سیدنا ابورزین لقيط بن عامر عقیلی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم دور جاہلیت میں ماہ رجب میں قربانی کیا کرتے تھے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: ”ذبح کرنے میں کوئی برائی نہیں۔“(یعنی جب اللہ کے لئے ذبح کیا جائے تو کسی بھی مہینے میں قربانی ہو کوئی حرج نہیں «كما فى النسائي وغيره»)۔ امام وکیع رحمہ اللہ نے کہا: میں اس کو کبھی ترک نہیں کرتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2008]» اس روایت کی سند جید ہے، دیکھئے: [نسائي 4244]، [ابن ماجه 3167 نحوه]، [ابن حبان 5891]، [موارد الظمآن 1067]
وضاحت: (تشریح حدیث 2003) فرع اور عتیرہ کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ فرع اونٹنی کا پہلونٹا بچہ جو دیوی دیوتاؤں کے نام پر قربان کر دیا جاتا تھا جو اسلام میں حرام ہے، رہا عتیرہ یہ بھی بتوں کے لئے رجب میں قربان کیا جاتا ہے تو یہ بھی حرام ٹھہرا، ہاں اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے تو رجب، شعبان، رمضان اور دیگر ہر مہینے میں اللہ کے نام کی قربانی جائز ہے، امام وکیع رحمہ اللہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔
سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کفایت کرتی ہے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2004) نومولود بچے بچی کی پیدائش کے ساتویں دن جو قربانی کی جاتی ہے اس کو عقیقہ کہتے ہیں، جو ساتویں دن سنّت ہے۔ بعض علماء نے واجب اور بعض نے مستحب کہا ہے، پہلا قول اصح ہے جیسا کہ حدیثِ مذکور میں وارد ہے، لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی سنّت ہے، مجبوری میں لڑکے کی طرف سے ایک بکری بھی ذبح کی جاسکتی ہے، سنّت طریقہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ریا و نمود اور اسراف و تبذیر سے بچا جائے تاکہ رحمت کے بجائے یہ سنّت زحمت نہ بنے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے قربانی کی طرح عقیقہ میں بھی بے عیب جانور کی قید لگائی ہے، نیز یہ کہ عقیقے میں اونٹ، گائے وغیرہ بھی ذبح کی جا سکتی ہے۔ (وحیدی)۔
سیدنا سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے کے ساتھ عقیقہ لگا ہوا ہے سو تم اس کی طرف سے جانور ذبح کرو، اور اس کی گندگی دور کرو۔“(یعنی بال منڈاؤ اور ختنہ کراؤ اور غسل دو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إن كانت حفصة سمعته من سلمان. والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2010]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5472]، [أبوداؤد 2839]، [ترمذي 1515]، [نسائي 4225]، [ابن ماجه 3164]، [الحميدي 842]، [نيل الأوطار 223/5-227]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إن كانت حفصة سمعته من سلمان. والحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان بن مسلم، حدثنا همام، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "كل غلام رهينة بعقيقته يذبح عنه يوم سابعه، ويحلق ويدمى". وكان قتادة يصف الدم، فيقول: إذا ذبحت العقيقة، تؤخذ صوفة فيستقبل بها اوداج الذبيحة، ثم يوضع على يافوخ الصبي حتى إذا سال شبه الخيط، غسل راسه، ثم حلق بعد. حدثنا عفان، حدثنا ابان، بهذا الحديث، قال: ويسمى. قال عبد الله: ولا اراه واجبا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ وَيُدَمَّى". وَكَانَ قَتَادَةُ يَصِفُ الدَّمَ، فَيَقُولُ: إِذَا ذُبِحَتْ الْعَقِيقَةُ، تُؤْخَذُ صُوفَةٌ فَيُسْتَقْبَلُ بِهَا أَوْدَاجُ الذَّبِيحَةِ، ثُمَّ يُوضَعُ عَلَى يَافُوخِ الصَّبِيِّ حَتَّى إِذَا سَالَ شَبَهُ الْخَيْطِ، غُسِلَ رَأْسُهُ، ثُمَّ حُلِقَ بَعْدُ. حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَيُسَمَّى. قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَلَا أُرَاهُ وَاجِبًا.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر لڑکا اپنے عقیقے میں گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن قربانی کی جائے، اس کے بال مونڈے جائیں اور خون (اس کے سر پر) لگایا جائے۔“ راوی حدیث امام قتادہ رحمہ اللہ خون لگانے کا طریقہ اس طرح بتاتے تھے کہ جب جانور ذبح کیا جائے تو اس کے بالوں (اون) میں سے ایک ٹکڑا لیا جائے اور جانور کی رگوں پر رکھ دیا جائے، پھر وہ ٹکڑا نومولود بچے کی چندیا پر رکھ دیا جائے یہاں تک کہ دھاگوں کی طرح اس بچے کے سر سے خون بہنے لگے، پھر اس کا سر دھویا جائے، اس کے بعد بچے کے بال مونڈے جائیں۔ عفان نے کہا: ابان نے بھی ہم سے یہ حدیث بیان کی لیکن «دمي» کے بجائے «يسمي» کہا یعنی خون سے لتھیڑنے کے بجائے یہ کہا کہ اس کا نام رکھا جائے۔ (مطلب یہ کہ راوی سے اس کلمے میں سہو یا وہم ہو گیا ہے)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: خون سے سر کو لتھیڑنا میں واجب نہیں سمجھتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2012]» اس حدیث میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کے سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے سماع میں کلام ہے، لیکن حدیث کی اصل صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5472]، [أبوداؤد 2838]، [ترمذي 1522]، [نسائي 4231]، [ابن ماجه 3165]، [طيالسي 1117]، [طبراني 6831]، [مشكل الآثار 453/1]، [الحاكم 237/4]
