(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن محمد بن عبد الله بن نوفل، قال: سمعت عام حج معاوية يسال سعد بن مالك: "كيف تقول بالتمتع بالعمرة إلى الحج؟ قال: حسنة جميلة". فقال: قد كان عمر ينهى عنها، فانت خير من عمر؟ قال: عمر خير مني، وقد فعل ذلك النبي صلى الله عليه وسلم وهو خير من عمر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامَ حَجَّ مُعَاوِيَةُ يَسْأَلُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ: "كَيْفَ تَقُولُ بِالتَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ؟ قَالَ: حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ". فَقَالَ: قَدْ كَانَ عُمَرُ يَنْهَى عَنْهَا، فَأَنْتَ خَيْرٌ مِنْ عُمَرَ؟ قَالَ: عُمَرُ خَيْرٌ مِنِّي، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ خَيْرٌ مِنْ عُمَرَ.
محمد بن عبدالله نوفل نے کہا: جس سال سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، میں نے انہیں سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کرتے ہوئے سنا: آپ عمرے کے بعد حج کے لئے تمتع کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ (یعنی عمرے کے بعد احرام کھول دینے اور آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لئے دوبارہ احرام باندھنے کے بارے میں)، انہوں نے کہا: تمتع بہت بہتر و اچھا ہے یعنی افضل ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو اس (تمتع) سے منع کرتے تھے تو کیا تم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو؟ جواب دیا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بہتر تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1855]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 805]، [صحيح ابن حبان 3923، 3939]، [موارد الظمآن 995، 996]
وضاحت: (تشریح حدیث 1851) سبحان الله کیا سوال اور کتنا نپا تلا جواب کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو مجھ سے بہتر و اچھے تھے لیکن ہمیں اس ذاتِ گرامی نے ایسا کرنے کا حکم دیا جو ہم سب سے بہتر و اعلى و افضل تھے۔ اس میں کسی کی تنقیص بھی نہیں اور مقامِ نبوّت کی نشان دہی ہے۔ اس سے حجِ تمتع کے افضل ہونے کا ثبوت ملا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، حدثنا قيس بن مسلم، عن طارق، عن ابي موسى، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حج وهو منيخ بالبطحاء، فقال لي:"احججت؟"قلت: نعم. قال:"كيف اهللت؟". قال: قلت: لبيك بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم. قال:"احسنت، اذهب فطف بالبيت، وبالصفا والمروة، ثم حل". قال: فطفت بالبيت، وبالصفا والمروة، ثم اتيت امراة من نساء بني قيس فجعلت تفلي راسي، فجعلت افتي الناس بذلك، فقال لي رجل: يا عبد الله بن قيس، رويدا بعض فتياك، فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعدك. فقلت: يا ايها الناس، من كنا افتيناه فتيا، فليتئد، فإن امير المؤمنين قادم عليكم فبه فاتموا. فلما قدم اتيته فذكرت ذلك له، فقال: إن ناخذ بكتاب الله، فإن كتاب الله يامر بالتمام، وإن ناخذ بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحل حتى بلغ الهدي محله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَجَّ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ لِي:"أَحَجَجْتَ؟"قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ:"كَيْفَ أَهْلَلْتَ؟". قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ:"أَحْسَنْتَ، اذْهَبْ فَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ". قَالَ: فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ بَنِي قَيْسٍ فَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسِي، فَجَعَلْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، رُوَيْدًا بَعْضَ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ. فَقُلْتُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا، فَلْيَتَّئِدْ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ فَأْتَمُّوا. فَلَمَّا قَدِمَ أَتَيْتُهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو میں (یمن سے واپس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وادی بطحاء) میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تم نے حج کا ارادہ کیا؟“ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: ”تم نے کون سا احرام باندھا؟“ عرض کیا: جیسا آپ نے باندھا، فرمایا: ”تم نے بہت اچھا کیا، اب جاؤ کعبہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کی سعی کرو پھر احرام کھول دو“، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے طواف و سعی صفا و مروہ کی کر لی پھر (اپنے خاندان) بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا جس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں (یعنی کنگھی کی)، پھر میں لوگوں کو عمرے کے بعد احرام کھول دینے یعنی تمتع کا فتویٰ دینے لگا، تو ایک شخص نے مجھ سے کہا: اے عبداللہ بن قیس (یہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا نام ہے) اپنے اس فتوے سے توقف کرو، کیونکہ تم کو معلوم نہیں تمہارے بعد امیر المومنین نے نیا حکم دیا ہے، چنانچہ میں نے اعلان کیا کہ: اے لوگو! ہم نے جس کو (تمتع کا) فتویٰ دیا ہے وہ انتظار کرے کیونکہ امیر المومنین تشریف لانے والے ہیں، تم ان کی اقتدا کرنا، پس جب امیر المومنین (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) تشریف لے آئے تو میں نے ان سے اس کا ذکر کیا، فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ ہم کتاب اللہ پر عمل کریں، اللہ تعالیٰ نے احرام کی حالت میں رہنے کا حکم دیا ہے «وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ» اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کریں جنہوں نے ہدی کی قربانی تک احرام نہیں کھولا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1856]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1559]، [مسلم 1221]، [أبويعلی 7778]، [نسائي 2737، 2741]
