(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن محمد، قال: سئل انس بن مالك: "اقنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الصبح؟ قال: نعم، فقيل له او قلت له: قبل الركوع او بعد الركوع؟ قال: بعد الركوع يسيرا". قال ابو محمد: اقول به، وآخذ به، ولا ارى ان آخذ به إلا في الحرب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: "أَقَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقِيلَ لَهُ أَوَ قُلْتُ لَهُ: قَبْلَ الرُّكُوعِ أَوْ بَعْدَ الرُّكُوعِ؟ قَالَ: بَعْدَ الرُّكُوعِ يَسِيرًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَقُولُ بِهِ، وَآخُذُ بِهِ، وَلَا أَرَى أَنْ آخُذَ بِهِ إِلَّا فِي الْحَرْبِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں قنوت کیا؟ جواب دیا کہ: ہاں۔ دریافت کیا گیا یا (یہ کہا) میں نے کہا: رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد میں (قنوت پڑھی)؟ کہا: تھوڑے دن رکوع کے بعد۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں اسی کا قائل اور عامل ہوں اور میری رائے میں یہ قنوت صرف ایامِ حرب میں مشروع ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1640]» اس کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1001]، [مسلم 677/298]، [أبوداؤد 1444]، [نسائي 1070]، [ابن ماجه 1184]، [أبويعلی 2832]، [ابن حبان 1973]
وضاحت: (تشریح احادیث 1635 سے 1638) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ قنوتِ نازلہ کسی بھی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے، اور یہ رکوع سے پہلے بھی جائز ہے اور رکوع کے بعد بھی، جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہے، امام دارمی رحمہ اللہ بھی اسی طرف مائل ہیں اور اہل الحدیث کا یہی مسلک ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے، اور جو لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں۔ علامہ وحیدالزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو پہلے حنفی تھے پھر مسلک اہلِ حدیث اختیار کیا، فرماتے ہیں: اہلِ حدیث کا مسلک یہ ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح درست ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ قنوت ہمیشہ رکوع کے بعد پڑھے، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ رکوع سے پہلے پڑھے، اور اہلِ حدیث سب سنّتوں کا مزہ لوٹتے ہیں، گذشتہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں اور ظالموں پر بد دعا کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ «(انتهىٰ مع الملخص)» ۔ ان احادیث میں وتر میں قنوت پڑھنے کا ذکر نہیں، لیکن جب فرض نماز میں قنوت پڑھنا جائز ہوا تو وتر میں بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ (داؤد رحمہ اللہ)۔ وتر میں «اَللّٰهُمَّ اهْدِنَا فِيْمَنْ هَدَيْتَ» اور قنوتِ نازلہ میں دشمن کا نام لے کر «اَللّٰهُمَّ الْعَن فُلَانًا» کہنا چاہیے اور «اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ» بھی قنوتِ نازلہ کے لئے ہے، اس کے علاوہ بھی «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ» وغیرہ ادعیہ قنوت کے طور پر پڑھنا وتر اور دیگر نمازوں میں بوقتِ ضرورت جائز ہے (واللہ علم۔ مترجم)۔