(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى بن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر: ان امراة كانت ترعى لآل كعب بن مالك غنما بسلع، فخافت على شاة منها ان تموت، فاخذت حجرا فذبحتها به، وإن ذلك ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم "فامرهم باكلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَرْعَى لِآلِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ غَنَمًا بِسَلْعٍ، فَخَافَتْ عَلَى شَاةٍ مِنْهَا أَنْ تَمُوتَ، فَأَخَذَتْ حَجَرًا فَذَبَحَتْهَا بِهِ، وَإِنَّ ذَلِكَ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَأَمَرَهُمْ بِأَكْلِهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت (لونڈی) سلع پہاڑی پر آل کعب بن مالک کی بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن ان بکریوں میں سے ایک کے مر جانے کا اسے خوف ہوا تو اس نے ایک پتھر لیا (جو دھار دار تھا) اور اس مرتی ہوئی بکری کو اس سے ذبح کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے پتھر سے ذبح کرنے کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کو کھانے کا حکم فرمایا: (یعنی وہ حلال اور اس کا گوشت بھی حلال تھا)۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2009) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے عورت اور لونڈی کے ہاتھ سے ذبح کئے ہوئے جانور کے حلال ہونے پر استدلال کیا ہے، نیز یہ کہ پتھر اگر دھار دار ہے تو اس سے ذبح کرنا جائز ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ایک روایت (5503) ہے: «مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَ ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ فَكُلْ ..... إلخ.» جب لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی ہے کیسے ذبح کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو (دهار دار) چیز خون بہا دے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو تو اس سے ذبح کیا ہوا جانور کھا سکتے ہو، لیکن وہ ناخن اور دانت سے ذبح نہ کیا گیا ہو، کیونکہ ناخن حبشیوں کی چھری ہے اور دانت کا شمار ہڈی میں ہے جس سے ذبح کرنا ممنوع ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2014]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5503، 5505]، [ابن حبان 5892]، [موارد الظمآن 1075]، [ابن ماجه 3182]