وضاحت: (تشریح حدیث 1852) ان دونوں باتوں سے تمتع کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے « ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ﴾ » کے بعد خود فرمایا: « ﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ﴾[البقرة: 196] » یعنی جو تمتع کرے، اس پر جو بھی میسر ہو قربانی کرے، اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی (قربانی کا جانور) کے ساتھ ہونے کی وجہ سے احرام نہیں کھولا تھا، لیکن صحابہ کرام کو جن کے ساتھ ہدی نہیں تھے احرام کھول دینے کا حکم دیا، لہٰذا قرآن پاک اور سنّتِ مطہرہ سے تمتع کرنا ثابت ہوا جیسا کہ اوپر احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ اور اس بارے میں سیدنا عمر و سیدنا عثمان و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا استدلال درست نہیں۔ ان احادیث سے تمتع اور قران کی مشروعیت معلوم ہوئی، حجِ قران یہ ہے کہ جس حاجی کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ میقات سے حج کا احرام باندھے اور طواف و سعی کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے یہاں تک کہ قربانی سے فارغ ہو، اس کے بعد احرام کھولے۔ اور تمتع یہ ہے کہ حج و عمرے کی نیت سے احرام باندھے اور عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، 8 ذوالحجہ کو پھر سے اپنی قیام گاہ سے احرام باندھ کر ارکانِ حج پورے کرے، یہ تین حج کی اقسام ہیں اور سب جائز ہیں، اس میں اختلاف ہے کہ کون سی قسم سب سے افضل ہے، اور صحیح یہ ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی نے صرف حج کی نیت کی اور اس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ فسخِ نیّت کر کے عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول سکتا ہے جیسا کہ اس طویل حدیث میں سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمتع کا حکم دیا، امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کہا کہ فسخِ حج کو چوبیس صحابہ نے روایت کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "خمس لا جناح في قتل من قتل منهن: الغراب، والفارة، والحداة، والعقرب، والكلب العقور".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "خَمْسٌ لَا جُنَاحَ فِي قَتْلِ مَنْ قُتِلَ مِنْهُنَّ: الْغُرَابُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ہیں جن کے قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں: کوا، چوہیا، چیل، بچھو، اور کالا کتا“(کٹ کھنا کتا)۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1857]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے دیکھئے: [بخاري 1826]، [مسلم 1199]، [نسائي 2835]، [أبويعلی 5428]، [ابن حبان 3961]، [الحميدي 631]
وضاحت: (تشریح حدیث 1853) صحیح حدیث میں صراحت ہے کہ مذکورہ بالا پانچوں موذی جانوروں کو حل و حرم میں ہر جگہ قتل کیا جاسکتا ہے، یہ حدیث آگے آ رہی ہے اور نسائی میں ہے پانچ جانور ہیں جن کے مار ڈالنے میں محرم پر کوئی گناہ نہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق، اخبرنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:"امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل خمس فواسق في الحل والحرم: الحداة، والغراب، والفارة، والعقرب، والكلب العقور". قال عبد الله: الكلب العقور، وقال بعضهم: الاسود.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ خَمْسِ فَوَاسِقَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْحِدَأَةِ، وَالْغُرَابِ، وَالْفَأْرَةِ، وَالْعَقْرَبِ، وَالْكَلْبِ الْعَقُورِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: الْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الْأَسْوَدُ.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ موذی جانوروں کو حل و حرم میں مار ڈالنے کا حکم دیا: چیل، کوا، چوہیا، بچھو اور کالا یا کاٹنے والا کتا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: بعض رواۃ نے «الكلب العقور» کہا اور بعض نے «الكلب الاسود» ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1858]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1829، 3314]، [مسلم 1198]، [ترمذي 837]، [نسائي 2890]
سالم نے اپنے والد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1859]» اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبويعلی 4503]، [ابن حبان 5632، 5633]، [مصنف عبدالرزاق 8374]
