(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن الاوزاعي، عن حسان بن عطية، عن ابي واقد، قال: قلنا: يا رسول الله، إنا بارض تكون بها المخمصة، فما يحل لنا من الميتة؟ قال: "إذا لم تصطبحوا، ولم تغتبقوا، ولم تختفئوا بقلا فشانكم بها". قال: الناس يقولون بالحاء، وهذا قال بالخاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ تَكُونُ بِهَا الْمَخْمَصَةُ، فَمَا يَحِلُّ لَنَا مِنْ الْمَيْتَةِ؟ قَالَ: "إِذَا لَمْ تَصْطَبِحُوا، وَلَمْ تَغْتَبِقُوا، وَلَمْ تَخْتَفِئُوا بَقْلًا فَشَأْنُكُمْ بِهَا". قَالَ: النَّاسُ يَقُولُونَ بِالْحَاءِ، وَهَذَا قَالَ بِالْخَاءِ.
ابوواقد نے کہا: ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم ایسی سرزمین پر جاتے ہیں جہاں قحط سالی (بھک مری) ہے، ایسی صورت میں ہمارے لئے مردہ جانور میں سے کیا چیز حلال ہے؟ فرمایا: ”جب تم کو دوپہر کا کھانا ملے نہ شام کا اور تم کو سبزی بھی میسر نہ آئے تو مردہ جانور کھا سکتے ہو۔“ راوی نے کہا: لوگوں نے «حاء» سے «تحتفوا» روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں خاء سے «تختفوا» مروی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2034) جب آدمی بھوک سے پریشان ہوجائے اور جان جانے کا خطرہ ہو تو بقدرِ ضرورت وہ مردہ جانور کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ وہ سڑ گل نہ گیا ہو۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ﴾[المائده: 3] » یعنی بھوک کی شدت سے بیتاب ہو کر آدمی (جو چیزیں حرام کی گئیں ہیں «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ...... إلخ») ان کو مجبوری کے عالم میں کھا سکتا ہے اور بہت زیادہ نہ کھائے کہ اس کو ضرر پہنچائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پاک و اچھی چیز حلال فرمائی ہیں اور خبائث کو حرام کر دیا ہے جو صحتِ انسانی کو نقصان پہنچائے: « ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾[الأعراف: 107] »(ترجمہ: وہ اچھی چیزیں تمہارے لئے حلال کرتا ہے اور بری چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے)۔ نیز ارشادِ کبریا ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾[البقره: 172] »”اے مومنو! ہم نے تم کو جو پاکیزہ چیزیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ “
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 2039]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [أحمد 218/5]، [طبراني 3315، 3316]، [البيهقي 356/9]۔ لیکن اس کے شواہد اور بھی ہیں جن سے اس حدیث کی سند قوی ہو جاتی ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 6918]