعادت اچھے نیک متقی لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے، اور جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ وصورت میں دیکھا جیسا کہ کتابوں میں مرقوم ہے تو اس کا خواب سچا ہے، اور اس نے بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، کیونکہ شیطان کی یہ طاقت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل اختیار کرے، نیز یہ کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سے کوئی آدمی صحابی نہیں کہلائے گا۔ علمائے کرام نے کہا: اور خواب میں اگر کوئی خلافِ شرع حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا وہ بھی حجت اور قابلِ قبول نہ ہوگا، اور اس کو بلاشبہ خواب دیکھنے والے کا وہم و دھوکہ کہا اور سمجھا جائے گا۔ (ملخص من وحیدی)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الرؤيا الصالحة من الله، والحلم من الشيطان، فإذا حلم احدكم حلما يخافه، فليبصق عن شماله ثلاث مرات، وليتعوذ بالله من الشيطان، فإنها لا تضره".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنْ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنْ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ حُلْمًا يَخَافُهُ، فَلْيَبْصُقْ عَنْ شِمَالِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ".
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے، پس اگر کوئی برا خواب دیکھے جس سے اسے خوف آتا ہو تو وہ اپنے بائیں جانب تین بار تھوکے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے، وہ خواب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2187]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6968]، [مسلم 2261]، [أبوداؤد 5021]، [ابن حبان 6059]، [الحميدي 423]
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن عبد ربه بن سعيد، قال: سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن يقول: إن كنت لارى الرؤيا تمرضني، فذكرت ذلك لابي قتادة، قال: وانا إن كنت لارى الرؤيا تمرضني حتى سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "الرؤيا الصالحة من الله، فإذا راى احدكم ما يحب، فليحمد الله، ولا يحدث بها إلا من يحب، وإذا راى ما يكرهه، فليتفل عن يساره ثلاثا، وليتعوذ بالله من شرها، ولا يحدث بها احدا، فإنها لن تضره".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ: إِنْ كُنْتُ لَأَرَى الرُّؤْيَا تُمْرِضُنِي، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: وَأَنَا إِنْ كُنْتُ لَأَرَى الرُّؤْيَا تُمْرِضُنِي حَتَّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنْ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ، فَلْيَحْمَدْ اللَّهَ، وَلَا يُحَدِّثْ بِهَا إِلَّا مَنْ يُحِبُّ، وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُه، فَلْيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا، وَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا، وَلَا يُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں ایسے خواب دیکھتا تھا جو مجھ کو بیمار کر ڈالتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: میں بھی ایسے خواب دیکھتا تھا جو مجھے بیمار کر دیتے یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایسا دیکھے جو اسے اچھا لگے تو اس پر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، اور اسی کو وہ خواب بتائے جس سے وہ محبت کرتا ہے، اور اگر ایسا خواب دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اپنے بائیں پہلو پر تین بار تھوتھو کر لے اور اس کے شر سے حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے (یعنی «أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّهَا» کہے) اور اس خواب کو کسی سے بھی بیان نہ کرے، وہ خواب ہرگز اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2188]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5747، 6995]، [مسلم 2261، وغيرهما و تقدم تخريجه]
