سالم نے اپنے والد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1854 سے 1856) حدودِ حرم میں قتل و غارتگری جائز نہیں لیکن ایذا دینے والے جانور درندے اس سے مستثنیٰ ہیں، انہیں ہر جگہ ہر حال میں مارنا درست ہے۔ مولانا راز صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ پانچوں جانور جس قدر بھی موذی ہیں ظاہر ہے ان کی ہلاکت کے حکم سے حضرت شارع علیہ السلام نے بنی نوع انسان کے مالی، جسمانی، اقتصادی، غذائی بہت سے مسائل کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، کوا، چیل (چھپٹا مارنے) ڈاکہ زنی میں مشہور ہیں، اور بچھو اپنی نیش زنی (ڈنک مارنے میں)، چوہا انسانی صحت کے لئے مضر، پھر غذاؤں کے ذخیروں کا دشمن، اور کاٹنے والا کتا صحت کے لئے انتہائی خطرناک، یہی وجہ ہے جو ان کا قتل ہر جگہ جائز ہوا۔ [شرح بخاري 1829] ۔ مسلم شریف میں سانپ کا بھی ذکر ہے، لہٰذا یہ چھ موذی جانور قتل الموذی قبل الايذاء کے قاعدے کے تحت واجب القتل ہیں، اسی طرح وہ جانور ہیں جو اس زمرے میں آتے ہیں، جیسے شیر چیتا وغیرہ، اور بعض فقہاء نے کلب کی تعریف میں بھیڑیئے کو بھی داخل کیا ہے، واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1859]» اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبويعلی 4503]، [ابن حبان 5632، 5633]، [مصنف عبدالرزاق 8374]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق