عبدالرحمٰن بن سمرہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار سے منع فرمایا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس سے مراد غزوات میں تقسیم سے پہلے کی مال غنیمت کی لوٹ مار ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2038]» اس حدیث کی سند جید ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3474]، [ابن حبان 3267، 5170]، [موارد الظمآن 1270، 1680]، [أحمد 62/5]، [ابن ابي شيبه 2369]، [طحاوي مشكل الآثار 130/1]۔ ابولبید کا نام لمازہ بن زبار ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2033) لوٹ مار کسی وقت بھی جائز نہیں، خواہ وہ مال غنیمت کی ہو یا کسی اور کے مال کی، ارشادِ ربانی ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ...﴾[النساء: 29] »”اے مومنو! تم ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ “ اس حدیث میں لوٹ مار اور رہزنی سے منع کیا گیا ہے اور یہ حرام ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن الاوزاعي، عن حسان بن عطية، عن ابي واقد، قال: قلنا: يا رسول الله، إنا بارض تكون بها المخمصة، فما يحل لنا من الميتة؟ قال: "إذا لم تصطبحوا، ولم تغتبقوا، ولم تختفئوا بقلا فشانكم بها". قال: الناس يقولون بالحاء، وهذا قال بالخاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ تَكُونُ بِهَا الْمَخْمَصَةُ، فَمَا يَحِلُّ لَنَا مِنْ الْمَيْتَةِ؟ قَالَ: "إِذَا لَمْ تَصْطَبِحُوا، وَلَمْ تَغْتَبِقُوا، وَلَمْ تَخْتَفِئُوا بَقْلًا فَشَأْنُكُمْ بِهَا". قَالَ: النَّاسُ يَقُولُونَ بِالْحَاءِ، وَهَذَا قَالَ بِالْخَاءِ.
ابوواقد نے کہا: ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم ایسی سرزمین پر جاتے ہیں جہاں قحط سالی (بھک مری) ہے، ایسی صورت میں ہمارے لئے مردہ جانور میں سے کیا چیز حلال ہے؟ فرمایا: ”جب تم کو دوپہر کا کھانا ملے نہ شام کا اور تم کو سبزی بھی میسر نہ آئے تو مردہ جانور کھا سکتے ہو۔“ راوی نے کہا: لوگوں نے «حاء» سے «تحتفوا» روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں خاء سے «تختفوا» مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 2039]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [أحمد 218/5]، [طبراني 3315، 3316]، [البيهقي 356/9]۔ لیکن اس کے شواہد اور بھی ہیں جن سے اس حدیث کی سند قوی ہو جاتی ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 6918]
وضاحت: (تشریح حدیث 2034) جب آدمی بھوک سے پریشان ہوجائے اور جان جانے کا خطرہ ہو تو بقدرِ ضرورت وہ مردہ جانور کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ وہ سڑ گل نہ گیا ہو۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ﴾[المائده: 3] » یعنی بھوک کی شدت سے بیتاب ہو کر آدمی (جو چیزیں حرام کی گئیں ہیں «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ...... إلخ») ان کو مجبوری کے عالم میں کھا سکتا ہے اور بہت زیادہ نہ کھائے کہ اس کو ضرر پہنچائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پاک و اچھی چیز حلال فرمائی ہیں اور خبائث کو حرام کر دیا ہے جو صحتِ انسانی کو نقصان پہنچائے: « ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾[الأعراف: 107] »(ترجمہ: وہ اچھی چیزیں تمہارے لئے حلال کرتا ہے اور بری چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے)۔ نیز ارشادِ کبریا ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾[البقره: 172] »”اے مومنو! ہم نے تم کو جو پاکیزہ چیزیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ “
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن يعقوب بن بحير، عن ضرار بن الازور، قال: اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم لقحة، فامرني ان احلبها، فحلبتها، فجهدت في حلبها، فقال "دع داعي اللبن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ بَحِيرٍ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ الْأَزْوَرِ، قَالَ: أَهْدَيْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقْحَةً، فَأَمَرَنِي أَنْ أَحْلُبَهَا، فَحَلَبْتُهَا، فَجَهَدْتُ فِي حَلْبِهَا، فَقَالَ "دَعْ دَاعِيَ اللَّبَنِ".