وضاحت: (تشریح احادیث 2005 سے 2008) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ جب تک اس کا عقیقہ نہ کیا گیا گروی رہتا ہے، اور عقیقہ جانور کو بھی کہتے ہیں اور کھانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن کرنا سنّت ہے۔ ساتویں دن نہ ہو سکے تو جب بھی موقع میسر آئے قضا کے طور پر کسی بھی دن کیا جا سکتا ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے: ساتویں دن نہ ہو سکے تو چودہویں دن یا پھر اکیسویں دن، اس کے بعد جس دن بھی چاہے کیا جا سکتا ہے۔ عقیقہ کا گوشت تقسیم کرنا، پکا کر کھانا، دوست و احباب، عزیز و اقارب کو کھلانا مناسب ہے، ساتویں دن ہی بال کاٹنا اور ختنہ کرانا، نام رکھنا اور غسل دینا بھی سنّت ہے، بالوں کے برابر سونا چاندی ان کے ہم وزن صدقہ و خیرات کرنا بھی ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کے لئے کہا تھا، اس حدیث میں ذبیحہ کے خون کو بچے کے سر پر لتھیڑنے کا ذکر ہے جس کا علماء نے انکار کیا ہے۔ ابوداؤد و نسائی میں بسند صحیح سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم دورِ جاہلیت میں جب بچہ پیدا ہوتا تو بکری ذبح کر کے اس کا خون بچے کے سر سے لگاتے تھے، جب الله تعالیٰ اسلام کو لایا تو ہم بکری ذبح کرتے تھے اور بچے کے سر پر زعفران لگاتے، لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ دورِ جاہلیت کی رسم تھی، ہو سکتا ہے شروع میں ایسا کیا جاتا رہا ہو لیکن بعد میں اس کا حکم منسوخ ہو گیا۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث الصنعاني، عن شداد بن اوس، قال: حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم اثنتين: قال:"إن الله كتب عليكم الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فاحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم، فاحسنوا الذبح، وليحد احدكم شفرته، ثم ليرح ذبيحته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اثْنَتَيْنِ: قَالَ:"إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَيْكُمُ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءِ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ، فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، ثُمَّ لِيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ".
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو چیزیں حفظ کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (یعنی رحم و انصاف) کو فرض کیا ہے، سو تم (قصاص یا جہاد میں) جب قتل کرو تو جلدی فراغت کرو (ترسا ترسا کر نہ مارو) اور دوسرے جب کسی جانور کو ذبح کرو تو ٹھیک سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر کوئی اپنی چھری کو تیز کر لے اور پھر اپنے ذبیحہ کو (جلد ذبح کر کے) راحت پہنچائے، اذیت میں مبتلا نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2013]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1955]، [أبوداؤد 2815]، [ترمذي 1409]، [نسائي 4417]، [ابن ماجه 3170]، [ابن حبان 5883]
وضاحت: (تشریح حدیث 2008) ذبیحہ کو آرام پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ذبح کرنے کے بعد ٹھنڈا ہونے دے، اور بھونٹی بے دھار چھری سے ذبح کر کے اذیت میں مبتلا نہ کرے، اور یہ اسلام کا نظامِ رحمت ہے کہ ہر کام میں خوش اسلوبی اور عدم اذیت کی تعلیم ہے، حتیٰ کہ جانوروں کے ذبح کرنے میں بھی اس عظیم قاعدے کو بروئے کار لایا جائے اور جانور کو تڑپا تڑپا کر نہ مارا جائے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى بن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر: ان امراة كانت ترعى لآل كعب بن مالك غنما بسلع، فخافت على شاة منها ان تموت، فاخذت حجرا فذبحتها به، وإن ذلك ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم "فامرهم باكلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَرْعَى لِآلِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ غَنَمًا بِسَلْعٍ، فَخَافَتْ عَلَى شَاةٍ مِنْهَا أَنْ تَمُوتَ، فَأَخَذَتْ حَجَرًا فَذَبَحَتْهَا بِهِ، وَإِنَّ ذَلِكَ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَأَمَرَهُمْ بِأَكْلِهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت (لونڈی) سلع پہاڑی پر آل کعب بن مالک کی بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن ان بکریوں میں سے ایک کے مر جانے کا اسے خوف ہوا تو اس نے ایک پتھر لیا (جو دھار دار تھا) اور اس مرتی ہوئی بکری کو اس سے ذبح کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے پتھر سے ذبح کرنے کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کو کھانے کا حکم فرمایا: (یعنی وہ حلال اور اس کا گوشت بھی حلال تھا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2014]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5503، 5505]، [ابن حبان 5892]، [موارد الظمآن 1075]، [ابن ماجه 3182]
