سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحمٰن کی عبادت کرو، سلام کو رواج دو (پھیلاؤ)، کھانا کھلاؤ، جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2126]» اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1855]، [ابن ماجه 3251]، [أبويعلی 6234]، [ابن حبان 489]، [الموارد 1360]
وضاحت: (تشریح احادیث 2116 سے 2118) مذکورہ بالا روایت ترمذی میں اسی طرح اور ابن ماجہ میں یہ اضافہ ہے کہ لوگو! سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور ناتوں کو جوڑو، اور جب لوگ سو رہے ہوں تو راتوں میں نماز پڑھو، جنّت میں سلامتی کے ساتھ چلے جاؤ۔ یعنی افشائے سلام، اطعامِ طعام، صلۃ الارحام، صلاة في الليل والناس نیام پر جس نے عمل کیا اس کو جنّت ضرور ملے گی، کیونکہ یہ سارے آداب و اصول سعادت و نیک بختی کے ہیں۔ افشائے سلام سے مراد السلام علیکم کہنا ہے جس کا اکمل ترین طریقہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہے، سلام کرنا سنّت اور جواب دینا واجب ہے۔ مذکورہ بالا روایت میں تینوں امور بصیغۂ امر مذکور ہیں جو ظاہری طور پر وجوب پر دلالت کرتے ہیں، یعنی سلام کرنا، کھانا کھلانا اور رب کی عبادت و اطاعت کرنا، یہ سب امور وجوب کا درجہ رکھتے ہیں، ان کے بجا لانے پر بہت ثواب و اجر اور جنّت کی بشارت ہے، نہ کرنے پر تارکِ سنّت ہونے اور جنّت سے دوری کا موجب ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو ان اعمالِ صالحہ کی توفیق بخشے۔ آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کو دعوت دی جائے تو دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو۔“ راوی نے کہا: اور سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما شادی اور غیر شادی کی دعوت میں جاتے تھے، روزے سے ہوتے تب بھی دعوت میں جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2127]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5179]، [مسلم 1419]، [أبوداؤد 3726]، [ابن حبان 5294]
وضاحت: (تشریح حدیث 2118) سبحان اللہ! اتباعِ سنّت کی کیا شان ہے، صحابیٔ جلیل متبعِ سنّت شیدائیٔ پیغمبر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کہ ”دعوت قبول کرو“ کتنا پاس و لحاظ کہ نفلی روزے میں بھی دعوت قبول کر لیتے ہیں اور اپنے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے سرمو انحراف نہیں کرتے، کاش یہی جذبہ آج کے مسلمانوں میں بیدار ہوجائے۔ اس حدیث سے شادی و غیر شادی میں دعوت قبول کرنے کا حکم ہے، اور اگر نفلی روزہ ہے اور دعوت دی جائے تو ایسی حالت میں روزہ توڑ دینا بہتر ہے کیونکہ حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے اور اس سے آپس میں میل ملاپ پیدا ہوتا ہے اور باہمی محبت بڑھتی ہے۔
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چوہیا کے بارے میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گئی ہو، فرمایا: ”اس کو نکال دو اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال پھینکو اور (باقی بچا گھی) کھا لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2128]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 235]، [أبوداؤد 3841]، [ترمذي 1798]، [نسائي 4269]
وضاحت: (تشریح حدیث 2119) یہ حکم ایسی صورت میں ہے جب کہ گھی جما ہوا ہو کیونکہ اس کی تاثیر سارے گھی میں نہ پہنچے گی، پگھلا ہوا گھی سب ہی پھینک دینا بہتر ہے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: چوہیا گھی میں گر کر مر جائے (تو کیا کیا جائے؟)، فرمایا: ”اس کو اور آس پاس کے گھی کو نکال پھینکو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2130]» اس روایت کی سند قوی ہے اور پیچھے (761) میں گذرچکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند الحميدي 314]
اس سند سے بھی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مثل سابق مروی ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر گھی پگھلا ہوا ہو تو سب پھینک دیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2131]» اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2120 سے 2123) ان تمام احادیث و روایات سے معلوم ہوا کہ اگر گھی میں چوہیا گر کر مر جائے تو اگر جما ہوا گھی ہو تو آس پاس کا گھی پھینک کر باقی گھی کھایا جا سکتا ہے اگر وہ متاثر نہ ہوا ہو، پگھلا ہوا گھی سب کا سب پھینک دینا چاہیے کیونکہ اس سے صحتِ انسان کو ضرر کا اندیشہ ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، حدثنا ثور بن يزيد، حدثنا حصين الحميري، اخبرني ابو سعد الخير، عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من اكل، فليتخلل، فما تخلل، فليلفظه، وما لاك بلسانه، فليبتلع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ الْحِمْيَرِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَعْدٍ الْخَيْرُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَكَلَ، فَلْيَتَخَلَّلْ، فَمَا تَخَلَّلَ، فَلْيَلْفِظْهُ، وَمَا لَاكَ بِلِسَانِهِ، فَلْيَبْتَلِعْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کھانا کھائے تو خلال کر لے، اور جو خلال سے نکلے اس کو تھوک دے، اور جو اس کی زبان سے لگا رہے اس کو نگل جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2132]» اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث نمبر (685) میں اس کی تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [أبوداؤد 35]، [ابن ماجه 337]
وضاحت: (تشریح حدیث 2123) اس حدیث سے کھانے کے بعد تنکے سے دانتوں کا خلال کرنا، اور جو کچھ دانتوں کے بیچ پھنس جائے اس کو نکال دینا ثابت ہوا، اور یہ حفظانِ صحت کے اصولوں میں سے ہے۔ سبحان الله! شریعتِ اسلام میں کوئی چیز تشنہ نہیں، ہر چیز اور ہر قسم کے مسائل اس میں موجود ہیں۔