وضاحت: (تشریح احادیث 1854 سے 1856) حدودِ حرم میں قتل و غارتگری جائز نہیں لیکن ایذا دینے والے جانور درندے اس سے مستثنیٰ ہیں، انہیں ہر جگہ ہر حال میں مارنا درست ہے۔ مولانا راز صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ پانچوں جانور جس قدر بھی موذی ہیں ظاہر ہے ان کی ہلاکت کے حکم سے حضرت شارع علیہ السلام نے بنی نوع انسان کے مالی، جسمانی، اقتصادی، غذائی بہت سے مسائل کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، کوا، چیل (چھپٹا مارنے) ڈاکہ زنی میں مشہور ہیں، اور بچھو اپنی نیش زنی (ڈنک مارنے میں)، چوہا انسانی صحت کے لئے مضر، پھر غذاؤں کے ذخیروں کا دشمن، اور کاٹنے والا کتا صحت کے لئے انتہائی خطرناک، یہی وجہ ہے جو ان کا قتل ہر جگہ جائز ہوا۔ [شرح بخاري 1829] ۔ مسلم شریف میں سانپ کا بھی ذکر ہے، لہٰذا یہ چھ موذی جانور قتل الموذی قبل الايذاء کے قاعدے کے تحت واجب القتل ہیں، اسی طرح وہ جانور ہیں جو اس زمرے میں آتے ہیں، جیسے شیر چیتا وغیرہ، اور بعض فقہاء نے کلب کی تعریف میں بھیڑیئے کو بھی داخل کیا ہے، واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
سیدنا عبدالله بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہ آپ محرم تھے، مقام لحی جمل میں پچھنا لگوایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1861]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1836]، [مسلم 1203]، [نسائي 2850]، [ابن ماجه 3481]، [ابن حبان 3953]، [معرفة السنن والآثار للبيهقي 9732]
وضاحت: (تشریح احادیث 1856 سے 1858) لحی جمل ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے، بخاری شریف میں ہے کہ یہ پچھنا یاسینگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرِ مبارک میں لگوایا، اس سے معلوم ہوا کہ بوقتِ ضرورت محرم پچھنا لگوا سکتا ہے، مروجہ اعمالِ جراحیہ کو بھی بوقتِ ضرورتِ شدید اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، وطاوس، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "احتجم وهو محرم". قال إسحاق L927: قال سفيان مرة: عن عطاء، ومرة، عن طاوس، وجمعهما مرة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، وَطَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ". قَالَ إِسْحَاق L927: قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: عَنْ عَطَاءٍ، وَمَرَّةً، عَنْ طَاوُسٍ، وَجَمَعَهُمَا مَرَّةً.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اسحاق راہویہ نے کہا: سفیان نے ایک مرتبہ عطا سے روایت کی اور ایک مرتبہ طاؤس سے اور ایک مرتبہ دونوں سے روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1862]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1835]، [مسلم 1202]، [أبويعلی 2360، 2390]، [ابن حبان 3950، 3951]، [الحميدي 508، 509]
وضاحت: (تشریح حدیث 1858) ان روایاتِ صحیحہ کے پیشِ نظر علمائے کرام نے حالتِ احرام میں پچھنا لگوانے کے جواز پر اجماع کیا ہے چاہے سر میں پچھنا لگوایا جائے یا اور کسی مقام پر، ضرورت ہو یا نہ ہو، شرط یہ ہے کہ بال نہ کاٹنے پڑیں، اگر بال ٹوٹے یا کاٹنے پڑے تو فدیہ (دم) دینا واجب ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر حسبِ ضرورت سر کے بال منڈانے پڑے یا کپڑا سلا ہوا پہننا پڑے یا شکار کو مار گرائے تو محرم پر ان سب امور میں فدیہ (دم) واجب ہے۔ (وحیدی بتصرف)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں نکاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1863]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1837، 4259]، [مسلم 1410]، [ترمذي 842]، [نسائي 2840]، [أبويعلی 2393]، [ابن حبان 4129]، [الحميدي 513]
وضاحت: (تشریح حدیث 1859) حالتِ احرام میں نکاح کرنے یا کروانے کی ممانعت ہے (کما رواه مسلم)۔ بعض علماء نے اس حدیث کا مطلب یہ لیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدودِ حرم میں نکاح کیا نہ کہ حالتِ احرام میں، نیز یہ کہ اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے چوک ہوئی ہے کیونکہ ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے اس حالت میں جو نکاح کیا وہ اس کی تردید کرتی ہیں جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن نبيه بن وهب: ان رجلا من قريش خطب إلى ابان بن عثمان وهو امير الموسم، فقال ابان: لا اراه إلا عراقيا جافيا،"إن المحرم لا ينكح ولا ينكح". اخبرنا بذلك عثمان، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. سئل ابو محمد: تقول بهذا؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ خَطَبَ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ، فَقَالَ أَبَانُ: لَا أُرَاهُ إِلا عِرَاقِيًّا جَافِيًا،"إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْكِحُ وَلَا يُنْكِحُ". أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ عُثْمَانُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. سُئِلَ أَبُو مُحَمَّد: تَقُولُ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
نبیہ بن وہب نے روایت کیا کہ قریش کے ایک شخص نے ابان بن عثمان کے پاس پیغام شادی بھیجا جو کہ اس موسم میں امیر الحج تھے، ابان نے کہا: تم بالکل عراقی گنوار لگتے ہو، بیشک محرم نہ اپنا نکاح کر سکتا ہے نہ کروا سکتا ہے، ہم کو اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دی۔ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں (یعنی محرم نہ نکاح کرے نہ کروائے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1864]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1409]، [أبوداؤد 1841]، [ترمذي 840]، [ابن ماجه 1966]، [ابن حبان 4123]
وضاحت: (تشریح حدیث 1860) صحیح مسلم میں ہے عمر بن عبیداللہ بن معمر، شبیہ بن عثمان کی بیٹی سے اپنے بیٹے طلحہ کا نکاح کرنا چاہتے تھے اور سب حالتِ احرام میں تھے، چنانچہ امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فرزند ابان نے صحیح مسئلہ بتایا کہ حالتِ احرام میں نکاح کرنا یا کرانا دونوں ممنوع ہیں، اور یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