وضاحت: (تشریح احادیث 2177 سے 2179) ہر انسان مختلف اسباب کے تحت اچھے برے ہر قسم کے خواب دیکھتا ہے۔ حدیثِ صحیح کے مطابق اچھے خواب پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر کوئی برا اور ڈراؤنا خواب دیکھے تو کروٹ بدل لے، بائیں طرف تین بار تھو تھو کرے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے، یعنی «أَعُوْدُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ» يا «أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّهَا» کہے۔ ابوداؤد اور ترمذی میں ڈراؤنے خواب اور گھبراہٹ و پریشانی کے وقت یہ پڑھے: «أَعُوْذُ بِكَلِمَاتَ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ وَأَنْ يَحْضُرُوْنِ.»(ترجمہ: ”میں اللہ کے مکمل کلمات کی پناہ پکڑتا ہوں، اس کے غصہ اور اس کی سزا سے، اور اس کے بندوں کے شر سے، اور شیطانوں کے چوکوں سے، اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس حاضر ہوں۔ “) یا نماز پڑھنے لگ جائے اور اطمینان رکھے وہ خواب اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا، اور برے خواب کو کسی سے بھی بیان نہ کرے، ہو سکتا ہے تعبیر بتانے والا نادان ہو اور اسے زیادہ پریشانی میں مبتلا کر دے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن مخلد بن حسين، عن هشام، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الرؤيا ثلاث: فالرؤيا الحسنة بشرى من الله، والرؤيا تحزين من الشيطان، والرؤيا مما يحدث به الإنسان نفسه، فإذا راى احدكم ما يكرهه، فلا يحدث به، وليقم، وليصل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ: فَالرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ بُشْرَى مِنْ اللَّهِ، وَالرُّؤْيَا تَحْزِينٌ مِنْ الشَّيْطَانِ، وَالرُّؤْيَا مِمَّا يُحَدِّثُ بِهِ الْإِنْسَانُ نَفْسَهُ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُهُ، فَلَا يُحَدِّثْ بِهِ، وَلْيَقُمْ، وَلْيُصَلِّ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: اچھے خواب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہیں، ڈراونے خواب شیطان کی طرف سے اندوہناک خواب، ایسے خواب جو انسان خیالات و تصورات میں سوچتا ہے وہ خواب میں نظر آئے، لہٰذا تم میں سے کوئی اگر برا خواب دیکھے تو اس کو بیان نہ کرے اور اٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2189]» یہ حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7017]، [مسلم 2263]، [أبوداؤد 5019]، [ترمذي 2270]، [ابن حبان 6040، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2179) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ برا خواب دیکھنے پر اس کے شر سے اور پریشانی سے بچنے کے لئے نماز پڑھنے لگ جائے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن مخلد بن حسين، عن هشام، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا اقترب الزمان، لم تكد رؤيا المؤمن تكذب، واصدقهم رؤيا اصدقهم حديثا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ، لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَكْذِبُ، وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قیامت قریب ہو گی تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا، اور ان میں سب سے سچا خواب اس کا ہو گا جو باتوں میں سب سے سچا ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2190]» یہ حدیث صحیح ہے۔ پہلا جملہ بخاری و مسلم میں موجود ہے جس کا حوالہ اوپر درج کیا جاچکا ہے۔ مزید دیکھئے: [الحاكم 390/4]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا: ”جو شخص اپنے خواب میں جھوٹ بولے (یعنی جو کچھ دیکھا نہیں کہے میں نے ایسا دیکھا ہے)، اس کو قیامت کے دن دو جو کے دانے میں گرہ لگانے کا حکم دیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الأعلى بن عامر، [مكتبه الشامله نمبر: 2191]» اس روایت کی سند ضعیف و متکلم فیہا ہے، لیکن متعدد طرق سے مروی ہے۔ نیز ترمذی نے اسے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2282، 2283]، [أحمد 76/1، 91]، [أبويعلی 2577]، [ابن حبان 5685]، [الحميدي 541]، [الحاكم 392/4]
وضاحت: (تشریح احادیث 2180 سے 2182) جو کے دانے میں گرہ لگانا ناممکن ہے۔ بعض روایات میں ہے: ایک جو کے دانے میں گرہ لگانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ ایسا نہ کر سکے گا، اور یہ بہت بڑا عذاب ہو گا۔ لہٰذا جھوٹا خواب بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ علامہ بدیع الزماں رحمہ اللہ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں: چونکہ خواب محل ہے اخبارِ غیبیہ کا اور خصوصاً خوابِ صالح ایک شعبہ ہے نبوت کا، پس جھوٹ باندھنا اس میں گویا شعبہ ہے دعویٰ کاذبۂ نبوّت کا، یہی سبب ہے اس میں وعید وارد ہونے کا۔ اور بعض نے کہا: سبب وعيدِ شدید کا یہ ہے کہ رؤیا کاذبہ میں جھوٹ باندھنا ہے اللہ تعالیٰ پر، اور تخصیص شعبہ کے گرہ لگانے کے لئے اس واسطے کہ مادہ اس کا اور شعیر کا قریب قریب ہے، گویا اشارہ ہے کہ یہ تیری بے شعوری کی سزا ہے کہ عقدِ شعیر گلے پڑا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الأعلى بن عامر