(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن حبيب بن الشهيد، عن بكر بن عبد الله، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "اهل بهما جميعا"، فلقيت ابن عمر فاخبرته بقول انس، فقال: إنما اهل بالحج، فرجعت إلى انس فاخبرته بقول ابن عمر، فقال: ما يعدونا إلا صبيانا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا"، فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ أَنَسٍ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَهَلَّ بِالْحَجِّ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَنَسٍ فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: مَا يَعُدُّونَا إِلَّا صِبْيَانًا.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا، راوی بکر نے کہا کہ پھر میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی اور انہیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے قول کے بارے میں بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا تھا، میں پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بات بتائی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہم کو بچہ سمجھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1967]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1232]، [أبوداؤد 1795]، [نسائي 2728]، [ابن حبان 3933]
وضاحت: (تشریح احادیث 1961 سے 1963) نسائی کی روایت میں ہے: تم ہمیں بچہ سمجھتے ہو، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك عمره و حجًا معًا» کہتے ہوئے سنا۔ اس حدیث کو ذکر کرنے کا مقصد امام دارمی رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کی نیّت کر کے احرام باندھا تھا، لہٰذا یہ حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قول و فعل کی تائید کرتی ہے جس کی تفصیل پیچھے ذکر کی جا چکی ہے۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبد مناف! اگر تم (خانہ کعبہ کے) متولی بنو تو کسی کو کسی وقت بھی چاہے دن ہو یا رات اس میں طواف اور نماز سے نہ روکنا۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1963) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم شریف میں کوئی کسی وقت بھی داخل ہو نماز پڑھ سکتا ہے اور طواف کر سکتا ہے چاہے طلوع آفتاب کا وقت ہو یا زوال و غروبِ آفتاب کا وقت، اہلِ حدیث و امام شافعی و احمد و اسحاق رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زوال اور طلوع و غروب آفتاب کے وقت نماز و طواف جائز نہیں چاہے حرم ہی کیوں نہ ہو۔ (وحیدی)، لیکن صحیح حدیث کے مقابلے میں ان کا یہ قول درست اور قابلِ عمل نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، اخبرني نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "بات بذي طوى حتى اصبح، ثم دخل مكة"، وكان ابن عمر يفعله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "بَاتَ بِذِي طُوًى حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ دَخَلَ مَكَّةَ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی طوی میں رات گزاری، پھر جب صبح ہوئی تو آپ مکہ میں داخل ہوئے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسے ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1969]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1574]، [مسلم 1259]، [أبوداؤد 1865]، [ابن ماجه 3908]
وضاحت: (تشریح حدیث 1964) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے پاس ذی طوی میں رات گذاری، دن نکل آیا تب مکہ میں داخل ہوئے، سنّت کی اتباع میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے، اور یہ ہی کچھ علماء و فقہاء کا مسلک ہے، لیکن رات یا دن میں کسی بھی وقت مکہ میں داخل ہونا جائز ہے، عمرہ جعرانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں ہی مکہ گئے تھے۔ والله اعلم۔
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ثنیہ علیا (یعنی مقامِ کدا) کی طرف سے داخل ہوتے تھے (جو بطحاء میں ہے) اور ثنیہ سفلیٰ کی طرف سے مکہ سے خارج (واپس) ہوتے تھے (یعنی نیچے والی گھاٹی کی طرف سے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1970]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1577]، [مسلم 1257]، [أبوداؤد 1866]، [نسائي 2865]
وضاحت: (تشریح حدیث 1965) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے سے مکہ جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس ہوتے جیسا کہ عید کی نماز کے لئے کرتے تھے، لہٰذا ایک راستے سے آنا دوسرے سے واپس جانا مستحب ہوا۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں مسجد کے پاس جب رکاب میں پیر رکھا اور اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1971]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2865]، [مسلم 1187/27]، [ابن ماجه 2916]، [أبويعلی 5473]، [ابن حبان 3763]، [الحميدي 666]
وضاحت: (تشریح حدیث 1966) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھ کر کب لبیک پکاری اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس اختلاف کی وجہ مروی ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لبیک پکاری، بعض صحابہ نے اس کو سنا اور یاد رکھا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر سوار ہوئے تو لبیک پکاری، بعض صحابہ نے یہ سنا اور یاد رکھا، پھر جب میدان کی اونچائی پر پہنچے تو لبیک کہی، بعض صحابہ نے اس کو سنا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت لبیک پکاری۔ ابوداؤد میں ہے: در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دوگانہ ادا کی تب ہی لبیک پکارا۔ (وحیدی)۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب محرم کی آنکھ میں تکلیف ہو تو وہ اس پر ایلوے کا لیپ لگا لے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1972]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1204]، [أبوداؤد 1839]، [ترمذي 952]، [نسائي 2710]، [الحميدي 34]۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: علماء کا اسی پرعمل ہے کہ محرم حالتِ احرام میں آنکھ پر دوا لگا سکتا ہے بشرطیکہ اس میں خوشبو نہ ہو۔
(حديث مرفوع) «اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن عمرو بن دينار قال: سمعت ابن عمر، يقول:"قدم النبي صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت وصلى عند المقام ركعتين، ثم خرج إلى الصفا".(حديث مرفوع) «أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ:"قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا کی طرف تشریف لے گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1973]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 395، 396]، [مسلم 1234]، [أبويعلی 5627]، [ابن حبان 3809]، [الحميدي 863]
شعبہ نے کہا: مجھ سے ایوب نے حدیث بیان کی عمر و بن دینار سے انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ یہی سنت ہے۔ یعنی طواف کی دو رکعت مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھنا سنت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1974]» اس روایت کی سند بھی موصول اور صحیح ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ مزید حوالہ دیکھئے: [أحمد 85/2]، [أبويعلی 5629]
وضاحت: (تشریح احادیث 1967 سے 1970) اگر وہاں جگہ نہ ملے تو یہ دو رکعت کسی بھی جگہ سعی سے پہلے پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کا ذکر حدیث نمبر (1887) کی شرح میں گذر چکا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن ابن عيينة، عن سليمان الاحول، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: كان الناس ينصرفون في كل وجه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا ينفرن احد حتى يكون آخر عهده بالبيت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ (حج کے بعد) ہر طرف سے واپس ہو رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص مکہ سے کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1975]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1755]، [مسلم 1327]، [أبوداؤد 2002]، [ابن ماجه 3070]، [أبويعلی 403]، [ابن حبان 3897]، [الحميدي 511]