سیدنا ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا دودھ نکالنے کا حکم دیا۔ میں نے اس کا سارا دودھ دوھ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ دودھ چھوڑ دو۔“(تاکہ دودھ جلدی نکل آئے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2040]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 5283]، [موارد الظمآن 1999]، [ابن قانع، معجم الصحابة، ترجمة 470]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں: چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور چھوٹی چڑیا کے قتل کرنے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2042]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5267]، [ابن ماجه 3224]، [أحمد 332/1]، [ابن حبان 5646]، [الموارد 1078]
وضاحت: (تشریح احادیث 2035 سے 2038) صرد ایسا پرندہ ہے جس کا سر اور چونچ بڑی ہوتی ہے، آدھا کالا آدھا سفید ہوتا ہے اور بڑے پر ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا چاروں قسم کے جانور انسانی زندگی کے لئے کچھ زیادہ مضر نہیں ہیں بلکہ ان سے کچھ نہ کچھ فائدے ہیں، اس لئے ان کے مارنے اور قتل کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، مثلاً شہد کی مکھی شہد بناتی ہے جو بہت ہی فائدہ مند چیز ہے، چیونٹی گھر میں گرا پڑا اناج روٹی چاول اٹھا کر لے جاتی ہے اور سڑاند و بساند وکثافت دور ہوتی ہے۔ ہدہد میں گوشت بھی کم ہوتا ہے اور بے ذائقہ بھی، اسی طرح کا پرندہ صرد ہے، ان کے مارنے سے کوئی فائدہ نہیں، دوسرے یہ تمام جانور اور ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے تو اس تسبیح سے روکا نہ جائے۔ « ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ﴾[النور: 41] » اور اسی طرح [سورة الحج: 18] میں مذکور ہے۔
سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی اور گرگٹ کو قتل کر ڈالنے کا حکم فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2043]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3307]، [مسلم 2237]، [نسائي 2885]، [ابن ماجه 3228]، [ابن حبان 5634]، [الحميدي 353]
وضاحت: (تشریح حدیث 2038) ہر چند کہ یہ جانور کسی کو کاٹتے نہیں نہ ایذا دیتے ہیں لیکن ان سے دل کو نفرت پیدا ہوتی ہے، بعض نے کہا ان میں سمیت زہریلا پن ہوتا ہے، بعض نے کہا وہ عرب کے ملک میں اونٹنی کا تھن پکڑ کر دودھ چوس لیتا ہے۔ بخاری شریف (2359) میں ہے: گرگٹ نے ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھونکا تھا، یعنی اس نے آگ بھڑکانے کی کوشش کی تھی، مولانا داؤد راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ ایک زہریلا جانور ہے جو ہر آن اپنے رنگ بھی بدلتا رہتا ہے، جسے مارنے کا حکم حدیث شریف میں ہے اور اسے مارنے پر ثواب بھی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجثمہ سے اور جلّالہ کے دودھ کو پینے سے اور مشک میں منہ لگا کر پانی پینے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2044]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3719]، [ترمذي 1825]، [نسائي 4460]، [ابن حبان 5399]، [موارد الظمآن 1363]
وضاحت: (تشریح حدیث 2039) مجثمہ کا معنی پیچھے گذر چکا ہے، جلالہ وہ جانور ہے جو نجاست کھاتا ہو، چاہے بکری ہو گائے یا مرغی یا کوئی اور جانور، اس کا گوشت نجس ہونے کے سبب کھانا درست نہیں۔ بعض علماء نے کہا: کئی دن باندھ کر رکھیں اور نجاست نہ کھانے دیں تو گوشت پاک ہوتا ہے۔ مشک سے منہ لگا کر پانی پینے میں پھندا اور گٹا لگنے کا ڈر نیز پانی کے ساتھ کسی اور چیز کے پی جانے کا خوف ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا۔ والله اعلم۔