وضاحت: (تشریح حدیث 2009) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے عورت اور لونڈی کے ہاتھ سے ذبح کئے ہوئے جانور کے حلال ہونے پر استدلال کیا ہے، نیز یہ کہ پتھر اگر دھار دار ہے تو اس سے ذبح کرنا جائز ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ایک روایت (5503) ہے: «مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَ ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ فَكُلْ ..... إلخ.» جب لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی ہے کیسے ذبح کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو (دهار دار) چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو تو اس سے ذبح کیا ہوا جانور کھا سکتے ہو، لیکن وہ ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو، کیونکہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور دانت کا شمار ہڈی میں ہے جس سے ذبح کرنا ممنوع ہے۔
ابوالعشراء (اسامہ بن مالک) نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا حلق اور کوڑی ہی کے بیچ میں ذبح کرنا ضروری ہے؟ فرمایا: ”اگر تم اس کی ران چھید دو تو بھی تمہارے لئے کافی ہے۔“ حماد بن سلمہ نے کہا: ہم اس کو کنویں میں گرے ہوئے جانور پر محمول کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2015]» اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ ابوالعشراء مجہول، ان کے والد غیر معروف، جن سے حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔ حوالہ دیکھے: [أبوداؤد 2825]، [ترمذي 1481]، [نسائي 4420]، [ابن ماجه 3184]، [فتح الباري 641/9]
وضاحت: (تشریح حدیث 2010) اس حدیث کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ران میں کونچ دینا یا چھید دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ جب ذبح کرنے پر قدرت نہ ہو، جیسے جنگلی جانور بھاگ رہا ہو، یا پالتو جانور بھڑک جائے اور ذبح کرنے کی مہلت نہ ملے تو اس کو کہیں بھی مار کر زخمی کر سکتے ہیں اور پھر ذبح کر دیں (والله اعلم)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، حدثني المنهال بن عمرو، قال: سمعت سعيد بن جبير، يقول: خرجت مع ابن عمر في طريق من طرق المدينة، فإذا غلمة يرمون دجاجة، فقال ابن عمر: من فعل هذا؟ فتفرقوا. فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم "لعن من مثل بالحيوان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: خَرَجْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَإِذَا غِلْمَةٌ يَرْمُونَ دَجَاجَةً، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ فَتَفَرَّقُوا. فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "لَعَنَ مَنْ مَثَّلَ بِالْحَيَوَانِ".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے کے راستوں میں سے ایک راستے سے گزر رہا تھا، اچانک کچھ لڑکوں کو دیکھا کہ وہ (ایک مرغی کو باندھ کر اس کا) نشانہ لگا رہے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کس نے ایسا کیا ہے؟ وہ سب ادھر ادھر بھاگ گئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کا مثلہ کرنے والے پر لعنت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2016]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5515]، [مسلم 1958]، [نسائي 4453]، [أبويعلی 5652]، [ابن حبان 5617]
وضاحت: (تشریح حدیث 2011) یعنی کسی بھی حیوان کو باندھ دیا جائے پھر اس کا تیر یا گولی سے نشانہ لگایا جائے، اور یہ ترسا ترسا کر مارنا، ایک ایک جزء اور گوشت کا کاٹنا یا مثلہ کرنا ہے، جس کی اسلام نے سخت مذمت کی ہے اور ایسا کرنے والے پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ جانور کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا، سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر وہ جانور مرغی ہی کیوں نہ ہو میں اسے باندھ کر نہیں ماروں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2017]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2687]، [أبويعلی 2497، 6790]، [ابن حبان 5609]، [الموارد 1072]
وضاحت: (تشریح حدیث 2012) سبحان اللہ! قربان جائیں اسلام کے نظامِ عدل و رحمت پر کہ ایک معمولی جانور کو بھی ایذاء دے کر مارنے کی ممانعت کر دی گئی اور اس کے خلاف عمل کرنے والے اسلام میں ملعون ہیں۔ یعنی رحمتِ باری تعالیٰ سے دور بھگا دیئے جاتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے۔